ہم نے بھی ووٹ ڈالا …

شیریں حیدر  ہفتہ 18 مئ 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کئی دن سے ایک خوف کی کیفیت تھی اور مختلف آراء اور اندازے تھے، کوئی کہتا تھا کہ الیکشن کسی نہ کسی طرح ٹل جائیں گے… ہر دھماکا اس خدشے کی تصدیق کرنے کو کافی تھا۔ ’’اگر ہوں گے تو بڑے خونیں الیکشن ہوں گے!!‘‘ کوئی کہتا تو دل لہو لہو ہو جاتا کہ جانے ہم کون کون سے نقصانات اٹھائیں گے۔ مگر گیارہ مئی کا سورج طلوع ہوا اور چشم فلک نے جوق در جوق لوگوں کو ووٹ کے استعمال کے لیے نکلتے دیکھا، چند ایک ناخوشگوار واقعات بھی ہوئے جو کہ ہمارے لیے روزمرہ معمول جیسے ہو چکے ہیں… مگر جن پر قیامت ٹوٹی، ان کا دکھ وہی جانتے ہیں۔

اس الیکشن کی سب سے مثبت بات ہے کہ میڈیا کے کردار سے لوگوں میں اپنے ووٹ کی اہمیت کا احساس ہوا، یہ بھی اچھی بات ہے کہ میڈیا نے اس بار اتنا کما لیا کہ ان کی کئی پشتیں سنور گئیں… جس طرح پکوڑوں سموسوں کے دکاندار ماہ رمضان میں اپنے سال بھر کی روٹی کما لیتے ہیں، کچھ اسی طرح ہمارے میڈیا نے اگلے الیکشن تک کی روٹیاں کما لیں۔ہمارا ووٹ ہمارے آبائی گاؤں، بھدر میں تھا سو ایک دن پہلے اسلام آباد سے کوچ کیا اور عازم بھدر ہوئے۔ جی ٹی روڈ اور پھر دیہات کی اندرونی سڑکوں کے بعد گاؤں کی گلیوں میں بھی عید کا سا سماں نظر آیا… خصوصاً نوجوانوں کی ٹولیاں رونق لگائے ہوئے تھیں، جس کسی سے راہ چلتے پوچھا کہ کس کو ووٹ دو گے… جواب بلے کا ملتا، یہ وہ طبقہ ہے جو انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا سے جڑا ہوا ہے اور کچھ نہ کچھ معلومات رکھتا ہے۔ بزرگوں کا ووٹ… پرانی سیاسی جماعتوں کا تھا اور بہت سے خاندان اور برادری کے ووٹ آزاد امیدواروں کے لیے بھی تھے۔ پہلی بار تجربہ ہوا کہ ہمارے گاؤں میں ایک ایک گھر میں ہر کسی نے مختلف لوگوں کو ووٹ دیا۔

بیٹے عبداللہ کا زندگی کا پہلا ووٹ تھا اور اس کی خوشی دیدنی تھی، وہ سمجھ رہا تھا کہ اس کے پاس ووٹ نہیں بلکہ ویٹو کی طاقت ہے، گھر میں وہ سب کو قائل کر رہا تھا کہ اس کے لیڈر کو ووٹ دینا ہے… ہم اس کی معصومیت پر ہنس رہے تھے، کوئی وعدہ کر بھی لے تو کیا اسے وفا کرے گا!!! گھر میں جو بھی سلام کرنے آ رہا تھا، اس سے عبداللہ کا پہلا سوال ووٹ کے بارے میں تھا… سب سے زیادہ جواب جو سننے کو مل رہا تھا… ’’جتھے تسیں آکھو جی!‘‘

(جس کے لیے آپ کہیں) اور وہ فوراً بتاتا اور سمجھتا کہ ایک اور ووٹ کا اضافہ ہو گیا، اب تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا!

’’یار عثمان… کہیں سے جھنڈے تو لاؤ اپنی گلی میں لگا لیتے ہیں اور کل ووٹ کے لیے جاتے ہوئے بھی انھیں ساتھ لے کر جائیں گے…‘‘ اس بات پر اسے تنبیہہ کی گئی، کیونکہ ہمارے دیہات میں ابھی تک برادری ووٹ کا نظام ہے، برادری مل کر کسی ایک ہی شخص کو ووٹ دیتی ہے اس لیے اس طرح کی سیاسی وابستگی کو گھر کے کسی فرد کی طرف سے ظاہر کرنا afford نہیں کیا جا سکتا۔کسی ایک بزرگ نے تو کمال کی بات کی، ’’عمران خان؟ وہ کون ہے؟‘‘ جب بیٹے نے بتایا کہ وہ پہلے کرکٹر ہوتے تھے، تو انھوں نے کہا، اچھا کوئی کھلاڑی ہے… مگر ووٹ تو سیاست دانوں کو دیتے ہیں نا بیٹا، کھلاڑی تو الیکشن نہیں لڑتے… جب انھیں ’’سمجھایا‘‘ گیا کہ الیکشن میں کوئی بھی کھڑا ہو سکتا ہے اور لیڈر کوئی بھی بن سکتا ہے ’’اور کیا بابا جی ٹی وی نہیں دیکھتے آپ؟‘‘

انھوں نے اپنے پوپلے سے منہ سے ہنس کر کہا، ’’پتر! یہاں چوبیس میں سے بائیس گھنٹے بجلی بند رہتی ہے، گرمی نے مت مار رکھی ہے، جب ہمیں وقفوں میں چار دفعہ آدھے آدھے گھنٹے کے لیے بجلی ملتی ہے تو ہمیں اور ’’غم‘‘ بھی ہوتے ہیں، سیاست سے محبت کے سوا…‘‘ بہر حال ہم نے بھر پور کوشش کی اس بات کے لیے کہ لوگ گھروں سے نکلیں، ٹیلی فونوں پر مسلسل پیغامات کا سلسلہ جاری تھا، بتایا جا رہا تھا کہ ووٹ کس طرح ڈالنا ہے، کس طرح ووٹ ضایع ہوجاتا ہے، سن بلاک لگا کر جائیں، پانی کی بوتل ساتھ رکھیں اور کچھ کھانے پینے کو بھی۔ پردیسی اس الیکشن کے ذریعے ملک کی تقدیر بدلتی دیکھ رہے تھے اور ممکن ہے کہ ان کی مرضی کی حکومت آ جائے تو وہ ملک میں واپس لوٹ آئیں۔ فیس بک کے ذریعے دلچسپ مباحثے ہو رہے تھے اور ایک دوسرے کے لیڈروں کی ’’شان‘‘ میں ’’قصیدے‘‘ بھی پڑھے جا رہے تھے، جو کہ میڈیا سے ہی pick کیے ہوئے clips پر مبنی تھے۔ ہم نے بھی گاؤں کے اس مخصوص فقرے کے استعمال کو خوب استعمال کیا، ’’ووٹ اسے دیں گے، جسے آپ کہیں گے!!!‘‘

’’تائی جی ووٹ دے آئیں آپ؟‘‘ میں نے سلام دعا کے بعد، پولنگ سٹیشن پر موجود اپنی تائی اماں سے پوچھا، جو کہ اس وقت ایک درخت کے گھنے سائے تلے بیٹھی تھیں، وہاں جشن کا سماں تھا، عورتیں گھروں سے باہر، کھلی فضا میں کہاں یوں ہر روز نکلتی ہیں… ’’جی پتر ڈال دیا!‘‘

’’اچھا، کسے ووٹ ڈالا آپ نے؟‘‘ میں نے اگلا مخصوص سوال کیا۔

’’پتا نہیں پتر…‘‘ انھوں نے معصومیت سے کہہ کر سگریٹ کا کش لگایا، آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ بہت ماڈرن ہیں، بلکہ ان کے فرسودہ حقے کو ان کی اگلی نسل نے سگریٹ سے بدل دیا ہے، ’’وہاں اندر ایک عورت کھڑی تھی اور کہہ رہی تھی کہ مٹکے پر مہر لگا دیں، میں نے کہا کہ لگا دو، پھر اس نے دوسری پرچی کا پوچھا، مجھے کچھ علم نہ تھا، اس نے پرچی دکھائی، میں نے تصویریں دیکھیں تو ترازو کی بڑی پیاری تصویر نظر آئی، بس میں نے اس سے کہا کہ اسی پر مہر لگا دو اور یوں میں نے ووٹ ڈال دیا!‘‘۔’’آپ کو پتا ہے کہ آپ نے کس کو ووٹ دیا ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا۔

’’ہاں ہاں، مٹکے اور ترازو کو!‘‘ انھوں نے پورے وثوق سے کہا۔اپنا نام شناختی لسٹ میں سے نکلوایا، پولنگ ایجنٹ وغیرہ نے پہچان لیا، سلام دعا کا تبادلہ ہوا، انتخابی عملے سے بصد تفاخر میرا تعارف کروایا جانے لگا اور لوگ قطار میں سے جھانک جھانک کر ’’عجوبہ‘‘ دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک کے بجائے چار لوگ میرے نام کی تلاش میں جت گئے… میں نے چند لمحے ان کی کیفیت سے محظوظ ہونے کے بعد اپنے فون کے پیغامات سے اپنا سیریل نمبر نکال کر انھیں دے دیا، ان کا سارا جوش و خروش صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور مجھے A-4 سے بھی بڑے سائز کے دو پرچے جو تصاویر سے بھرے ہوئے تھے، دے دئیے گئے اور میں قطار کی طرف بڑھی کہ آوازآئی، ’’ہٹو ہٹو!! باجی ہوراں نوں اندر جان دیو!!!‘‘ میں شرمندہ ہو گئی کہ سب خواتین نے مجھے راستہ دے دیا، مگر میں نے انکار کر دیا اور قطار میں کھڑی ہو گئی۔

’’خالہ جی! آپ تو قطار سے نکل جائیں آپ ووٹ دے چکی ہیں!‘‘ میں نے اگلی خاتون کے انگوٹھے پر سیاہی کا نشان دیکھ کر کہا۔

’’میں نے تو ابھی ووٹ نہیں ڈالا بیٹا!‘‘

’’مگر سیاہی!!!‘‘

’’یہ تو انھوں نے میرا شناختی کارڈ چیک کر کے لگا دی تھی، اس وقت سے ووٹر لسٹوں میں سے میرا نام ہی نہیں مل رہا! میں اکیلی نہیں، اس قطار میں دسیوں ایسی کھڑی ہیں جو پچھلے دو دو تین تین گھنٹوں سے کھڑی ہیں!‘‘ میں نے ان کا شناختی کارڈ کا نمبر لیا اور 8300 پر پیغام بھیجا، مگر اس پیغام کا جواب اس وقت آیا جب مجھے گھر پہنچے ہوئے بھی دو گھنٹے ہو چکے تھے اور پولنگ کا وقت باقی ہونے کے با وصف بھی مجھے یہ علم نہ تھا کہ میں کس گھر میں ان کے ووٹ نمبر کی اطلاع دوں… ان کا ووٹ یقیناt cas ہوا ہو گا، مگر کس نے اور کسے ڈالا، اس کا علم کسے… انگوٹھے کے نشانات کے ذریعے بھی آپ تصدیق کیا کروائیں گے جب نشانات لے لیے گئے ہوں گے؟ ہمارے نظام کے کھلاڑیوں کی سوچ تک نئی نسل کے دماغوں کی پہنچ ابھی تک نہیں ہے اور الیکشن کی شفافیت کو چیلنج کریں گے بھی تو ایسی بے ضابطگیوں کا کیا حل ہے، کیا ثبوت ہے!!!

پولنگ اسٹیشن جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی ہم سب کو کہتے ہوئے جا رہے تھے کہ کاروبار بند کریں، ووٹ ڈال کر آ کر کام کر لیں، دکانوں کو تالے لگائیں اور ووٹ ڈالیں۔کم از کم مثبت بات یہ رہی کہ لوگ ووٹ کی اہمیت کو سمجھ گئے ہیں، ایک ووٹ سے کیا ہوتا ہے!! کی بجائے اب لوگ سمجھ گئے ہیں کہ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے اور ہر ایک ووٹ کی اہمیت ہے۔ ’’کیا ووٹ دینا، کون سا کوئی ہمارے لیے کچھ کام کرتا ہے؟‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کے خلاف ووٹ دیں، کسی کو بھی دے دیں مگر ان کا ووٹ بینک توڑیں اور اپنا ووٹ کسی اور کو cast کرنے کی اجازت نہ دیں۔

گہما گہمی کا دن گزرا، گرلز ہائی اسکول کے احاطے میں ان گھنے درختوں کے سائے میں بیٹھی میں سوچ رہی تھی کہ یہاں کتنے الیکشن کے ہنگامے ہو چکے، کتنے لوگوں کی تقدیر کے حق یا مخالفت میں فیصلے ہوئے ہوں گے، آج ہم اس کا حصہ بنے ہیں، کل کو ہماری اگلی نسلوں نے یہاں آنا ہے کہ ہماری جڑیں یہاں ہیں۔ گھر پہنچے، بجلی ندارد، چوبیس گھنٹوں میں ابھی تک بجلی ایک گھنٹے کے لیے ہی آئی تھی۔ UPS بھی ہمت ہار چکا تھا، ہاتھ کا پنکھا جھل جھل کر بازو جواب دے چکے تھے، یکا یک دماغ نے کام کرنا شروع کر دیا، عثمان کو آواز دی، ’’بیٹا! ذرا مجھے ان کی تصاویر تو دکھانا، جن کو میں ووٹ دے کر آئی ہوں !!!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔