اِخوانُ الصفا

رفیع الزمان زبیری  اتوار 12 اگست 2018

دنیا کی قدیم بلند پایہ اور ہمیشہ زندہ رہنے والی کتابیں جنھوں نے عالمگیر شہرت حاصل کی ان میں ایک ’’اِخوانُ الصفا‘‘ بھی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ مغرب اور مشرق کی بیشتر زبانوں میں ہوچکا ہے۔ اردو میں اس کتاب کے ایک حصے کا ترجمہ مولوی شیخ اکرام علی نے کیا ہے جو 1810 میں ہندوستان پریس سے شایع ہوا ۔ پاکستان میں اس کا پہلا ایڈیشن جو ڈاکٹر احراز نقوی نے مرتب کیا ہے مجلس ترقی ادب لاہور سے 1966 میں شایع ہوا۔

یہ کتاب جو عربی میں ہے کس نے لکھی اور کب شایع ہوئی اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تیسری صدی ہجری کے بعد لکھی گئی، اس کی نوعیت ایک داستان کی سی ہے۔

ڈاکٹر احراز نقوی لکھتے ہیں۔ ’’قصے کا مرکزی خیال فقط ثنا ہے کہ انسان ہر ذی روح سے اشرف اور افضل ہے۔ اس خیال کو مصنف ایک قصے کی شکل میں کرداروں کی مدد سے پلاٹ کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ قصہ تو بے حد مختصر ہے مگر حکایت بڑی طوفانی ہے‘‘

قصہ شروع اس طرح ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں اتفاقاً ایک جہاز باد مخالف کے سبب تباہی میں آکر ایک جزیرے کے کنارے آ لگا۔ سوداگر اور اہل علم اس جہاز میں تھے ۔ ناچار مجبور ہوکر اس اجنبی دیار میں ان آدمیوں نے پڑائو ڈالا اور اس جزیرے کے تمام جانوروں کو اپنا غلام بنا کرکاروبار میں مصروف ہوگئے۔ جانوروں نے غلامی کے پھندے سے آزاد ہونے کے لیے صحرا کی راہ لی ۔آدمیوں نے جب یہ احوال دیکھا تو جانوروں کوگرفتارکرنا شروع کیا ۔اسی جزیرے میں جنوں کا بادشاہ رہتا تھا۔ لقب اس کا شاہ مرداں تھا اور نام بیو راسپ حکیم، عدل میں مشہور مانا جاتا تھا۔ جانوروں نے آپس میں مشورہ کیا اور جنوں کے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور انسانوں کے ظلم کا سارا ماجرا بیان کرکے انصاف طلب کیا۔ جنوں کے بادشاہ نے قاصدوں کو بھیج کر انسانوں کو اپنی عدالت میں طلب کیا۔ آدمیوں نے اپنی بڑائی، اقتدار اور اہلیت کا دعویٰ کیا اور قرآن حکیم سے اس کی توثیق کی۔

جنوں کے بادشاہ نے انسانوں اور جانوروں کے مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے ان کو طلب کیا۔ سب عدالت میں حاضر ہوئے۔ انسانوں نے اپنا بیان دیا اور جانوروں نے اپنا بیان نہایت فصاحت اور دلیل اور زبان کے ساتھ دیا۔ آخر میں جانوروں نے طے کیا کہ اپنی تمام ذی روح برادری کے ہر ہر فرقے اور جماعت سے ایک ایک نمائندے کا انتخاب کیا جائے جو جنوں کے بادشاہ کی عدالت میں آکر انسانوں کے ظلم و ستم کے خلاف اپنی گواہی دے اور اپنی حیثیت اور حقوق کو انسانوں اور جنوں میں تسلیم کروائے۔ عقل مند حیوانوں کی تمام پنچ برادریوں نے ہر جانب قاصد بھیج دیے کہ تمام ذی روح حیوانوں کی طرف سے ایک ایک وکیل اپنے مقدمے کے لیے آئے۔ چنانچہ ان میں سے ایک قاصد درندوں کے لیے، دوسرا پرندوں کے لیے، تیسرا شکاری جانوروں کے واسطے، چوتھا حشرات الارض یعنی کینچوے، بیر بہوٹی وغیرہ کے واسطے، پانچواں کیڑے مکوڑے، سانپ بچھوکے واسطے، چھٹا دریائی جانوروں کے واسطے مقررکرکے ہر طرف روانہ کیا۔

ہر قاصد کے ہمراہ ایک ایک وکیل آیا جس نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے اپنے بیانات اور دلیلیں منطق کی روشنی میں پیش کیں۔ آخر میں ایک فاضل زکی انسان نے کہا ’’اے بادشاہ عادل! جب کہ حضور میں انسانوں کے دعوے کا صدق ظاہر ہوگیا ہے اور یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ ان میں ایک جماعت ایسی ہے کہ وہ مقرب الٰہی ہیں اور ان کے اوصاف حمیدہ، صفات پسندیدہ، اخلاق جمیلہ، ملکیہ، سیرتیں عادل، قدسہ اور احوال ایسے عجیب و غریب ہیں کہ زبان ان کے بیان سے قاصر ہے، عقل ان کی کہنہ صفات میں عاجز ہے، تمام واعظوں اور خطیبوں نے ہمیشہ مدت العمر ان کی پیروی کی لیکن ان کے کہنہ معارف کو نہیں پہنچے، اب بادشاہ عادل ان غریب انسانوں کے حق میں کہ حیوانات جن کے غلام ہیں کیا حکم کرتا ہے‘‘ جنوں کے بادشاہ نے یہ سن کر اپنا فیصلہ دیا:

’’بادشاہ نے فرمایا کہ سب حیوانات انسانوں کے تابع اور زیرحکم رہیں اور ان کی فرماں برداری سے تجاوز نہ کریں۔ حیوانوں نے یہ فیصلہ قبول کیا اور راضی ہوکر سب نے بہ حفظ و امان وہاں سے مراجعت کی‘‘

ڈاکٹر احراز نقوی لکھتے ہیں ’’بہ ظاہر تو یہ انسانوں، جنوں اور جانوروں کا ایک واقعہ اور مکالموں سے ترتیب دیا ہوا قصہ ہے مگر اس کی تہہ میں اپنی صدی کا بولتا ہوا فلسفہ موجود ہے۔ یہ رسالہ بہت مختصر ہے مگر اختصار میں زندگی کا کوئی نکتہ یا پہلو ایسا نہیں ہے جس پر فلسفیانہ بحث موجود نہ ہو۔ ’’اِخوانُ الصفا‘‘ کا مصنف محض ایک عالم ہی نہیں ایک بہت بڑا فنکار بھی ہے۔ وہ علم و فضل کا سمندر ہے اور اپنے ہنرکا ایک دیدہ ور ماہر فن کار ہے۔ تخلیق کا اس کا ایک اپنا مقدس نصب العین ہے۔ زندگی اور عقیدے کی کچھ اقدار ہیں۔ ان ہی نظریات سے وہ زندگی کو ایک فلسفی کے ذہن سے سوچتا ہے، اس کے تمام عواقب پر نظر رکھتا ہے پھر اس کو فنکار کے قلم سے تخلیق کرتا ہے۔

ڈاکٹر احراز نقوی لکھتے ہیں کہ جہاں یہ کتاب اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ایک لاجواب تصنیف ہے اس کا اردو ترجمہ بھی باکمال ہے۔ کتاب کے مولف کی طرح مولوی شیخ اکرام علی بھی بڑے عالم فاضل تھے وہ سیتا پور میں پیدا ہوئے جو علم و ادب کا گھر تھا۔ خیر آباد میں پرورش پائی جو مدینۃ ٔ اولیا تھا اور عالموں اور فن کاروں کا مسکن تھا، دہلی میں تعلیم ہوئی جو علم و فضل کا مسکن تھا۔ اس کے علاوہ جس خاندان سے ان کا تعلق تھا وہ بھی معمولی نہ تھا۔ عالموں اور فنکاروں کا گھرانا تھا۔ پھر خود مولوی اکرام علی کی اپنی اُفتاد طبع اورکسب علم کی لگن، وہ علم کو تابندہ و فروزاں پیش کرنے کا ہنر خوب جانتے تھے۔ اس لیے انھوں نے ترجمے کے فن میں حیرت انگیز قدرت دکھائی اور ترجمہ اس فن کاری اور چابک دستی سے کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’اِخوانُ الصفا‘‘ کی تصنیف خود مولوی اکرام علی کے علم و فن کا ایک شاہکار ہے۔

مولوی شیخ اکرام علی فورٹ ولیم کالج کے آخری دور میں اس کے شعبہ تصنیف و تالیف سے منسلک ہوئے۔ جان ولیم ٹیلر نے ’’اِخوانُ الصفا‘‘ کے اردو میں ترجمے کا کام انھیں یہ کہہ کر سونپا کہ عربی سے ترجمہ آسان عبارت میں کرو۔ ان کا ترجمہ خاصا مقبول ہوا اور باقاعدہ کالج کے نصاب تعلیم میں شامل کرلیا گیا۔ ’’اِخوانُ الصفا‘‘ سے ایک پرچہ امتحان کے لیے باقاعدہ تیار کیا جاتا تھا اور طلبہ کے لیے اس پرچے میں کامیاب ہونا لازمی شرط تھے۔ اس کے علاوہ لندن میں ہندوستانی زبان سیکھنے کے لیے جو نصاب تیار کیا گیا تھا اس میں بھی اس کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ پھر جب ایسٹ انڈیا کمپنی ختم ہوگئی تو ’’اِخوانُ الصفا‘‘ کو انڈین سول سروس کے نصاب میں شامل کرلیاگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔