نفرت کی سیاست مودی کو لے ڈوبے گی

عثمان دموہی  اتوار 12 اگست 2018
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

آج کل فیس بک اور یو ٹیوب پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہورہی ہے جس نے بھارتی مسلمانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ یہ ویڈیو بھارتی دارالحکومت دہلی سے لگے گڑ گائوں نامی قصبے میں بی جے پی کے کچھ کٹر مسلم دشمن کارکنوں کی منعقد کردہ میٹنگ میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کھل کر زہر آلود تقاریر کی گئی تھیں۔ اس میٹنگ میں بھگواوری نامی آر ایس ایس کی ایک خاتون کارکن نے اسلامی شعار کا دل کھول کر مذاق اڑایا تھا۔

ساتھ ہی مسلمانوں کو ہندوئوں کا جانی دشمن قرار دے کر انھیں نیست و نابود کرنے کی ترغیب دی تھی۔ اس خاتون کی مسلم اور اسلام کش تقریر پر وہاں موجود لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں اور اس خاتون کی زبان روکنے کے بجائے اس کی خوب ہمت افزائی کی۔ اس ویڈیو میں اس خاتون نے کلمہ توحید سے لے کر حج تک یعنی اسلام کے تمام ارکان کی اپنے متعصبانہ اور بلکہ جاہلانہ انداز میں اس طرح تشریح کی کہ شاید آج تک کسی اسلام دشمن نے نہیں کی ہوگی۔ وہ کہتی ہے مسلمانوں کو روکو ورنہ یہ تمام ہندوئوں کو ختم کردیںگے اور بھارت میں اپنا اسلامی راج قائم کرکے ہندوئوں کو پھر سے اپنا غلام بنالیں گے۔

حالانکہ اس زہر آلود ویڈیو کا مسلمان سوشل میڈیا پر جواب دے رہے ہیں اور کچھ غیر متعصب عالم ہندو اور ہندو مذہبی رہنما بھی اس کی کھل کر مذمت کررہے ہیں اور اسے بھارت کو ٹکڑے کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں، مگر مودی سرکار نے اب تک اس ویڈیو کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے اور وہ اس کے خلاف ایکشن لیںگے بھی نہیں، کیونکہ اس لیے کہ وہ تو خود مسلمانوں کے خلاف زہریلی تقریریں کرتے رہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت میں مسلمانوں پر جتنی ظلم و زیادتی کی جارہی ہے اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا تھا۔ گائے کو کاٹنے اور اس کے گوشت کو کھانے کے جھوٹے الزامات اور حتیٰ کہ گائے کو لانے لے جانے پر بھی کئی مسلمان اب تک قتل کیے جاچکے ہیں۔ اس وقت بی جے پی کی آڑ میں آر ایس ایس بھارت پر حکومت کررہی ہے اور مودی اس کے مہرے کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ آر ایس ایس جو حکم دیتی ہے مودی کو بجالانا پڑتا ہے، اس لیے کہ مودی جیسے چائے بیچنے والے غریب گجراتی کو بھارت کے وزیراعظم کے عہدے پر براجمان کرانے والی آر ایس ایس ہی ہے۔

آر ایس ایس وہ مسلمان دشمن تنظیم ہے کہ اگر اس کا بس چلے تو وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ختم کردے۔ اس شرپسند تنظیم کو بنانے والے انگریز تھے۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے خاتمے کے بعد انگریزوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر ہندو مسلم اتحاد قائم رہا تو آگے چل کر ان کے خلاف پھر بغاوت کھڑی ہوسکتی ہے اور پھر شاید وہ اس کے نتیجے میں برصغیر میں ٹھہر نہ پائیں اور انھیں اپنا بوریا بستر لپیٹ کر واپس انگلستان جانا پڑے۔ چنانچہ انھوں نے برصغیر کی دونوں بڑی قوموں میں پھوٹ ڈالنے کا منصوبہ تیار کرلیا۔ مگر اس کی کامیابی کے لیے ڈیوائڈ اینڈ رول کے فارمولے پر عمل کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔

لارڈ کرزن وہ پہلا انگریز وائسرائے تھا جس نے ہندوئوں پر کھلے عام لعنت ملامت کی کہ وہ بزدل ہیں مسلمان ان پر سیکڑوں سال تک حکومت کرتے رہے اور وہ ان کے آگے سر جھکائے رہے وہ اگر چاہتے تو مسلمانوں کو برصغیر سے نکال باہر کرسکتے تھے کیونکہ وہ تعداد میں مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ اس کے بعد منصوبے کے تحت مختلف ہندو مذہبی رہنمائوں کو مراعات دینے اور ان ہندو غنڈوں کو جو مختلف جرائم کی وجہ سے جیلوں میں بند تھے انھیں مسلمانوں کے خلاف کام کرنے کے بدلے میں رہائی کی پیشکش کی گئی۔

بال کرشن  شورام منجے وہ پہلا شخص تھا جس نے انگریزوں کی پیشکش کو قبول کرکے آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے انگریز نواز قائدین میں ڈاکٹر گول والکر، ویرساورکر اور بالا صاحب دیورس شامل تھے اس تنظیم نے اپنے سے بھی پہلے قائم ہونے والی مہاسبھا سنگھٹن کے ساتھ مل کر مسلم دشمنی کی انتہا کردی، اس کی رہنما اپنے ہر جلسے میں مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی کرکے ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے، اسلام اور نبیؐ کی ناموس پر رکیک جملے کستے۔ انھوں نے ناموس رسالت کے خلاف کئی کتابیں خود بھی لکھیں اور دوسروں سے بھی لکھوائیں۔

مسلمانوں نے بھی ان کتاب لکھنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان مجاہدین کی صف میں غازی علم الدین شہید لاہوری اور غازی عبدالقیوم شہید کراچوی وغیرہ کے نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے جائیںگے۔ انگریزوں کی مالی مدد اور متعصب برہمنوں کے تعاون سے آر ایس ایس ہندو مہاسبھا سے بھی زیادہ مسلم دشمنی میں بازی لے گئی۔ تقسیم سے قبل اور آج بھی ہندوستان میں تمام مسلم کش فسادات کی یہی ذمے دار ہے۔ اس وقت آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگون ہیں مودی کی لگام ان کے ہی ہاتھ میں ہے۔

2014 کے الیکشن میں مودی آر ایس ایس کے مسلم دشمن فلسفے سے ہندوئوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر ہندوئوں کو تمام ذاتوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے مگر اب آر ایس ایس کے مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کے خلاف نفرت انگیز ایجنڈے سامنے آنے کے بعد مودی مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کے ووٹوں سے بھی محروم ہی رہیںگے۔ اب عام ہندو بھی مودی کی مذہبی منافرت کی چال کو سمجھ چکا ہے۔ چنانچہ 2019 کے الیکشن میں ان کا پھر سے اقتدار میں آنا مشکل ہی نظر آتا ہے۔

دلتوں کو اس لیے بھی نشانہ بنایا جارہاہے کیونکہ وہ بھی مسلمانوں کی طرح گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ گو کہ مودی سرکار گائے کو اتنا مقدس درجہ دے رہی ہے کہ اس کے آگے انسانوں کی کوئی قیمت نہیں رہی ہے مگر بھارت سے پورے مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک کو گائے کے گوشت کی سپلائی برابر جاری ہے۔ مودی اگلے الیکشن کو گائے اور رام مندر کے نام پر جیتنے کی تیاری کررہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اب رام مندر کا معاملہ مذہبی سے زیادہ سیاسی رنگ لے چکا ہے۔ رام مندر کی اب خود ہندو تاریخ دانوں نے پول کھول کر رکھ دی ہے۔

پروفیسر ڈی این چھا اور دامودرد بھرما نند کونسابی جیسے محققین کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں کسی رام مندر کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، مودی اور دوسرے کٹر ہندو جس بھارت ماتا کا بڑے فخر سے نعرہ بلند کرتے ہیں محققین کے مطابق یہ نظریہ پہلے کبھی موجود نہیں تھا۔ بھارت ماتا کا لفظ پہلی مرتبہ ایک بنگالی مصنف دیوندررائے کی ایک بنگالی نظم میں استعمال ہوا تھا۔ اس کے بعد یہ لفظ باکم چٹرجی کی تحاریر میں جا بجا استعمال ہوا وہ ایک سرکاری ملازم تھا اور انگریزوں کی تعریفوں میں قصیدے لکھ کر ان سے خوب مراعات حاصل کرتا رہا تھا۔

یہی وہ شخص ہے جس نے انگریزوں کے اکسانے پر مسلم دشمن وندے ماترم نظم لکھی تھی وندے ماترم کا مطلب ہے اے بھارت ماتا ہم تیرے بندے ہیں جب کہ مسلمان خود کو صرف خدا کا بندہ مانتے ہیں۔ چنانچہ اس شخص کے اس متنازعہ گیت کی وجہ سے ہندو مسلم کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت گائے بھارت میں مسلمانوں اور دلتوں کے لیے موت کا پیغام بن چکی ہے۔ جہاں تک مذکورہ زہر آلود ویڈیو کا تعلق ہے اسے عرب ممالک کے ان مسلم سربراہوں کو ضرور دیکھنا چاہیے جو آج کل بھارت اور مودی کی محبت میں دیوانے ہورہے ہیں تاکہ وہ برہمن ذہنیت کی اصلیت سے واقف ہوسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔