پی ٹی آئی، کچھ کرنے کی گنجائش کم

بابر ایاز  اتوار 12 اگست 2018
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

انتخابات سے قبل سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ الیکشن 2018 کے سیاسی انجینئرز معلق پارلیمان چاہتے ہیں۔ نواز شریف جیسی اکثریتی جماعت کی حکومت کے مقابلے میں مخلوط حکومت کو قابو میں رکھنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔ اب، جب کہ انھوں نے اپنی خواہش کیمطابق نتیجہ حاصل کر لیا ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مخالفین کی نظر میں اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر تھی، نہ صرف مرکز بلکہ پنجاب میں بھی جو طاقت کا قلعہ ہے، اکثریت حاصل کرنے میں مصروف ہے۔

اس صورتحال نے عمران خان کوآزاد امیدواروں کی حیثیت سے منتخب ہونیوالے ان ہی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے پر مجبورکردیا ہے جن کے بارے میں وہ ماضی میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے اورکہتے تھے کہ یہ لوگ ہمیشہ بکنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

اس بات پر حیرت نہیں ہے کہ کامیاب آزاد امیدواروں سے بات چیت کی ذمے داری جہانگیر ترین اورعلیم خان کو سونپی گئی، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے بینکرز ہیں ۔اطلاعات یہ ہیں کہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہونیوالے بعض ارکان اس رقم کی فوری ادائیگی چاہتے ہیں، جو وہ انتخابات میں خرچ کرچکے ہیں۔بعض صورتوں میں انتخابی اخراجات کی یہ رقم کچھ منافعے کے ساتھ بڑھا دی جاتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) جیسی چھوٹی جماعتیں کچھ عوامی عہدے چاہتی ہیں۔

پی ٹی آئی نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے بھی اتحاد کیا ہے۔ اگرچہ ماضی میں عمران خان ایم کیو ایم کو جرائم پیشہ لوگوں کی جماعت کہتے رہے ہیں مگر اب ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ الطاف حسین سے تعلق ختم کرنے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان ، مخلوط حکومت کا ساتھ دینے کے لیے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ، دونوں کے لیے قابل قبول ہے۔

پی ایم ایل (ق) کی طرف سے ان لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے جنھیں پی ایم ایل (ن)کا فارورڈ بلاک کہا جاتا ہے، اگر ایسا ہوگیا توگجرات کے چوہدری ،عمران خان سے بڑا حصہ مانگ سکتے ہیں ۔ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو انھیں،اقتدار میں آنے کے لیے نادیدہ قوتوں کی مدد حاصل کرنے کی خاطر صرف اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا تھا مگر اب جب کہ وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کی بہتر پوزیشن میں ہیں تو ان کے لیے حقیقت پسندی سے کام لینا بہتر ہوگا ۔ بدقسمتی سے حقیقی سیاست کی یہی حرکیات ہیں۔

آئیے،اب ان کی تقریرکا تجزیہ کریں جس پر عوام نے خوشگوار رد عمل ظاہرکیا ۔ پرائم منسٹر ہائوس میں، جو ان کی بنی گالہ کی رہائش گاہ سے چند ایکڑ ہی بڑا ہوگا ، قیام نہ کرنے کی خوش کن باتوں کو عوام نے دلچسپی سے سنا ۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے عرض ہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی کبھی پرائم منسٹر ہائوس میں منتقل نہیں ہوئے تھے اور روزانہ پروٹوکول کے ساتھ پی ایم ہائوس میں اپنے دفترآتے تھے۔ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے سامنے منسٹرز انکلیو میں منتقل ہونے کے بارے میں عمران خان کا منصوبہ اچھا نظر آتا ہے مگر انھیں روزانہ پورے SOP پروٹوکول کے ساتھ اپنے دفتر آنا ہوگا جو خود پی ایم ہائوس ہے ۔

گورنر ہائوسزکو تعلیمی ادارے بنانے کی باتیں بھی نئی نہیں ہیں۔ماضی میں بہت سے حکمرانوں نے شروع میں ایسے وعدے کیے تھے، مگر جب بیوروکریسی نے انھیں اس قسم کے اقدامات سے پیدا ہونیوالے مسائل کے بارے میں بتایا تو یہ وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تاہم ایوان وزیر اعظم اور ایوان صدرکے اخراجات کم کرنے کی بہت گنجائش ہے، جو اربوں روپے میں ہیں ۔غیر ملکی دوروں کے لیے وفود کا حجم کم کرتے ہوئے اور خبری اداروں کو اس بات کا پابند کر کے اگر وہ صدر یا وزیر اعظم کے سرکاری دورے میں اپنے اسٹاف کو بھیجنا چاہتے ہیں تو خرچ خود برداشت کریں، یہ اخراجات کم کیے جاسکتے ہیں۔ پیسہ بچانے کے لیے سیاستدانوں اور صحافیوں کے مفت کے تفریحی دورے ختم کر دیے جائیں۔

عمران خان نے جن اصلاحات کا وعدہ کیا ہے، اگر وہ ان میں سے نصف پر عمل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تو لوگوں کو یقین آجائے گا کہ وہ اپنے قول کے پکے ہیں،کیونکہ اس قسم کے اقدامات کی اصل اصلاحات سے زیادہ پی آر ویلیو ہوتی ہے۔ عمران خان اور ان کے نامزد وزیرخزانہ، میرے دوست اسد عمرکی حقیقی آزمائش گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنا ہوگا۔جیسا کہ سب جانتے ہیں، سب سے بڑا چیلنج اخراجات جاریہ کے خسارے پر قابو پانا ہے۔ پچھلی حکومت کیمطابق یہ خسارہ80 بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ درآمدی اخراجات میں دو عوامل کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے، یعنی سی پیک منصوبوں کی وجہ سے مشینری کی درآمد میں اضافہ اور تیل ،گیس اور پام آئل کی زیادہ درآمدات۔

حیران کن سوال یہ ہے کہ کیا سی پیک پر سرمایہ کاری کے حصے کے طور پر چین نے مشینری کے لیے فنڈنگ نہیں کرنی تھی ؟ اگر ایسا ہی تھا تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ہمیں مشینری کے لیے رقم اسی طرح سے ادا کرنی ہے، جیسے کہ باقاعدہ درآمدات کے لیے شروع میں ادا کی جاتی ہے؟سی پیک کے تحت درآمد کی جانے والی مشینری پر ان پراجیکٹس کی طرف سے سرمایہ کاری کی جانی تھی جو اس مقصد کے لیے تھے اور یہ بھی کئی سالوں پر محیط تھی۔

عمران خان اکثر یہ تنقید کرتے رہے ہیںکہ شریف فیملی ان منصوبوں پر کمیشن لیتی رہی، جسے کہ ثابت نہیں کیا جاسکا مگر عوام کو یہ بتاتے ہوئے اسے ظاہرکیا جاسکتا ہے کہ ہر پراجیکٹ کی لاگت کتنی زیادہ بتائی گئی۔

عمران خان حکومت کے سامنے ایک اور اہم معاشی چیلنج سرکاری شعبے کے اداروں کی تباہی کو روکنا ہے۔پی ٹی آئی کے منشور میں سرکاری شعبے کے ان اداروں کی نجکاری کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ۔ اس منشور میں ان کمپنیوں میں ایسی پروفیشنل مینجمنٹ لانے کا وعدہ کیا گیا ہے جو سیاسی مطالبات کو خاطر میں نہ لائے۔ یہ بھی ایک پرانا راگ ہے جو ہم نے ضیا الحق کے دور میں سنا تھا اورکامیاب نہیں ہوا تھا۔اس حوالے سے صرف دو ہی کامیاب مثالیں ہیں اور یہ دو بینکوں کی ہیں ۔90 کی دہائی میں نواز شریف حکومت نے ان بینکوں کے معاملات ٹھیک کرنے کے لیے شوکت ترین اور زبیر سومروکو ان بینکوں کا پریذیڈنٹ مقررکیا اور جب یہ کام ہوگیا تو انھیں پرائیویٹائزکردیا گیا۔

عمران خان کی ٹیم کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگرکسی چیزکو پرائیویٹائزکیا جاتا ہے تو یہ51 فیصد سے زیادہ نہ ہو، تاکہ منافع ملک کے اندر رکھا جاسکے اوراس کا سرمایہ بڑھتا رہے۔اس وقت پرائیویٹائزڈ اداروں میں سے غیر ملکی سرمایہ کاری کا منافع واپس ان ملکوں میں چلاجاتا ہے،جس کی وجہ سے اخراجات جاریہ کا عدم توازن بڑھ رہا ہے۔

جیسا کہ اوپرکہا جاچکا ہے، موجودہ چیلنج یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرکے اخراجات جاریہ کے خسارے کوکم کیا جائے،اگر عمران خان کی ٹیم ایسا کرنے پر تیار ہوگئی تو اسے بہت سی سبسڈیز اور معاشی اصلاحات کو چھوڑنا پڑے گا جیسا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے۔ صرف یہی نہیں، امریکا واضح طور پرکہہ چکا ہے کہ وہ پاکستان کوچینی درآمدات پر سرمایہ کاری کے لیے آئی ایم ایف کے ذریعے بیل آئوٹ نہیں لینے دیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی اصلاحات کرنے اور پاک امریکا تعلقات میں کسی حد تک برابری لانے کی کوشش میں عمران خان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے۔

بہرحال،اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عمران خان کی حمایت اس واضح مفاہمت کے ساتھ کی گئی ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی میں مداخلت کی کوشش نہیں کریں گے اور اگر انھوں نے ایسا کیا تو ان کا انجام بھی پچھلے حکمرانوں سے مختلف نہیں ہوگا۔

یہاں میں ایک واقعے کا ذکرکرنا چاہتا ہوں ۔ جب مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اصلاحات کی بہت باتیں ہوتی تھیں ۔ میں نے تیل اورگیس کی صنعت کے متعدد انتظامی افسروں کی موجودگی میںان سے کہا ’’سر، جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے وہ اصلاحات کی باتیں کرتی ہے۔ان پر تیزی سے عمل درآمد کے لیے جب ان کا پائوں ایکسیلیٹر پر ہوتا ہے تو ان سے کہیں بھاری بیوروکریسی کا پائوں بریک پر ہوتا ہے،چنانچہ اگرآپ سمجھتے ہیں کہ آپ کہیں پہنچ جائیں گے تو ایسا نہیں ہوتا۔‘‘

مجھے پاکستان کے عوام کے مفاد میں یقین ہے کہ عمران خان یہ بریک نہیں لگنے دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔