آئیں کراچی کو علم کا شہر بنائیں ۔۔!

عبدالرحمان منگریو  اتوار 12 اگست 2018

موہن جو دڑو کے دور سے علم و عرفان اور تحقیق کا مرکز رہنے والی انڈس سولائزیشن مختلف ادوار میں ایران ، روم ، عرب، ترکی اور برطانوی تسلط میں رہنے کے باعث یہاں مختلف زبانوں کے آپس میں مخلوط ہونے سے یہ خطہ دنیا بھر کے علوم کا ایک وسیع و نادر مرکز بن گیا ۔جب کہ ان اقوام کے ثقافتی اجزاء کے ساتھ ساتھ زرتشت ، یہودیت، عیسائیت، بدھ ازم ، ہندو ازم اور اسلام سمیت تمام مذاہب و دہریت کے نظریات کے یہاں مشترکہ طور پر جاری رہنے کے باعث یہاں پر ویدانیت اور وحدانیت پر مبنی روحانی و اخلاقی علوم کی کمالیت کی حدوں کو چھونے والی بلند عمارت کی بنیادیں مضبوط تر ہوتی گئیں ۔جس سے یہاں تصوف او ر تھیاسافی کے علم و عرفان کا سمندر گرجتے ہوئے موجزن رہا ہے۔

ان تمام قدیم علوم کے ساتھ ساتھ یہاں سوشلزم ، کمیونزم جیسے جدید نظریات بھی اپنی علمیت کے ساتھ اپنی بلندیوں کی انتہا کو چھوتے محسوس ہوئے۔ یہاں مساجد و مدارس بھی قائم ہوئے تو گرجا گھر و پاٹھ شالائیں بھی اپنے عروج پر رہیں ۔یہ اس علم کی فراوانی کا ہی کمال تھا کہ خان بہادرحسن علی آفندی جیسے لوگوں کی جانب سے سندھ مدرستہ الاسلام جیسے تعلیمی ادارے بنانے کی دھن میں اپنا سب کچھ نثار کردینے کو تیار رہتے تھے ۔ جب کہ علم کی کمالیت کا عالم یہ بھی تھا کہ درس گاہوں و دیگر اداروں کے لیے تعمیر سازی کے دوران عمارات کو قومی ورثہ یا ہیریٹیج (Heritage) بنانے کے پہلو کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔

ان مذہبی و نظریاتی دستوروں پر مبنی علوم نے یہاں ایسے معاشرے کو جنم دیا جہاں سے دنیا کے لیے رواداری ، برداشت ، انکساری ، متحمل مزاجی ، امن پسندی ، اتحاد ِ انسانی اور ترقی ِ بنی نوع ِ آدم کا مثالی پیغام پیش ہوا ، جوبارود کا ڈھیر بنتی دنیا کے امن اور ترقی و اتحاد کے لیے بیحد لازم ہے ۔

تاریخ کے اوراق کو اُلٹ پُلٹ کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ رسمی ونصابی تعلیم کا دور کراچی میں 1855میں قائم ہونیوالے نارائن جگن ناتھ ودیا (NJV) ہائی اسکول کی تعمیر سے شروع ہوا۔ جس کے بعد سندھ مدرستہ الاسلام ، دیا رام جیٹھ مل (DJ) سائنس کالج ، نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا (NED) انجینئرنگ گورنمنٹ کالج ،سینٹ جوزف ، سینٹ میری ، ایس ایم لا ء کالج وغیرہ جیسے شاندار اداروں کے ساتھ ساتھ یہاں کئی پرائمری و سیکنڈری اسکولزتعمیر ہوئے۔

دوسری جانب تھیاسافیکل سوسائٹی ہال ، فریئر ہال لائبریری ، غلام حسین خالق ڈنوہال لائبریری ،ڈینسو ہال، لیاقت میموریل ہال لائبریری اور ہمدرد ادارے کی لائبریری جیسے بھی کئی ادارے قائم ہوئے ۔کراچی میں یہ انگلیوں پر گنتی جتنے تعلیمی ادارے Visionary لوگوں کی سرپرستی میں چلنے کی وجہ سے سندھ بھر کے علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے اور سندھ کی ہزاروں سالوں پر محیط تہذیب کو نئے و جدید انداز و طرز پر روشن تعبیر والے مستقبل سے ہمکنار کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ مگر پھر نہ جانے کیسی ہوا چلی کہ اس ہزارہا سالوں کے علم کا سفر جیسے رُک گیا بلکہ تنزلی کا شکار ہوتا چلا گیا۔

پہلے علم کے مراکز کو فلاحی و رفاحی طور پرقائم کرنے میں فخر محسوس کیا جاتا تھا اوراب بے وقوفی سمجھا جانے لگا اورتعلیم ایک کمرشل آئٹم بن کر رہ گئی ۔ پہلے یہاں تعلیم و تدریس کے علاوہ دیگر اداروں کی عمارات بھی فن تعمیر کی شاہکار اور قومی ورثہ سمجھ کر تعمیر کی جاتی تھیں ، اب یہاںرہائش واسکولوں کے لیے کبوتروں کے ڈربے جیسے گھروںوالی عمارتیں تعمیر ہونے لگیں ۔ پہلے یہاں کے تعلیمی اداروں سے قائد اعظم اور قائد عوام جیسے انسان دوست عوامی لیڈر پیدا ہوتے تھے ، پھر یہاں سے انسانی مت بھید کو فروغ دینے والے نسل پرست و انتہا پسنددہشت گرد نکلنے لگے ۔

اس شہر میں اب نہ انسانی تخیل کو پروان چڑھانے کے لیے تھیا سافیکل سوسائٹیوں کے بحث و مباحثے اور لیکچر ہوتے ہیں ، نہ ہی شاہ بھٹائی ، سچل ، سامی و ایاز شیخ کی وائی اور کافیاں سننے کو ملتی ہیں اورنہ ہی غالب ، میر ، جوش و فیض کے نغمے گونجتے ہیں ۔ اب نہ علن فقیر اور محمد علی شہکی کے دو زبانی امتزاج پر مبنی توکل و عبدیت کی انتہا کے پیغام سنائی دیتے ہیں اور نہ ہی اب سرور و کیف میں ڈوبی عابدہ پروین کی قلندری می رقصم دھمالیں سننے کو ملتی ہیں۔

اب توہماری ترازو کے پلڑوں میں ماضی سے ناآشنا ، حال سے چشم پوش اور مستقبل سے بے فکر ایک ایسی نسل پروان چڑھ چکی ہے جو یا تو بے راہ روی اور شارٹ کٹ کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے یا پھر دوسری طرف عقائد کی بنیاد پر عالمی سازشوں کا شکار بن کر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والا وہ گروہ ہے جو انسان کی تخلیق کی سب سے اعلیٰ فضیلت اور وجہ علم و عرفان اوراخلاق کی سربلندی کے سمندر کو کسی ایک مذہب یا مسلک کے کوزے میں بند کرنے والی عینک سے دیکھ کر یہاں قتل و غارت کی بنیاد پر دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے، اور سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ سب کام کائنات کی اس اہم چیز کے حصول کے نام پر کیے جارہے ہیں جسے جنت ، سورگ یا Heavenکے نام سے جانا جاتا ہے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ یہاں پر متذکرہ بالا تعلیمی ادارے بند ہوگئے ہیں یا دوسرے ادارے نہیں ہیں ، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ’ خاتون پاکستان ‘جیسے تعلیم ِ نسواں کے ادارے سمیت ہزاروں تعلیمی ادارے موجود بھی ہیں لیکن افسوس کہ یہ سب ادارے آج فن ِ کمالیت و عروج ِ علم سے عاری صرف دستاویزی سطح کی کارروائیاں پوری کرنیوالی ڈگریوں کی فیکٹریاں بنے ہوئے ہیں۔ یا پھرلگتا ہے کہ منتظمین کا مقصد علم کا فروغ نہیں ہے ، بلکہ تعلیم کو صرف کمائی کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔

ویسے تو کراچی میں NED، DOW، آغا خان ، داؤد یونیورسٹیز سمیت کئی ادارے آج بھی اپنی انتھک محنت جاری رکھے ہوئے ہیں بالخصوص جامعہ کراچی ، اُس کے ماتحت کیمسٹری ، مالیکیولر میڈیسن اور جینوم ریسرچ سینٹر اور دیگر ذیلی ادارے تو ملکی سطح پر تحقیق میں اپنا لوہا منواچکے ہیں ، لیکن عالمی سطح پر آج بھی بین الاقوامی معیار کی درجہ بندی میں یہاں کے ادارے آخری نمبروں میں آتے ہیں ۔ جب کہ ایسا بھی نہیں کہ اب اس شہر میں لائبریریاں یا ایسے ادارے نہیں ہیں جہاں سے علم و آرٹ پھیلے ، بلکہ فریئر ہال ، لیاقت میموریل لائبریری، آرٹس کونسل ، NAPA، نیشنل میوزیم آف پاکستان سمیت سیکڑوں لائبریریوں اور فنون لطیفہ کے کئی مراکز اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن دو کروڑ سے زائد آبادی کے لیے یہ ناکافی ہیں۔

آج سے 2سال قبل سابقہ پی پی پی حکومت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے منصب کی حلف برداری کے موقع پر تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تو صوبہ بھر کی طرح شہر قائد کے سنجیدہ حلقے بھی کچھ پُر امید ہوئے کہ شاید کراچی میں پھر علم و ادب اور آرٹ کا عروج واپس آئے گا ۔ لیکن وہ اعلان بھی روایتی حکومتی اعلانوں کی طرح عملی شکل اختیار نہ کرسکا ۔ حتی ٰ کہ مادری زبان میں تعلیم اور معیاری و مفت تعلیم کی ذمے داری سے بھی گذشتہ 30برس کی طرح آنکھیں چرائی گئیں ۔ پھر دوسری جانب شہر بھر میں موجود لاکھوں نجی تعلیمی اداروں نے تو تعلیم کے معنی ہی بدل دیے ہیں ۔ ننھے سے ذہنوں پر بے جا مضامین کا بوجھ ڈال کر اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کا خاتمہ کرکے اُنہیں طوطے کی طرح رٹہ کی طرف گامزن کر دیا گیا ہے اور پھول سے معصوموں کے کندھوں پر گدھے کے اُٹھانے جتنا کتابوں کا وزن ڈال دیا گیا ہے۔ جب کہ معیار کے حساب سے یہاں کی تعلیمی شرح بلوچستان جیسے پس ماندہ صوبے سے بھی کم ہوکر رہ گئی ہے ۔

اب ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں ۔ یا تو ہم یونہی موجودہ حالات میں خاموش رہ کر اپنے بے حال بنے حال میں جی کر تاریک مستقبل کا انتظار کرتے رہیں جب کہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اپنے شاندار ماضی کی علمی روایتوں کو پھر سے زندہ کریں اور کراچی کو ایک بار پھر علم کا شہر بناکر آنیوالی نسلوں کو معیاری علم و ادب اور آرٹ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ جدیدو سائنسی تحقیق کی بنیادوں پر مبنی علمی معاشرہ دیں تو شاید ہم تاریخ کے اوراق میں ایک زندہ قوم شمار کیے جائیں ورنہ خدا نخواستہ ہم کہیں  علم و ادب سے عاری قوموں کے صفحہ ہستی سے مٹنے کی کئی داستانوں کا تسلسل بن کر نہ رہ جائیں ۔۔!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔