نئے پاکستان کا پہلا یوم آزادی!!

شیریں حیدر  اتوار 12 اگست 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’دو دن کے بعد آپ نئے پاکستان کا پہلا یوم آزادی منا رہے ہوں گے!!! ‘‘

عجیب سا لگا نا آپ کو یہ جملہ؟ مجھے بھی ہر روز اسی نوعیت کے جملے جب Whatsapp پر موصول ہوتے ہیں، کینیڈا میں مقیم فیملی کے ساتھ جب بھی ملاقات ہوتی ہے، جن کا کوئی نہ کوئی تعلق پاکستان سے ہے اوریہ ’’ لطائف‘‘ آپس میں شئیر کیے جاتے ہیں ، ہنسا جاتا ہے ۔ اس نوعیت کے پیغامات اپنے اندر طنز کا ایسا ذائقہ لیے ہوئے ہوتے ہیں کہ اس کی کڑواہٹ وجود کے اندر تک گھل جاتی ہے۔ ہم نے اپنے خود ملک کو دوسروں کی نظر میں مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس ’’نئے ملک ‘‘ کے حوالے سے تو اتنے لطائف وجود میں آچکے ہیں کہ شاید پرانے پاکستان کے بارے میں بھی نہیں تھے۔

… نئے پاکستان کا یوم آزادی چودہ اگست کو ہوا کرے گا یا کہ پچیس جولائی کو؟

… نئے پاکستان میں پرانے شناختی کارڈ چل جائیں گے یا نئے شناختی کارڈبنوانا ہوں گے؟؟

… پرانے پاسپورٹ تو نئے پاکستان میں ضائع ہوجائیں گے نا؟

… نئے پاکستان میں پرانے نکاح نامے منسوخ ہو جائیں گے تو کیا دوبارہ نکاح کرنا ہوں گے؟ اگر نکاح دوبارہ کرنا ہوں گے تو کیا ان ہی لوگوں سے کرنا ہوں گے؟؟

اسی نوعیت کے درجنوں پیغامات ہیں جو کہ ہمیں موصول ہوتے ہیں، ہم سمجھے بغیر اسے دوسروںکو فارورڈ کردیتے ہیں اور اس نوعیت کا پیغام فارورڈ کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی نہیں لکھنا پڑتا کہ اسے دس لوگوں کو ضرور بھیجیں۔

چلیں ہم اس ’ ’نئے ملک ‘‘ کی ٹرم کو اپنے اوپر طنز سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں اور اسے ایک ایسی مثبت توانائی سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کو اچھا نام دے سکے۔ یہ سمجھ لیں کہ دو دن کے بعد اس نئے پاکستان کا پہلا یوم آزادی ہے۔ اب سوچیں کہ اس میں نیا کیا ہے؟ ملک تو وہی ہے جو کہ 1947 میں یعنی اکسٹھ سال پہلے بہت سی قربانیوں کے بعد وجود میں آیا تھا۔

آج تک ہم جہاں اکٹھے بیٹھتے ہیں اور اس ملک کے حوالے سے ماضی کی کوئی بات ہوتی ہے تو ایک بیانیہ ہر کوئی جاری کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ آج تک جو بھی حکمران آیا ہے اس نے اس ملک کو کھایا ہی ہے… لوٹ کھسوٹ کر ماضی کے سب حکمران اپنے خاندانوں اور اگلی سات پشتوں کے بھی مستقبل سنوار گئے ہیں ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں آنیوالا ہر حکمران ہمارے ووٹوں کی طاقت سے ہی آیا ہے، اس ملک کو نوچا، لوٹا، کھسوٹا، کھایا، ڈکار مارا اور اس ملک کی عنان اقتدار اپنے ہی جیسے آنے والے اگلے حکمرانوں کو سونپ کر چل دیے۔

اگلے آنیوالوں نے اپنے ’’ کم وقت ‘‘ کو مہلت سمجھتے ہوئے اور بھی تیزی سے لوٹا اور ہماری بددعائیں لے کررخصت ہوئے ۔ چلے جانیوالوں کے بارے میں ہم کیا کچھ کہتے ہیں، جب وہ برسر اقتدار ہوتے ہیں تو اس وقت ہم کیوں خاموش رہتے ہیں؟ اس وقت ہم ان کے گریبان کیوں نہیں پکڑتے، احتجاج کیوں نہیں کرتے، کیوں لوٹنے دیتے ہیں انھیں اور بعد ازاں لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں!!

اگر ہم ’’پرانے ترین پاکستان‘‘ کے دور میں بھی چلے جائیں تو ہمیں کئی قابل تقلید مثالیں مل جاتی ہیں۔ وہی لوگ جنھوں نے اس ملک کے لیے کام کیا، جدوجہد کی، دن رات سر توڑ کوششیں کیں اور لاکھوں قربانیوں کے بعد ایک نوزائیدہ بچے جیسا ملک حاصل کیا جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ کر آجانے والے ، جنھیں یہ امید تھی کہ حالات ٹھیک ہوں گے تو وہ واپس جا کر اپنی قیمتی چیزیں لے آئیں گے، اپنے گھروں اور جائیدادوں کو بیچ سکیں گے، لوٹ کر نہ جا سکے۔ مخمل پہننے والے اور نرم بستروں پر سونے والوں نے پتھروں پر بھی سو کر راتیں گزاریں اور کھدر بھی پہننے کو میسر نہ آیا تو صبر کیا۔ ان کی نظر میں اگر کچھ اہم تھا تو یہ ملک تھا جس میں لکھنے کے لیے قلم کے بجائے کیکر کے کانٹے سیاہی میں ڈبو کر سرکاری کاغذی کام کیا جاتا تھا۔

ایسے ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے اس ملک میں ہجرت کرکے آنیوالوں کو ضرورت مند دیکھا تو اپنی ضروریات محدود کر لیں، کھانے کو اپنے منہ کا نوالہ بھی دے دیا، اپنے پاس جو مال متاع تھا ان کی آباد کاری کے لیے دان کر دیا، ان کے رہنے کے لیے انتظامات کیے ۔ جہاں ایک طرف ایسا طبقہ تھا جو ہندوستان میں غربت کی سطح سے نیچے تھا تو یہاں آ کر جھوٹ بول کر گھر اور کاروبار حاصل کر لیے۔ جو وہاں اچھے حالات میں تھے ان کی انا نے گوارا نہ کیا کہ بمشکل سانس لیتے ہوئے اس ’’ نوزائیدہ ملک ‘‘ سے کوئی مطالبہ کرتے ۔ جن کے دماغ میں بھوک نہ ہو انہیں دوسروںکی ضروریات کیسامنے اپنی ضروریات ہیچ نظر آتی ہیں۔

ملک کے پہلے حکمران … پہلے گورنر جنرل، قائد اعظم محمد علی جناح… ان کا اسٹائل، ان کی خوش لباسی اور ان کا شاہانہ مزاج کس سے چھپا ہے مگر یہ سب کچھ اس وقت تک تھا جب تک انھوں نے ہمارے لیے اس ملک کے حصول کی خاطر جدوجہد نہیں کی۔ اس دور سے لے کر اس ملک کا پہلا گورنر جنرل رہنے کے دوران مورخوں سے آج تک اس شخص کی کوئی بددیانتی نہ تلاش کی جا سکی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی ذمے داریاں سربراہ مملکت کی حیثیت سے اور بھی بڑھ گئی ہیں اور وہ ایک عام انسان کی طرح صرف اللہ کو ہی نہیں بلکہ اپنے عوام کو بھی جواب دہ ہیں۔ انھوں نے کوئی بددیانتی نہ کی، محنت کی اور اپنے عوام کی رقوم سے کوئی چراغ تک نہ جلایا کیونکہ انھیں بطور حکمران جواب دہی کا خوف تھا۔

بعد میں آنیوالے ہمارے حکمران وہ ہیں جن کے آنے پر ہم ڈھول بجاتے ہیں، پھولوں کے ہار پہناتے ہیں، ٹرکوں کے پیچھے ان کی پینٹنگ بنتی ہیں اور جب ہم ان کی عیاشیوں سے تنگ آ جاتے ہیں تو ہم ہمہ وقت انھیں اور ان کی پچھلی سات اور اگلی سات پشتوں کو گالیوں سے نوازتے ہیں ۔ اب جب لوگ بیٹھ کر کہتے ہیں کہ فلاں نے اپنی اگلی سات نسلوں کو سنوار لیا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ اس بگاڑنے کو سنوارنا کیوں کہا جاتا ہے؟؟ آپ حرام کمائیں ، جب حلال ذرائع سے ہی آپ کو بہت کچھ میسر ہو تو اس میں نسلیں سنورتی ہیں یا بگڑتی ہیں؟ اس ملک کو لوٹ کر جمع کی ہوئی دولت اگر اس ملک میں واپس نہ آسکی تو اس ملک کا کیا حال ہو گا؟چلیں نہ بھی ہوا ایسا تو چلیںسب تیار ہوں قربانی کے لیے اور سب مل کر اس لڑھکتے ہوئے ملک کو سنبھال میں اور اسے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے میں مدد کریں۔

نئی آنیوالی حکومت کو پہلے دن سے علم ہونا چاہیے کہ ہم کسی کی مزید کرپشن برداشت کریں گے نہ حکمرانوں کے اللوں تللوں پر خرچ ہونیوالے پیسے اپنے ٹیکسوں سے استعمال ہونے دیں گے۔ ہمیں اپنے لیے اپنے ٹیکس کے پیسوں سے طبی سہولیات، تعلیم اور تحفظ چاہیے کیونکہ یہ ہماری اپنی نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم دیانتداری سے ٹیکس ادا کریں، ہم سے ہمارے حکمران ہمارے حقوق کی پامالی کیے بغیر جو بھی جائز مطالبہ کریں ، وہ ہم پورا کریں۔ ملک کی نیک نامی کے لیے ضروری ہے کہ ہم حکومت سے اس بات کی توقع نہ کریں کہ ہمارے گھروں میں جھاڑو بھی وہی آ کر لگائیں، ہمارے بچوں کو اپنے ماحول کو صاف رکھنے اور ہمیں وسائل کے محتاط استعمال کی تربیت بھی وہیں دیں اورجو کوڑا کرکٹ ہم چلتے پھرتے اپنے ارد گرد پھینکتے رہتے ہیں اسے وہ اٹھائیں۔ ہمیں دوسروں سے گفتگوکرنے کا طریقہ بھی وہ سکھائیں، بنیادی آداب اور تمیز بھی وہی سکھائیں ۔

انھیں ابتدا سے ہی چند ایسے فیصلے کرنا ہوں گے جو ہمیں بھی پسند نہیں آئیں گے مگر ملک کے بہترین مفاد میں ہوں گے۔ اس وقت اس ملک کے حالات کو بدلنے کی خواہش سب سے زیادہ نوجوانوں میں ہے، انھیں اس ملک کو نیا پاکستان بنانے میں شانہ بشانہ حکمرانوں کے ساتھ چلنا ہو گا، تب بنے گا نیا پاکستان… آپ سب کوجشن آزادی مبارک ہو!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔