مزارِ قائد کی تاثراتی کتاب: پاکستانی و عالمی رہنماؤں کے پیغامات کا منفرد مجموعہ

مختار احمد  پير 13 اگست 2018
یہ تاثراتی کتاب مزارِ قائد پر 1970 سے رکھی ہوئی ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

یہ تاثراتی کتاب مزارِ قائد پر 1970 سے رکھی ہوئی ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

بابائے قوم حضرت قائداعظم محمدعلی جناحؒ ایک ہمہ گیر بلکہ ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی جرأت مندانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر نہ صرف عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا بلکہ برصغیر کا موجودہ بدلا ہوا نقشہ بھی ان ہی کی مرہون منت ہے۔ ان کی یہی قائدانہ صلاحیتیں تھیں جن کی بناء انہوں نے برصغیر کی تاریخ کا رخ موڑ دیا اور اپنی قیادت میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی غرض سے مسلمانوں کےلیے علیحدہ وطن حاصل کرکے یہیں آسودہٴ خاک ہوگئے۔ ہم گزشتہ 72 سالوں سے بس یوم آزادی کے موقع پر ان کے مزار پر حاضری دے کر فاتحہ خوا نی کرنے کے بعد ’’تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے‘‘ کے ملی نغمات گا کر چند لمحوں کےلیے ان کی جدوجہد اور آزاد مملکت کا تحفہ دینے پر انہیں خراج تحسین پیش کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں؛ اور پھر پورے سال اس عظیم قائد کی جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے اور نہ ہی کبھی ان کے حیات و افکار جاننے کی کوشش ہی کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے عظیم قائد، جو ایک کھلی کتاب کی مانند تھے، سربستہ راز ہیں۔ انہیں پاکستانی قوم کس نگاہ سے دیکھتی ہے اور اقوامِ عالم ان کی کس بات سے معترف ہیں، یہ جاننے کےلیے ہم نے مزار قائد کا خصوصی دورہ کیا۔ مزارِ قائد کی تعمیر کی ابتداء 8فروری 1960 کو ہوئی تھی اور 31 مئی 1966 کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کرلیا گیا جبکہ عوامی چندے سے مزار کی تکمیل اور سنگ مرمر سے آراستہ کرنے کا کام 1970 میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ اسی سال چین نے یہاں پاک چین دوستی کے نام پر 81 فٹ لمبے خوبصورت فانوس کی تنصیب کی تھی جس سے مزار کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے تھے اور پھر اس مزار کو عوام کےلیے کھول دیا گیا۔

اس کے بعد دنیا بھر سے آنے والے سربراہان مملکت، فوجی سربرا ہان، صدور، وزرائے اعظم پاکستان، فوجی سربراہان اور چیف جسٹس آف پاکستان وغیرہ جیسی مؤقر شخصیات کےلیے ایک تاثراتی کتاب رکھی گئی تاکہ وہ بانی پاکستان کے حوالے سے اپنے تاثرات قلم بند کرسکیں۔ یہ تاثراتی کتاب جسے چھاپنا کرنسی نوٹ چھاپنے والے ادارے ’’سیکیورٹی پرنٹنگ پریس‘‘ کی ذمہ داری ہے۔ اس ادارے نے اس سلسلے میں وہی کاغذ استعمال کیا جس پر پاکستانی کرنسی نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ ان کاغذوں پر 100 صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب چھاپنا شروع کی جس کی جلد سبز رنگ کی ہے اور اس پر با قاعدہ طور پر میں ’’وزیٹرز بک‘‘ (Visitor’s Book) کا لفظ درج ہے۔ اسے مزار کی تکمیل کے بعد باقاعدگی کے ساتھ ملکی و غیرملکی مہمانوں کی آمد پر مزار قائد کے اندر ایک اسٹینڈ پر رکھا جا تا ہے جہاں یہ شخصیات قائداعظم کی جدوجہد اور شخصیت کے حوالے سے اپنے تاثرات قلم بند کرتی ہیں۔

1970 سے اب تک ایسی 30 کتابیں دنیا بھر کے مقبول ترین لیڈروں اور پاکستانی حکام کے زریں خیالات سے پُر ہوچکی ہیں؛ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے پاکستان کے دورے کرنے والے سربراہان مملکت اور اعلی فوجی و سول حکام نے اپنی اپنی قومی زبانوں سمیت انگریزی زبان میں بابائے قوم کے بارے میں اپنے خیالات درج کیے ہیں۔ کسی عالمی شخصیت نے اس تاثراتی کتاب میں علیحدہ وطن حاصل کرنے کی جدوجہد پر قائداعظمؒ کو خراج تحسین پیش کیا ہے تو کسی نے انہیں اس صدی کا انقلابی لیڈر قرار دیا ہے۔ کوئی انہیں مسلمانوں کا نجات دہندہ قرار دیتا ہے تو کوئی انہیں آزادی کا نشان قرار دے رہا ہے۔ کسی نے اشعار کی زبان میں قائدؒ کو ان کی جدوجہد پر سلام پیش کیا ہے تو کسی نے انہیں قانون کی پاسداری کرنے والا، دنیا کا معتبر ترین حکمراں قرار دیا ہے۔ بہت سوں نے قائداعظمؒ کو مسلمانوں کےلیے اللہ کا عظیم تحفہ، نعمت و رحمت قرار دیا ہے۔

غرض یہ کہ اب تک لگ بھگ 3000 سے زائد عالمی اور ملکی شخصیات نے قائد محترمؒ کو ایک جرأت مند مخلص اور سچا لیڈر قرار دیا ہے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس حوالے سے مزار قائد پر رکھی جا نے والی اس تاثراتی کتاب میں دنیا کے مشہور انقلابی رہنماؤں نیلسن منڈیلا، یاسر عرفات، شاہ ایران، ملکہ برطانیہ، ایل کے ایڈوانی اور معروف صحافی کلدیپ نائر کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں عالمی لیڈروں، سربراہان مملکت اور فوجی نمائندگان نے انہیں اپنے اپنے لفظوں میں خراج عقیدت پیش کیا ہے جس میں اپنی قوموں کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنی زندگیاں قائداعظمؒ کے اصولوں پر گامزن کریں کیونکہ اس میں ملک اور قوم کی ترقی کا راز پو شیدہ ہے۔ اس حوالے سے اب تک ہمارے ملک میں آنے والے صدور، وزرائے اعظم، چیئرمین سینیٹ، فوجی اور عدلیہ کے سر براہان، وفاقی وزراء اور اہم سیاستدانوں نے بھی اپنے تاثرات میں بابائے قوم کو اصولوں پر گامزن رہنے اور دلیرانہ قیادت اور جدوجہد پاکستان پر انہیں اپنے لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا ہے؛ اور آنے والی نسلوں سے استدعا کی ہے کہ قائداعظمؒ کے اصولوں پر کاربند ہونے کےلیے ان کے نقش قدم پر چلیں۔ اس سے نہ صرف ملک بلکہ پوری قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگی۔ غرض کہ ہر کسی نے مسلمانوں کو آزاد مملکت دینے پر قائداعظم محمدعلی جناحؒ کو سلامی پیش کی ہے۔

اب مزارِ قائد پر رکھی جانے والی تاثراتی کتاب کی ذمہ داری ’’مزارِ قائد مینجمنٹ بورڈ‘‘ کے پاس ہے۔ یہ جاننے کےلیے کہ یہ تاثراتی بک کیا ہے اور اس پر کون کونسے رہنما اپنے تاثرات قلم بند کرچکے ہیں، جب ہم نے مزار مینجمنٹ بورڈ کے ریزیڈنٹ انجینئر اور سیکریٹری انجینئرنگ محمد عارف سے ملاقات کی تو انہوں نے بتایا کہ تاثراتی کتاب کو پہلی بار 1970 میں رکھا گیا حالانکہ اسے قائداعظم کے انتقال کے فوری بعد رکھا جانا چاہیے تھا کیونکہ ان کے انتقال کے بعد ہی دنیا بھر سے عالمی رہنماؤں کی پاکستان آمد شروع ہوگئی تھی مگر چونکہ مزار کی تعمیر کا کام 1970 میں مکمل کیا گیا، اسی لیے یہ تاثراتی کتاب مزار قائد پر رکھنے کا سلسلہ اسی وقت سے شروع کیا گیا۔ اس پر پاکستان اور دنیا بھر کی 3000 سے زائد اعلی شخصیات نے اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے قائداعظم کو مسلمانوں کےلیے ایک علیحدہ مملکت حاصل کرنے کی جدوجہد پر متنوع فیہ انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے جسے اگر شائع کیا جائے تو یہ نہ صرف دنیا بھر کےلیے مثال بن جائے بلکہ قائداعظم کی زندگی کے پہلوؤں سے واقفیت کا موقع ملے گا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ تاثراتی کتاب سیکیورٹی پر نٹنگ پریس، قائداعظمؒ کے وقار کے مطابق سبز جلدوں میں تیار کرتی ہے جبکہ اس میں لگے 100 صفحات ایسے قیمتی کاغذوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن پر کرنسی نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ اس کتاب کو مزارِ قائد پر آنے والے ملکی و غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر مزار کے اندر رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے خیالات قلم بند کرسکیں۔

اس کتاب میں تاثرات درج کرنے کی اجازت صرف دوسرے ممالک کے سربراہان، سفارت کاروں اور فوجی سربراہان کے علاوہ پاکستان کے اپنے صدور، وزرائے اعظم، گورنر، وفاقی وزراء، چیئرمین سینیٹ، تینوں مسلح افواج کے سربراہان سمیت وفاقی وزراء کو بھی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب پاکستانی صدورِ مملکت، وزرائے اعظم پاکستان، وفاقی وزراء، چیئرمین سینیٹ، چیف جسٹس پاکستان اور پاکستان آرمی، پاکستان نیوی اور پاکستان ایئرفورس کے وقتاً فوقتاً بننے والے سربراہان کے تاثرات کا منفرد مجموعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی نادر و نایاب تاثراتی کتاب ہے جس کی حفاظت مزار مینجمنٹ بورڈ کرتا ہے جس نے اب تک اس سلسلے کی تیس جلدیں محفوظ کی ہیں جن میں ان تمام ملکی اور غیرملکی شخصیات نے اپنی اپنی قومی زبا نوں کے ساتھ انگریزی زبان اور اشعار کے ذریعے قائداعظم محمدعلی جناحؒ کو محبت و عقیدت کے نذرانے پیش کیے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔