- پی ٹی آئی کی لیاقت باغ میں جلسہ کی درخواست مسترد
- پشاور میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے کا معاملہ؛ 15 ڈاکٹرز معطل
- پہلا ٹی20؛ عماد کو پلئینگ الیون میں کیوں شامل نہیں کیا؟ سابق کرکٹرز کی تنقید
- 9 مئی کیسز؛ فواد چوہدری کی 14 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور
- بیوی کو آگ لگا کر قتل کرنے والا اشتہاری ملزم بہن اور بہنوئی سمیت گرفتار
- پی ٹی آئی حکومت نے دہشتگردوں کو واپس ملک میں آباد کیا، وفاقی وزیر قانون
- وزیر داخلہ کا کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن کرنے کا فیصلہ
- فلسطین کواقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کا وقت آ گیا ہے، پاکستان
- مصباح الحق نے غیرملکی کوچز کی حمایت کردی
- پنجاب؛ کسانوں سے گندم سستی خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کیے جانے کا انکشاف
- اسموگ تدارک کیس: ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات لاہور، ڈپٹی ڈائریکٹر شیخوپورہ کو فوری تبدیل کرنیکا حکم
- سابق آسٹریلوی کرکٹر امریکی ٹیم کو ہیڈکوچ مقرر
- ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج
- راولپنڈٰی میں بیک وقت 6 بچوں کی پیدائش
- سعودی معاون وزیر دفاع کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
- پختونخوا؛ دریاؤں میں سیلابی صورتحال، مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو الرٹ جاری
- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
- تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں، اسرائیل ایران پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں کریگا، ایکسپریس فورم
- اصحابِ صُفّہ
ٹی ایل پی کا سیاسی تارپیڈو اور (ن) لیگ کی تباہی
پاکستان مسلم لیگ نواز کے انتخابات 2018 میں ہارنے یا ہروائے جانے کی جہاں اور بہت سی وجوہ ہیں وہاں ایک بڑی وجہ تحریک لیبک پاکستان کا قیام بھی ہے۔ آپ حالیہ انتخابات کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ تحریک لبیک پاکستان کے قیام کا سب سے بڑا فائدہ، بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر، پاکستان تحریک انصاف کو ہوا جبکہ سب سے زیادہ نقصان نواز لیگ کو اٹھانا پڑا۔
تحریک لبیک نے قومی اسمبلی کی 175 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے جبکہ پنجاب اسمبلی کے امیدواروں کی تعداد 264، سندھ میں 68، خیبر پختونخواہ میں 41 اور بلوچستان میں 10 تھی۔ پارلیمنٹ سے ختم نبوتﷺ کے معاملے پر ہونے والی متنازعہ ترمیم کے بعد بننے والی اس جماعت کا جنم گو کہ پنجاب سے ہوا لیکن پنجاب میں مقبولیت کے باوجود اس نے دو نشستیں کراچی سے بھی حاصل کرلیں جبکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر اس کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے کم سے کم 18 حلقے ایسے ہیں جن پر ہارنے والے امیدوار کے ووٹ، فاتح امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں سے تعداد میں ایک ہزار سے بھی کم ہیں؛ جبکہ کم از کم دو درجن حلقے ایسے ہیں جن میں تحریک لبیک کے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد اُس مارجن سے کہیں زیادہ ہے جس پر ن لیگ کے نمائندے کو پی ٹی آئی کے نمائندے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
آپ لاہور کے حلقہ این اے 131 کی مثال لے لیجیے جہاں عمران خان نے خواجہ سعد رفیق کو صرف 680 ووٹوں سے شکست دی جبکہ یہاں تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار سید مرتضی حسن 9780 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پیپلز پارٹی کا امیدوار 6746ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر ہر رہا۔ اسی طرح فیصل آباد کے حلقہ این اے 108 میں ن لیگ کے عابد شیر علی کو صرف 1211ووٹوں سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فرخ حبیب سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں بھی ٹی ایل پی کا امیدوار شہباز علی گلزار تیسرے نمبر پر رہا اور اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 8075 ہے۔
میرا خیال ہے کہ تحریک لبیک کو بنانے کا جو مقصد تھا، بہرحال اس میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ انتخابات سے قبل ہی میں نے یہ بات واضح طور پر کہہ دی تھی کہ ٹی ایل پی قومی اسمبلی میں کوئی بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ مقصد اسے پارلیمنٹ میں لانا نہیں بلکہ کسی اور کو وفاق میں حکومت سازی سے روکنا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے نہ صرف ن لیگ بلکہ اس جماعت کے ووٹ بینک نے دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی جزوی نقصان پہنچایا۔
گو کہ ٹی ایل پی کی جانب سے بھی باقی جماعتوں کی طرح نتائج کو مسترد کیا گیا ہے اور ایک بار پھر احتجاج اور پارلیمنٹ کے گھیراؤ کی دھمکی دے دی گئی ہے لیکن اب یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی۔ یہ ایک تلخ حقیقیت ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کو اپنے مقا صد کےلیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور تاحال کیا جارہا ہے؛ اور ہمارے عوام ہمیشہ سے اس کا آلہ کار بنتے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب یہ کھیل ختم کردیا جائے۔ مذہبی جماعتوں کے سربراہان کو مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ انہیں اب سیاست میں آنا ہے یا کہ دین کی ترویج کےلیے کام کرنا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔