بادام زری کو سلام

کشور زہرا  اتوار 19 مئ 2013

سیکڑوں ووٹ حاصل کر نے والی بادام زری ہزاروں ووٹوں کے ذریعے فتح حاصل کرنے والے پر بھاری ہے، یہ وہ شکست ہے جس نے فتح کو زیرکر دیا۔ کیونکہ یہ بارش کا وہ پہلا قطرہ ہے جس کی سوند دور دور تک پھیل گئی اور اُن بدبو دار سوچوں کی حامل طاقتوں کے لیے یہ یقینا ایک کھلا چیلنج ہے جنہوں نے اس صنف کو معاشرے میں عملی زندگی سے دور رکھنے کے لیے عورت کی تعلیم کو جرم سے تعبیر کیا کہ کہیں وہ اپنا حق نہ پہچان لے، ان فرسودہ رسوم و رواج کے زیر اثر علاقوں میں عورت کے لیے ووٹ کا حصول تو دور کی بات ووٹ دینے کا بھی رواج نہیں رکھا گیا  اور ستم بالائے ستم ان روایات کو مزید تقویت دینے کے لیے زبانی کلامی قید سے چند قدم آگے ایک تحریری معاہدے کے تحت جکڑنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہیں خواتین ووٹروں کا اپنے ووٹ کا خود اندراج کرانا اس کوشش کے منہ پر طمانچہ ہے۔

میں یہ باور کراتی چلوں کہ یہاں جس مخصوص حلقے یعنی این اے 44کا ذکر ہو رہا ہے اس میں کل 186,000رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جس میں صرف خواتین ووٹرز کی تعداد 67,000 ہے جو کل رجسٹرڈ کا تقریباً 40فیصد بنتا ہے جب کہ خدا معلوم کتنی خواتین کا اندراج ہوا ہی نہ ہو، یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آبادی کے اتنے بڑے حصے کو نظر انداز کرنے کی کوشش، کیا کسی ریاست کی کامیابی بن سکتی ہے؟ کیونکہ سیاسی سفر خواتین کے بغیر کاررواں نہیں بن سکتا،اگر اب بھی عورت کی حقیقت کو تسلیم نہ کیا گیا تو کہیں ہمارے روشن جمہوریت کی طرف بڑھتے قدم تاریکیوں میںنہ گم ہو جائیں۔

میں سمجھتی ہوں ہر گھڑی منڈلاتے خطرات ، دھمکیوں کے باوجود اپنے فیصلے پر قائم رہنا، گھر گھر رابطہ کرنا، اپنے حق کے پیغام کو آگے پھیلانا خواہ 14 برس کی ملالہ ہو یا40سالہ بادام زری یہ دونوں فکر کی تبدیلی کا واضح پیغام ہیں اوراس حقیقت سے کسی ذی شعور کو انکار نہیں کہ ملالہ پر حملہ ایک طالبہ پر نہیں ان ہزاروں طالبات پر ہے جو علم کی خواہاں ہیں، اسی طرح بادام زری کو دھمکیاں صرف اس کے لیے نہیں بلکہ ہر اس عورت کے لیے کھلا چیلنج ہے جو اپنا حق لینا چاہتی ہے،کیونکہ یہ اس کا شرعی حق ہے اوروہ اس با ت کی مجاز ہے کہ گھر سے لے کر ایوانوں تک ہر قدم پر اس کی مشاورت ہو تاکہ ملک کی یہ 52فیصد آبادی اپنی محنت اور فہم و فراست سے ریاست کے لیے استحکام کا سبب بن سکے، اگر موجودہ حالات پر نظر دوڑائی جائے تو فرسودہ سوچ کے سبب پاکستان میں ایک غیر متوازن صورتحال نظر آتی ہے جیسے ٹرین کی پٹڑی پر گاڑی ایک پہیے سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہو،آپ صرف معیشت پر ہی نگاہ ڈالیے تو چراغ تلے اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔

ہم ہر قسم کی سرمایہ کاری کے بارے میں سوچتے ہیں، انرجی کے بحران کے لیے سر پھوڑ رہے ہیں، لیکن اتنا بڑا Asset جو تدبر، دور اندیشی اور فراست سے مالا مال ہو، کوئی بے جان شے نہیں بلکہ ایک انرجی ہو اُسے محصور کر کے محض ایک چوپایہ جان کر ، اس کی ذہنی صلاحیتوں اور ہمہ گیر صفتوں کو نظر انداز کر کے ایک بڑے سرمائے کو ضایع کرنے کے مترادف ہے۔ یہ فراموش کیا جا رہا ہے ،اس کو ریاست کے استحکام کی ذمے داریوں میں شمولیت سے دور رکھ کر معاشرے کوتنزلی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ جس کے سدِ باب کے لیے ہمیں ملالہ ہو یا بادام زری ان کو اپنے ارادوں پر قائم رکھنے کے لیے جو ہمیں نظر بھی آرہا ہے ان کی ہمتوں کو سلام کرنا ہو گا، اور انھیں بااختیار بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ کیونکہ بااختیار عورت ہی مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے نہ کہ چاردیواری میں محصور، فرسودہ رسم و رواج کی قید میں جکڑی ہوئی بے جان صنف !!

میں بحیثیت ایم کیو ایم کی ایک ادنیٰ کارکن کے اس بات کو اچھی طرح جانتی ہوں کہ میری خوداعتمادی اس تحریک کے وژن کی مرہون منت ہے۔ جہاں میں نے اپنے آپ کو جنسِ مخالف کے مقابلے میں نہ کمزوراور نہ ہی کمتر جانا،اس طرح میرے فکر و عمل دونوں کو جِلا ملی، یہ وہ واحد پلیٹ فارم ہے کہ جہاں اگر معمولی ملازمت پیشہ مرد کو ایم این اے ، ایم پی اے یا ناظم منتخب کیا گیا تو وہیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی معمولی خواتین کو بھی ایسے ہی عہدوں پر بلاتفریق تعینات کیا گیا کہ اگرمرد کوناظم بنایا گیا توخاتون کو ناظمہ تعینات کیا گیا۔ اگر آج ہم نے بادام زری کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ، اس سے پہلے کہ اس کی فکر مایوسی کی گہرائیوں میں کھو جائے ہم ببانگ دہل ، بلاتفریق رنگ و نسل اور لسانیت اس کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں اور اس جذبے کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ میری جنس نے اپنی قیادت سے ایسی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کو اولین ترجیح پایا ہے جس میں عورت کے سیاسی حقوق بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اور اس فکر کو آگے بڑھانے کے لیے ہم دامے درمے سخنے بادام زری کے ساتھ ہیں کہ وہ اپنے سفر کو جاری رکھے، منزل انشاء اللہ ضرور ملے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔