تکمیل پاکستان

شبیر احمد ارمان  منگل 14 اگست 2018
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

الحمد للہ! ہم71واں یوم آزادی پاکستان بڑی شان وشوکت کے ساتھ منا رہے ہیں، بلاشبہ آزادی نعمت خداوندی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے اسلاف نے جانی ومالی قربانیاں دیں ،گزشتہ 70سال ہم نے کیسے گذارے؟سب حالات وواقعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، اب ہمیں آگے کی جانب بڑھنا ہے۔ حال ہی میں ملک میںعام انتخابات منعقد ہوئے جس کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پا رہی ہیں، عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان متوقع وزیراعظم ہیں جو اپنے عہدے کا حلف 17اگست کو اٹھانے والے ہیں۔اسی طرح چاروں صوبائی حکومتیں بھی تشکیل پائیں گی۔

پاکستان تحریک انصاف نے قوم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ برسراقتدارآنے کے بعد نیا پاکستان تشکیل دیں گے، یعنی جن مقاصد کے تحت ہمارا وطن پاکستان معروض وجود میں آیا تھا، اس کی تکمیل کی جائے گی اور اسی تبدیلی کے نعرے پر یقین کرتے ہوئے قوم نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو عام انتخابات میں ووٹ دیکرکامیاب کرایا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت سازی کا جو پہلا موقع قوم نے فراہم کیا ہے وہ کس حد تک قوم کے توقعات پر پورا اترتے ہیں۔

بلاشبہ پاکستان دنیا کی واحد نظریاتی مملکت ہے،اس نظریے کی اساس دین اسلام پر ہے جس سے وابستہ دنیا کے ہرگوشے میں بکھرے ہوئے کروڑوں انسان رنگ ونسل، زبان وتہذیب اور ثقافت کے فرق کے باوجود ایک ایسے روحانی رشتے میں منسلک ہیں جس کے سامنے دنیاوی رشتے ہیچ ہیں ۔ اس اسلامی رشتے نے دنیا بھرکے تمام مسلمانوں کے خواہ دنیا کے کسی بھی خطے میں آباد ہوں تمام امتیازات ختم کرکے اسلامی برادری کے رشتے میں منسلک کردیا۔

چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا واحد نظریاتی ملک ہے،اس لیے یہ ملک دنیا بھرکے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن اور ان کی امیدوں کا مرکز ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام اور پاکستان دشمن طاقتیں مختلف نظریات کا پرچارکرکے موجودہ نسل کو نظریہ پاکستان کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا کرکے گمراہ کرنا چاہتی ہیں ۔

بدقسمتی سے پاکستان کے معماروں کو ہم نے یکسر فراموش کردیا ہے ، دنیا کی زندہ قومیں اپنے محسنوں کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ ان کو دنیا سے متعارف کراتی ہیں اور اس مقصد کے لیے ایسے ذرایع اختیارکرتی ہیں کہ دوسری قوموں کی توجہ خود بہ خود ان محسنوں کی جانب مبذول ہو، مگر افسوس ! ہماری موجودہ نسل ان عظیم محسنوں سے اور ان کی گرانقدر خدمات سے ناواقف ہے ان نوجوانوں کو نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے لاکھوں شہدا کی قربانیوں سے روشناس کرانا انتہائی ضروری ہے ۔

آج اگر ہم پاکستان کی 71سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ملک کا نصف حصہ اس لیے علیحدہ ہوا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو فراموش کردیا تھا۔ ماضی کی حکومتوں نے نظریہ پاکستان کے فروغ کے لیے نہ صرف کوئی عملی کام نہیں کیا بلکہ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ملک کے اندر ایسے عناصر نے جنم لیا جو نظریہ پاکستان کے مخالف تھے۔ سابقہ حکومتوں نے نظریہ پاکستان کے ان مخالفین کی سرکوبی نہیں کی بلکہ ان کو حکومت میں وزارت ، سفارت اور دوسرے اعلیٰ عہدے دیے گئے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مخالفین کو نظریہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ آگیا ۔

ملک میں قومیتوں کا نعرہ لگایا گیا ، قومیت کی بنیاد پر نمایندگی اور آزادی کا نعرہ لگایا گیا ، یہ سب نعرے اسی پاکستان میں لگائے گئے جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا ۔ ان تمام سازشوں اور شرپسندی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ نئی نسل جو نظریہ پاکستان ، اکابرین اور شہیدوں کی قربانیوں سے ناواقف تھی،ان خوش کن نعروں کے دھوکے میں آگئی ۔

مشرقی پاکستان کے نوجوان طبقے نے اس نعرے پر سب سے پہلے عمل کیا، جس کی وجہ سے ملک کا نصف حصہ ہم سے کٹ کر بنگلہ دیش بن گیا،اسی طرح نظریہ پاکستان کے تمام مخالفین اور اسلام دشمن افراد نے پاکستان کے خلاف جو سازش تیارکی تھی نظریہ پاکستان کے علمبرداروں کے باہمی اختلافات اور کوتاہیوں کی وجہ سے اس میں کافی حد تک کامیابی حاصل کرلی ۔کافی عرصہ بعد ملک میں پھر سب سے پہلے نظریہ پاکستان کو فروغ دیا گیا کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک میں اسلامی نظام کی باتیں زندہ ہیں ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ عام شہریوں خصوصا نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے بھر پور انداز میں متعارف کرایا جائے جوکہ حب الوطنی کے لیے ضروری ہے ۔

یہ بات قابل غوروفکر ہے کہ پاکستان کے مغرب نواز سیاست دانوں نے جمہوریت کا واویلا مچا رکھا ہے ، جن کا تعلق سرمایہ دار طبقات سے ہے ، جنھیں عوام نے معاشی جبرکے تحت قبول کر رکھا ہے ، اگر خاندانی اور ریاستی جبر نہ ہوتا تو عوام کسی طور بھی اس قیادت کو قبول نہ کرتے جس کی تعداد پاکستان میں کسی طرح بھی دو فیصد سے زیادہ نہیں ہے ۔کتنے تعجب کی بات ہے کہ یہ دو فیصد طبقہ نوے فیصد طبقے پر اپنے استحصالی ہتھکنڈوں کے ذریعے حکومت کرتا رہا ہے ، جب کہ جمہوری قدروں کا تقاضہ یہ ہے کہ نوے فیصد طبقہ دو فیصد طبقے پر حکومت کرے ۔

بلاشبہ سیاست دانوں نے 71سال میںشخصی اجارہ داری قائم کرنے کے سوا کوئی قابل ذکرکام نہیں کیا، سیاست دانوں نے ایک دوسرے پرکیچڑاچھالنے کی سیاست کو رواج دے کر قوم کے مزاج کواس معیار سے دور کردیا جو قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے۔ سیاسی عدم استحکام ، معاشی عدم استحکام ، معاشرتی بگاڑ آج ہمارے سامنے ہے، جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام سیاست کی وجہ سے جمہوری اقدارکو نقصان پہنچا ہے ۔ یہ طبقات جمہوریت کا نام لے کر معصوم عوام کو سیاسی میدان میں اپنے مقاصدکے حصول کے لیے اکساتے ہیں لیکن اپنی جماعتوں میں جمہوریت کے قیام کے روادار نہیں ہوتے ، جس ملک میں خاندانی سیاسی وراثت قائم ہوجائے وہاں جمہوریت کا قیام ناممکن ہوتا ہے، بلکہ جمہوریت ایک استحصالی نعرہ بن جاتی ہے۔

اگر سیاست میں خاندانی وراثت کا وجود نہ ہوتا تو سیاسی کارکن، سیاسی جماعتوں کے سربراہ تک بننے کی توقعات کرسکتے تھے اور وہ بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق ملک اور قوم کی خدمت کرسکتے تھے، لیکن جو فرسودہ سیاسی نظام رائج ہے، جو سیاسی خاندانی وراثتی سسٹم مسلط ہے جس نے کارکنوں کو جکڑ ے رکھا ہے کہ سیاسی کارکن محض استعمال ہی ہوتے رہیں گے۔اس طرح جابر اقلیت مظلوم اکثریت پر حاوی ہوتی رہے گی۔

عمران خان سے سیاسی کارکنوں کو توقع ہے کہ وہ پہلی فرصت میں ایسی قانون سازی کریں گے ، جس کے تحت عام سیاسی کارکنوں کو عزت دی جاسکے،ان کا استحصال کیا نہ جاسکے، جمہوری اقدارکا پاس کیا جائے،عام کارکن بھی پارٹی اور ملک کے اعلیٰ مقام تک پہنچ سکے، ملک کو فلاحی ریاست بنایا جائے جہاں سب کے حقوق برابر ہوں، یکساں، سستا بروقت انصاف اور قانون میسر ہو ، انسانی بنیادی ضرورتیں فراہم ہو دوسرے معنوں میں یہ کہ تکمیل پاکستان کی جائے جو تحریک پاکستان کا مقصد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔