پی ٹی آئی، کچھ خواب اور خدشات

شبانہ یوسف  جمعرات 16 اگست 2018
shaboroz@yahoo.co.uk

[email protected]

پاکستان بننے کے بعد ہمیں پہلی بار عمران خان کی صورت ایک حقیقی رہنما ملا ہے۔ حقیقی اس لیے کہ عمران خان پاکستانی کی سیاسی تاریخ میں پہلے سیاسی کردار ہیں جو اپنی جدوجہدکی بنیاد پر اس مقام تک پہنچے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پسے ہوئے طبقات نے خصوصا اور متوسط طبقات نے عموما بہت سی توقعات عمران خان سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ ایسے میں ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ عمران خان نے نظام بدلنے کی ہمیشہ بات کی ہے اور نظام بدلنے میں وقت لگے گا، کیونکہ نظام کی تبدیلی فورا دکھائی نہیں دیا کرتی۔اس کی وجہ ایک طرف تو یہ ہے کہ مخالف قوتوں کی مزاحمت پالیسی سازی کے عمل کو دشوار بناتی ہے تو دوسری طرف یہ پل اور سڑکیں نہیں ہونگی کہ پہلی اینٹ رکھتے ہی تبدیلی نظر آنے لگے۔

یہ پالیسی سازی کا عمل ہوگا جس کی بنیاد پر پورے نظام کی عمارت کھڑی ہونی ہوتی ہے اور جس کے اثرات اور ثمرات ہماری روزمرہ زندگی میں درجہ بدرجہ بہت بعد میں نظر آئیں گے۔ ُپی ٹی آئی کے تبدیلی کے بنیادی سلوگن نے بھی ان توقعات کی وابستگی میںاہم کردار ادا کیا ہے۔ عمران خان سے لوگ بہت محبت کرتے ہیں تو دوسری طرف بہت سے لوگوں کے گھروں میں عمران خان کی پارٹی کی الیکشن میں کامیابی کی خبر سنتے ہی صفِ ماتم بھی بچھ چکی ہے، نہ صرف پاکستان میں بلکہ پاکستان سے باہر بھی۔

ملکی اور بین الاقوامی سطح پر عمران خان کی مقبولیت اور الیکشن میں کامیابی نے لوگوں کی ایک طرف تو توقعات بڑھائی ہیں تو دوسری طرف سیاسی ساختوں پر واضح اثرات مرتب کیے ہیں ۔ ہر وہ طبقہ جو عمران خان کی الیکشن میں کامیابی پر ناخوش ہے وہ کسی نہ کسی حوالے سے ماضی کی بدعنوان سیاسی ساختوں میں فیضیاب ہوتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسی تمام قوتیں عمران خان کے خلاف ملکی و بین الاقوامی سطح پر برسرِ پیکار ہونے کی بھرپورتیاری میں نظر آتی ہیں۔

اس کی ایک بڑی مثال امریکی گورنمنٹ کا افواجِ پاکستان کو تربیتی کیمپوں سے الگ کرنے کا فیصلہ ہے جو عمران خان کی الیکشن میں کامیابی کے بعد کیا گیا۔ کچھ اسی طرح بھارتی میڈیا کا بھی افواج پاکستان اور پی ٹی آئی کے حوالے سے پروپیگنڈا اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔

ایسے میں ہم پاکستانی جنہوں نے عمران خان اور اس کی بننے والی حکومت سے جو بے تحاشا امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں،ان کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ پاکستان کی اندرونی اور بیرونی مخالف قوتیں اپنی پوری کوشش کریں گی کہ پی ٹی آئی اپنی کارکردگی اپنے وعدوں کے مطابق نہ دکھاسکے۔ ہاری ہوئی سیاسی قوتیں جو بدعنوانیوں کی ایک تاریخ اور تجربہ رکھتی ہیں وہ بھرپورکوشش کریں گی کہ عمران خان اور پی ٹی آئی ایسی پالیساں بنانے میں کامیاب نہ ہوسکیں جو پسے ہوئے طبقات کے مفادات کا تحفظ کریں گی۔

تمام بدعنوان جو مضبوط اپوزیشن کے دعویدار ہیں ، وہ پارلیمان میں بیٹھ کر صرف اور صرف عمران خان اور گورنمنٹ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے سوا کچھ اورکرنے کا شاید نہ سوچیں، مگر ایسے میں میڈیا کا کردار مستقبل قریب میں ہمیشہ کی طرح بہت مرکز ی ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ محنت پر اکسانے کی بجائے ،الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے ہوئے کچھ تجزیہ نگار ابھی سے یہ مشورہ دیتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ عمران خان کو سب سے پہلے قومی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کردینی چاہیے، جب کہ میرے خیال میں مسائل کا یہ حل ہی اگرکرنا تھا تو پھر تبدیلی کیسی۔

گزشتہ گورنمنٹ نے پی آئی اے کی جو حالت کی ہے اس کے پیچھے یہی تو مقصد تھا کہ پہلے اس کو غیر فعال کیا جائے خسارے دکھاکر اور پھر اپنے ہی کسی چہیتے کاروباری سرمایہ دارکو پی آئی اے بیچ دی جائے۔ پرائیویٹ ہوتے ہی جب کوئی بھی ادارہ منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہوسکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ گورنمنٹ کے اداروں کے سربراہان کی تقرری میرٹ پر نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ وہ اداروں کا وہی حال کرتے ہیں جس کے لیے ان کو مقررکیا جاتا ہے۔

ہم عمران خان کی گورنمنٹ سے نہ صرف امید رکھتے ہیں بلکہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ پاکستان کے اداروں کو پرائیویٹ کرکے سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کی بجائے میرٹ پر ان کے سربراہان کی تقرریاں کی جائیں اور اس کے بعد ان پر چیک اینڈ بیلنس کا بھی ایک اچھا نظام ہو جوکرپشن کی روک تھام کرسکے۔

دوسری اہم بات جو آنے والی حکومت سے کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ پاکستان کی پارلیمان میں خواتین کی مخصوص نشستیں ختم کرکے ان کو الیکشن کے ذریعے گورنمنٹ کا حصہ بنایا جائے، کیونکہ خواتین کسی بھی ملک کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں ، بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ کوئی بھی خطہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کے اس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ سماجی وسیاسی کردار ادا نہ کریں۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں مخصوص نشستوں پر تقرری ان خواتین کی ہوتی ہے جو سیاسی یا سماجی طور پر بااثر گھرانوں یا سیاستدانوںسے بلواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق رکھتی ہیں۔ اس طرح خواتین کے حوالے سے معاشرے میں جو ترقی آنی چاہیے یا جو فلاحی کام ہونے چاہیے وہ نہیں ہوپاتے ،کیونکہ ان کا وہ سماجی و سیاسی شعور ہی نہیں ہوتا جو الیکشن کی عملی سرگرمی سے گزر نے والی خواتین کا ہوسکتا ہے۔ باقاعدہ جدوجہد کرکے آنے والی خواتین کیونکہ سیاسی سرگرمی سے وابستہ ہوتی ہیں اس لیے وہ بہت سے اچھے فیصلے کرنے اور بہتر سیاسی کردار ادا کرنے کی اہل ہوتی ہیں۔

پی ٹی آئی کا یہ فیصلہ بھی خوش آیند ہے کہ وہ بلدیاتی نظام پنجاب میں متعارف کرائے گی۔کیا ہی اچھا ہوکہ بلدیاتی نظام میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو آگے آنے کا موقع دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین گھر سنبھالنے کی عملی سرگرمی سے بچپن ہی سے گزرنے لگتی ہیں ہیں اس لیے وہ بہترین منتظم ثابت ہوسکتی ہیں اور اپنی بستیاں اور اپنے شہر کی بھی بہتر دیکھ بھال کرنے کی پوزیشن میں ہونگی، مگر ایک بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ خواتین باقاعدہ الیکشن کے ذریعے منتخب ہوں۔

عمران خان اور پی ٹی آئی سے عوام نے بہت سے خواب وابستہ کر رکھے ہیں جن کے پورا ہونے کی امید تو ہے مگر بہت سے خدشات بھی ہیں ان قوتوں کی وہ سے جو پی ٹی آئی کی حکومت کو راستے میں مزاحمتی دیوار کی صورت قدم قدم پر صرف اس لیے موجود ہونگی کہ عمران خان کو غلط ثابت کرسکیں اور اس کے لیے وہ ملک و قوم کا پہلے ہی کی طرح اب بھی کسی بھی قسم کا نقصان کرنے سے بھی گریز شاید نہ کریں۔

ایسے میں اپنے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ خواب دیکھنے کے عمل سے گزرتے ہوئے ان حقیقتوں کو فراموش ہر گز نہ کریں جو ہماری ستر سالہ سیاسی تاریخی بدعنوان ساختوں کی شکل میں موجود رہی ہیں اور ان کے اثرات یقیناَ َ پی ٹی آئی کی گورننس پر بھی لامحالہ پڑیں گے، اگرچہ ہماری بدعنوان ساختوں کو عمران خان کی برسوں کی محنت نے بہت حد تک تبدیل کیا ہے مگر اب عوام نے بھی اپنا کردار مسلسل جدوجہد کی صورت اس طور نبھانا ہے کہ جو قانون اور پالیسیاں عوامی فلاح کے لیے بنائی جائیں ان کا عوام احترام کرتے ہوئے ان کواپنی طرزِ معاشرت کا حصہ بنائیں۔

عمران خان اور اس کی بننے والی گورنمنٹ ابھی سو فیصد رزلٹ شاید نہ دے سکے،کیونکہ ہماری سیاسی بنیادوں میں ملکی اور غیرملکی جو بدعنوان عناصر سدا سے موجود رہے ہیں وہ ابھی بھی پسِ پردہ بھر پور طریقے سے عمران خان کے خلاف بر سرِ پیکار رہیں گے ۔ ایسے میں اپوزیشن جو خود کو ایک مضبوط اپوزیشن کہہ رہی ہے اس کی بھی کوشش صرف یہ ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح سے کرپشن سے پاک نظام کی بحالی کو روک سکے،کیونکہ اپوزیشن درحقیقت بدعنوانوں کا مجموعہ ہے اور بدعنوانی کا خاتمہ درحقیقت بد عنوانوں کا خاتمہ ہوگا۔

ویسے بھی ہمارے ہاں اپوزیشن کا مطلب حکومت کی مخالفت کرنے تک محدود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک خصوصا مغربی ممالک میں اپوزیشن ہر اس پالیسی کی حمایت کرتی ہے جو وہ اپنی قوم کے مفادات کے تحفظ کے لیے بناتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔