حیدر بخش جتوئی کو سلام

جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے تب سے حضرت انسان کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، انسانی ذات کو ۔۔۔



جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے تب سے حضرت انسان کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، انسانی ذات کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لیے انقلابی شخصیات نے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے اپنے خاندان و ذاتی مفادات کو چھوڑ کر انسان کو نئی فکر و فلسفے سے مسلح کرکے نئی تحریکیں بپا کیں، اور عالم انسانیت کی فلاح کے لیے اپنی صلاحیتیں، زندگی اور وسائل وقف کردیے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ انسان ابتدائے آفرنیش سے مل جل کر رہتا تھا اور جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا تھا مل بانٹ کر کھاتا تھا، انسان کے آپس میں مل جل کر رہنے اور تمام وسائل کو مساویانہ طور پر تقسیم کرنے اور مشکلات و مسائل کا مل کر حل نکالنے کے نظام کو اشتراکی نظام کہتے ہیں۔ یہ نظام زرعی دور کے آغاز تک جاری رہا، جس میں زرعی پیداوار خاندان کے افراد کی تعداد کے حساب سے تقسیم ہوتی تھی۔ اشتراکی نظام میں انسان کو سیلاب بارش و دیگر قدرتی آفات کا سامنا تو کرنا پڑتا تھا تاہم وہ انسانوں کے ہاتھوں استحصال سے محفوظ تھا۔

ظالم اور جابر لوگ اس نظام سے خوش نہ تھے اور انھوں نے آہستہ آہستہ لوگوں کو محکوم بناکر قبائلی نظام اور غلامی کی بنیاد ڈالی۔ جس کے تحت طاقتور قبائل، غریب قبائل کو، طاقتور انسان غریب انسان کو غلام بناکر انھیں روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کی غذا دے کر سارا دن کام لیتے تھے اور کام سے پیدا ہونے والی دولت سے خود عیاشی کرتے تھے۔ جس طرح انسان کے ہاتھوں انسانی استحصال کی تاریخ قبائلی دور سے لے کر جدید سائنسی دور تک پھیلی ہوئی ہے اسی طرح انسانوں کو غلامی، استحصال اور جبر سے نجات دلانے کے لیے کام کرنے والوں کی بھی لمبی فہرست ہے، جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ ان لوگوں میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی کا نام بھی ایک درخشاں ستارے کی مانند ہے۔

وادی سندھ نا صرف پانچ ہزار سال سے زیادہ قدیم تہذیب و ثقافت کی مالک ہے بلکہ ابتدا سے ہی انسانی ارتقا، خوشحالی، برابری کی امین رہی ہے، جس کا شاہکار ثبوت آج بھی موئن جو دڑو سے ملنے والی اشیاء سے ملتا ہے، جس میں زراعت اور فن تعمیر کے اوزار تو ملتے ہیں لیکن انسانوں کو قتل یا غلام کرنے والا ایک بھی ہتھیار نہیں ملا ہے۔ کتنا خوش نصیب تھا یہ شہر کہ آج بھی کئی شہروں کے باسی اس شہر کو میسر سہولیات سے محروم ہیں، موئن جو دڑو سے ملنے والے آثار سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شہر کے باسی طبقاتی تقسیم سے محفوظ تھے۔ اگر سندھ کی مزاحمتی تحریک پر نظر ڈالی جائے تو دھرتی اور عوام کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں کی بھی کمی نظر نہیں آئے گی۔

کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے سندھ میں ہاریوں کو حقوق دلانے کے لیے جو جدوجہد کی وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ 1901 میں موئن جو دڑو کے قریب بکھودیرو میں جنم لینے والے حیدر بخش جتوئی بچپن سے ذہین طالب علم تھے۔ آپ برصغیر پاک وہند کی طبقاتی و سیاسی تحریک میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ وہ بیک وقت ایک عظیم دانشور کثیراللسان شاعر، مصلح، انقلابی تحریک کے رہبر اور عظیم سیاستدان تھے۔ آپ نے سندھ کے ہاریوں کے لیے نہ صرف جدوجہد کی بلکہ لازوال قربانیاں بھی دیں۔ 1935 میں حیدربخش جتوئی کا شعری مجموعہ 'تحفہ سندھ' شائع ہوا جس کے ساتھ سندھی زبان کی تاریخ میں ترقی پسندی کے جدید دور کا آغاز ہوا۔ حیدر بخش جتوئی نے 1945 میں ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ چھوڑ کر سندھ ہاری کمیٹی کی باگ ڈور سنبھالی۔

حیدر بخش جتوئی موسم کی پرواہ کیے بغیر تھیلے میں چند کپڑے اور کتابیں لے کر ''مجنوں صفتم، دربدر خانہ بہ خانہ'' کے مصداق سندھ کے گاؤں گاؤں گئے اور ہاریوں کو منظم اور شعور سے مسلح کرکے ہاری تحریک کو طلبا تحریک، محنت کش عوام ودیگر ترقی پسند عناصر سے جوڑا۔ جس کی مثال 1954 میں کراچی شہر میں نیشنل عوامی پارٹی کے اشتراک سے عظیم الشان ابوذرغفاری ہاری کیمپ کے اجتماع کا انعقاد تھا جس میں 50 ہزار سے زائد کسانوں نے شرکت کی۔

حیدر بخش جتوئی نے کسانوں کو زرعی پیداوار کا 50 فیصد حصہ دلوانے، زمینداروں سے کسانوں کو اپنی زمین سے بے دخل کرنے کے اختیارات واپس لینے کے لیے ٹیننسی ایکٹ کی منظوری کے لیے تاریخ ساز جدوجہد کی۔ حیدر بخش جتوئی نے اس وقت جاگیرداری اور زمینداری کے خلاف آواز اٹھائی جب فاشسٹ جاگیردار ٹولے کے خلاف آواز آٹھانا اپنی جان پر کھیلنے کے مترادف تھا۔ اس کی پاداش میں انھیں جاگیرداروں کے گماشتوں نے ایک درخت سے باندھ کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ صعوبتیں ان کے عزائم کو متزلزل نہ کرسکیں۔ آپ زندگی کا بڑا عرصہ جیل میں رہے یا پھر تحریک میں۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی سندھ کے سچے فرزند تھے۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کو سندھ سے الگ کیا تو آپ نے اس کے خلاف تحریک میں بھرپور انداز سے حصہ لیا۔

1955 میں جب ون یونٹ بناکر سندھ کی صوبائی حیثیت ختم کی گئی تو آپ نے سندھ کی قومی شناخت کی لڑائی بڑی بہادری کے ساتھ لڑی اور سندھ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اپنی شہرہ آفاق نظمیں، جئے سندھ اور سلام سندھ تحریر کیں۔ جئے سندھ کا نعرہ بھی پہلی مرتبہ آپ نے دیا جو اس نظم جئے سندھ سے مقبول ہوا۔

حیدر بخش جتوئی نے پوری زندگی سندھ کے عوام بالعموم اور ہاریوں کے لیے بالخصوص وقف کرتے ہوئے صوفی شاہ عنایت شہید کے نعرے ''جو بوئے وہی کھائے'' کو عملی شکل دینے عوامی جدوجہد میں صرف کردی۔ انھوں نے کسانوں اور محنت کشوں کے حقوق اور جدوجہد کے لیے مارکس، اینگلز اور لینن کی تحریروں کا مطالعہ کیا اور کمیونسٹ پارٹی پر تنقید کے ساتھ ساتھ پارٹی قیادت کو مشورے بھی دیتے رہے۔

آج ہم کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی 43 ویں برسی منارہے ہیں۔ میری نظر میں انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تمام دانشور، سیاستدان، مزدور اور کسان متحد ہوکر ان کے مشن کی تعمیل کے لیے ان کے نقش قدم اور حکمت عملی پر چلتے ہوئے مزدور اور کسان راج قائم کریں اور زمینداری، سرمایہ داری وجاگیرداری نظام سے نجات حاصل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں