انتخابات میں اساتذہ کی رسوائی

apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ان انتخابات میں دھاندلی کے ایشو میڈیا پر بہت زیادہ دکھائی دیے لیکن ایک اہم ترین ایشو کراچی کے حوالے سے یکسر نظرانداز کردیا گیا اور وہ ایشو ہے مس مینجمنٹ کا۔ اس سلسلے میں راقم ایک معزز استاد کی بپتا کا ذکر یہاں کر رہا ہے۔ ان استاد نے لکھا ہے کہ:

’’ان انتخابات میں جس قدر بدنظمی اور ڈیوٹی ادا کرنے والے اساتذہ کی بے عزتی ہوئی ہے وہ ناقابل بیان اور انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی ایک طویل کہانی ہے۔ پہلے تو 3 مئی کو حاضری کے نام پر اردو یونیورسٹی میں گھنٹوں انتظار میں وقت گزارنا پڑا پھر معلوم ہوا کہ پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے جن اسٹاف کے نام ہمیں مہیا کیے گئے تھے ان میں سے ایک کے سوا کوئی بھی نہیں آیا لہٰذا ہمیں ہدایت کی گئی کہ 10 مئی کو صبح 10 بجے آجائیں نیا اسٹاف دے دیا جائے گا۔ لیجیے جناب! ہم صبح 10 بجے اردو یونیورسٹی پھر پہنچ گئے۔

اس مرتبہ پھر وہاں مچھلی بازار کا منظر تھا، خیر ریٹرننگ افسر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ شناختی کارڈ کی کاپی اور دو عدد تصاویر لے آئیے آپ کا پریزائیڈنگ آفیسر کا کارڈ بنے گا۔ چونکہ ہمیں پہلے سے تصاویر کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا لہٰذا ہم اردو یونیورسٹی سے نکلے اور تصویر بنوانے کے لیے مارے مارے پھرتے رہے۔ خیر تصویر بنوا کر لائے اور جمع کرائی تو پھر نیا حکم نامہ سنایا گیا کہ شام 4 بجے آپ کو کارڈ دیا جائے گا۔ خیر ہم 4 بجے پھر پہنچے کارڈ حاصل کیا اور جس طرح رسوا ہوکر رش میں یہ مرحلہ طے کیا وہ ہم ہی جانتے ہیں۔

اس کے بعد ایک اور نیا حکم نامہ سنایا گیا کہ جناب آپ کو نئے اسٹاف اور سامان جلد مہیا کیا جائے گا انتظار کیجیے۔ یہ انتظار کیا تھا گویا قیامت کا انتظار تھا۔پوری رات گزر گئی اذان فجر ہوگئی اور کھیل یہ جاری تھا کہ صرف دو کاؤنٹر پر سیکڑوں اساتذہ اور 18,17 گریڈ کے افسران جن میں بزرگ بھی شامل تھے ہجوم کی شکل میں لدے ہوئے تھے اور عملہ جو نہایت سست تھا، نام تلاش کرکے اعلان کرتا اور کبھی اعلان کے بجائے کھڑے ہوئے لوگوں سے نام پوچھ کر ڈیوٹی کے لیٹر تلاش کرتا۔ پوری رات ہم بار بار کاؤنٹر پر جاتے اور تھک ہار کر واپس گھاس پر آبیٹھتے۔

یوں جب صبح کے 9 بج گئے اور رش کچھ کم ہوا تو ہم نے ریٹرننگ افسر اور اس کے اسسٹنٹ کے پاس پہنچے کہ بھئی! ہمارے اسٹاف کی لسٹ اور سامان کب دیں گے؟ پولنگ تو 8 بجے شروع ہونا تھی؟ اس پر ہمیں اسٹاف کا لیٹر تھماکر کہا گیا کہ جناب سامان فلاں کاؤنٹر سے لے کر ڈیوٹی پر جائیے۔ ہم حیران تھے کہ اسٹاف کا صرف لیٹر دیا ہے، اسٹاف تو موجود نہیں۔ جب ہم نے یہ شکایت کی تو کہا گیا کہ آپ اکیلے ہی پولنگ شروع کرائیے۔ ہم نے پہلے کبھی الیکشن میں ڈیوٹی نہیں کی تھی مگر اتنی ضرور عقل تھی کہ خواتین اور مردوں کے پولنگ بوتھ پر پولنگ شروع کرانے کے لیے ایک فرد ناکافی ہے۔ خیر ہمیں ساتھ یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ آپ خود کسی بندے کو ڈھونڈ لیں۔ ہم نے بندے کے حصول کے لیے اپنے طور پر کوشش کی۔ خیر سے ایک عزیز کو بلاکرریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہوئے کہ ان کی ڈیوٹی لگا دیجیے۔ریٹرننگ افسر نے سوال کیا، کیا یہ سرکاری ملازم ہے؟
ہم نے جواب دیا ’’جی نہیں‘‘۔
ریٹرننگ افسرنے پھر کہا ’’تو پھر اس کی ڈیوٹی نہیں لگ سکتی‘‘۔

ہمارے ضبط کا دامن چھوٹ گیا اور ہم نے کہا۔

’’صاحب آپ ان کی ڈیوٹی نہیں لگا رہے ہیں، عملہ بھی نہیں دے رہے تو پھر اپنا لیٹر واپس لیجیے، میں بھی گھر جارہا ہوں کیونکہ بغیر اسٹاف کے میں پولنگ کے انتظامات کیسے کرسکتا ہوں؟‘‘

خیر اس جواب پر ہمارے لائے ہوئے بندے کی ڈیوٹی لگادی گئی۔ یوں ہم 24 گھنٹے سے بھوکے اور پسینے میں شرابور رات بھر کے جاگے ہوئے جب پولنگ اسٹیشن پر پہنچے تو ایک نئی مصبیت سر پر کھڑی تھی۔ ہم اپنا سامان پولنگ اسٹیشن پر لے کر پولنگ بوتھ کے لیے جگہ ڈھونڈ رہے تھے اور جگہ نہیں مل رہی تھی نہ ہی کوئی رہنمائی کرنے والا تھا، خیر کالج کے سیکنڈ فلور پر ایک باورچی خانے کے برابر کمرہ مل گیا اور ایسا ہی ایک کمرہ اوپر کی منزل پر مل گیا جہاں 4 خواتین کا اسٹاف بھی موجود تھا۔ ابھی ہم نے سامان رکھا ہی تھا کہ عوام کا جم غفیر امڈ آیا اور ہمیں لعن تعن کرنے لگا کہ وہ ووٹنگ کے لیے صبح 7 بجے سے لائن میں لگے ہیں۔

ہم بھلا انھیں کیسے سمجھاتے کہ جناب! ہم تو کل صبح 9 بجے گھر سے نکلے ہوئے ہیں اور کچھ کھایا پیا بھی نہیں اور رات کو سوئے بھی نہیں۔ خیر اسٹاف کی کمی کے باعث رات تک کھڑے ہوکر پہلے پولنگ کرائی پھر رات 2 بجے تک ووٹوں کی گنتی اور پیکنگ کی اور یہ سب کچھ اندازے سے ہی کیا کیونکہ نہ تو ہم نے پہلے کبھی الیکشن میں ڈیوٹی کی تھی نہ ہی ہماری ٹریننگ ہوئی یا معلومات فراہم کی گئیں۔ معلومات تو دور کی بات وہاں تو کوئی سیدھے منہ بات کرنے والا ہی نہ تھا۔ یہی حال کچھ رزلٹ جمع کراتے ہوئے ہوا۔ اس سارے عمل سے فارغ ہوکر ہم صبح نو بجے اتوار کو گھر پہنچے۔ اس طرح جمعہ کی صبح گھر کا ناشتہ جو کھایا ہوا تھا اس کے بعد اتوار کی صبح کھانا نصیب ہوا ، ورنہ ہم نے صرف پانی پی پی کر گزارا کیا۔

اس کہانی کا آخری حصہ 15 مئی کا دن ہے کہ جب ہمیں اور ڈیوٹی کرنے والے اسٹاف کو کورٹ بلایا گیا تھا۔ یہاں بھی مچھلی بازار کا منظرنامہ تھا، بدنظمی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ صبح سے اساتذہ اور افسران فقیروں کی طرح پے منٹ کے لیے بیٹھے رہے اور پھر پے منٹ ملی تو کتنی محض 1450؟ جب ہم نے اپنی ڈیوٹی کے گھنٹے کاؤنٹ کیے اور کورٹ اور اردو یونیورسٹی کے چکر کاؤنٹ کیے تو یہ رقم 40 روپے دیہاڑی ( یعنی آٹھ گھنٹے) کے اعتبار سے بنی جب کہ آج ایک مزدور بھی ایک دن کی دیہاڑی 500 روپے لیتا ہے۔ کیا ایسی حالت میں کوئی پریزائیڈنگ افسر اور اس کا اسٹاف تہذیبی اور شفاف طریقے سے پولنگ کا عمل کراسکتا ہے؟‘‘

مذکورہ استاد کی کہانی محض ایک استاد کی نہیں۔ راقم کی معلومات کے مطابق اردو یونیورسٹی میں تمام اساتذہ اور 18 گریڈ کے افسران کا یہی حال تھا۔ یہ بات ہمارے اعلیٰ حکام، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنی چاہیے کہ جس اسٹاف کو 24 گھنٹے پہلے ہی بھوک، پیاس، بدنظمی اور بے عزتی کے ساتھ ’’ادھ موا‘‘ کردیا جائے وہ بھلا اپنی عزت نفس مجروح ہونے اور تمام تر توانائی ختم ہونے کے بعد کس طرح انتخابی عمل کو شفاف بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، خاص کر ایسی صورت حال میں کہ اس کے پاس اسٹاف بھی نہ ہو۔ ایسی صورت حال میں انتخابات کی حیثیت کیا ہوگی، اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔