پاکستان جمہوری رہے گا

عبدالقادر حسن  ہفتہ 18 اگست 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سیاسی عمل بتدریج آگے بڑھ رہا ہے الیکشن کے بعد وفاقی حکومت اورصوبائی حکومتیں تشکیل پا رہی ہیں ۔ مرحلہ وار جمہوری طریقہ کار سے مخصوص عہدوں پر انتخاب جاری ہے جس میں مجموعی طور پر تحریک انصاف میدان مار رہی ہے اور فی الوقت دوصوبوں خیبر پختونخوااور پنجاب میں ان کی حکومت تشکیل پا رہی ہے جب کہ بلوچستان میں بھی اس کا حصہ واضح اور سندھ میں حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ عمران خان وزیر اعظم  پاکستان منتخب ہو چکے ہیں۔

ایک طویل صبر اور انتظار کا خاتمہ ہو گیا ہے، ایک بھر پور سیاسی اور جمہوری جدو جہد کا نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے گو کہ ابھی تک ہمارا جمہوری سسٹم وہ مضبوطی نہیں پکڑ سکا جس کی ملک اور جمہوریت کوصحیح معنوں میں ضرورت ہے لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ قوم جمہوری ہو گئی ہے اور قوم نے سیاسی جماعتوں کوبھی جمہوری کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔

موجودہ الیکشن کو بعض سیاسی پارٹیوں نے متنارعہ اور دھاندلی زدہ بنانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک عرصہ کے بعدپہلا الیکشن ہے جس میں دھاندلی کا بظاہرکوئی شائبہ نہیں ۔ عوام نے اپنے ووٹوں سے اور اپنی مرضی سے اپنے نمایندوں کا انتخاب کیا ہے جس کی کئی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی ہیں ۔ پنجاب کے زیادہ تر اضلاع میں خلاف توقع نواز لیگ کو کامیابی ملی ہے جب کہ الیکشن سے قبل عمومی تاثر اس کے خلاف تھا لیکن نواز لیگ نے عوامی تاثر ، سیاسی پنڈتوں اور ہمارے جیسے تجزیہ نگاروں کو پچھاڑ دیا اورحالیہ الیکشن کے بعد قومی اسمبلی میں معقول تعداد میں اس کے ارکان موجود ہیں اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی کو الیکشن میں ہارنے والی سیاسی جماعتیں متنارعہ بنانے اور غیبی امداد کا  شاخسانہ قرار دے کر احتجاج کر رہی ہیں چنانچہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے افتتاحی اجلاسوں میں جس طرح کا واویلہ کیا گیا وہ پوری قوم نے دیکھا۔ پہلے پہل تو متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فار م سے سیاسی جدو جہد شروع کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن چونکہ اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتوں کا باہمی سیاسی تعلق کچھ ایسا ہے کہ لگ یہی رہا تھا کہ اپوزیشن کا یہ غیر فطری اتحاد زیادہ عرصہ چل نہیں سکے گا اور یہی ہوا کہ نوزائدگی میں ہی اس میں دراڑیں پڑ گئیں ۔

ماضی میں بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں ایک میثاق پر دستخط ہوئے تھے اُس وقت بھی یہی عرض کی تھی کہ اس غیر فطری اتحاد کو قوم حیرانگی کے ساتھ دیکھ رہی ہے اور بعد میں جو کچھ اس اتحاد کے ساتھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے جس فریق کو بھی ضرورت ہوئی اس نے میثاق کا حوالہ دے کر معاملات سلجھانے کی کوشش کی مگر بات لندن سے پاکستان پہنچ چکی اس لیے اگر کوئی میثاق ہوا بھی تھا تو موجودہ حالات میں وہ قابل قبول نہیں ۔پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کے وزیر اعظم کے امیدوار شہباز شریف کی حمایت سے معذوری ظاہر کی۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ نواز لیگ اپنا امیدوار تبدیل کرے تو حمایت کا سوچ سکتے ہیں بلاول کو شاید وہ باتیں ابھی تک یاد ہیں جو باتیں شہباز شریف ان کے والد محترم کے متعلق جلسوں میں کہتے رہے ہیں ۔

نیا دور اور اس کے نئے تقاضے ہیں نئی قیادتیں جنم لے رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی باگ ڈور بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے جو کہ اپنے ناناکا نام زندہ کر کے عوام میں مقبولیت چاہتے ہیں لیکن ابھی تک ان کی پارٹی کو سندھ کے علاوہ کسی دوسرے صوبے میں پذیرائی نہیں مل سکی حالانکہ یہ واحد پارٹی تھی جس کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ یہ زنجیر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے اور اس کا ایک سرا جناب آصف زرداری اور دوسرا سرا بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے لیکن اس میں ملاپ نہیں ہو رہا بلکہ اس زنجیر کے کنڈے بکھرتے جا رہے ہیں لیکن کوئی ان کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش نہیں کر رہا اور تاویل یہ دی جاتی ہے کہ اگلا الیکشن پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ جس کے بارے میں یہ کہاجا سکتا ہے کہ ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ لیکن کوئی جیئے یا نہ جیئے بھٹو پانچ سال بعد بھی زندہ ہی ہوگا۔

اس وقت محسوس یوں ہو رہا ہے کہ آصف زرداری احتساب سے بچنا چاہ رہے ہیں لیکن ان کے دوست پکڑے جا رہے ہیں اب اس بات کا انتظار ہورہا ہے کہ آصف علی زرداری اور ان کے قریبی عزیز کب نیب کے ہتھے چڑھتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا شہباز شریف کو بھی ہونے جارہا ہے اس لیے یہ دونوں حضرات آج کل سیاسی منظر پر وہ کردار ادا نہیں کر پا رہے جس کی ان سے توقعات تھیں، وہ پچھلی صفوں میں ضرور موجود ہیں لیکن بطور لیڈر ان دونوں کا کردار محدود ہو چکا ہے شائد ان کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ نہ جانے ان کی باری کب آجائے۔

مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ہمارے نمایندے کب تک عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے لیکن ان کو جلد یا بدیرایک بات پر متحد ہونا پڑے گا اور وہ بات جمہوریت اور جمہوری عمل ہے کیونکہ ان کی بقاء اسی میں ہے کہ ملک میں جمہوری عمل چلتا رہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں کسی کے کندھوں پر سوار ہو کر نہیں بلکہ عوام کے کندھوں پر سوار ہو کر حکمرانی کریں یہی اصلی جمہوریت ہے اور بدقسمتی سے ہم اس سے ابھی بہت دور ہیں لیکن اتنے دور بھی نہیںکہ جمہوریت سے ہی تائب ہو جائیں ۔ پاکستان جیسے غیر جمہوری حالات سے مارا ہوا یہ ملک جمہوریت کے جوہر سے ہی زندہ ہے اور یہ جوہر ہی اسے زندہ رکھے گا تاآنکہ یہ جوہر اس کے وجود کا حصہ بن جائے اور پاکستان ایک جمہوری ملک کہلانے لگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔