آئیں عقل کی لاش ڈھونڈیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 18 اگست 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں عقل زندہ ہے یا مرگئی ہے آئیں اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ عقل کی ابتداکس طرح ہوئی؟ شاید جب قطب شمالی سے برف کے تودے پگھل کر آئے تو ہوا منجمد ہو گئی، زراعت تباہ اور حیوانوں کی لاتعداد اقسام ختم ہو گئیں اور چند حیوانوں نے بھاگ کر خط استوا کے علاقے میں اس انتظار میں پناہ لی کہ شمال کا غیظ تھم جائے۔

غالباً اس تاریک زمانے میں جب کہ سردی کے طوفان نے قدیم اور معینہ انداز زندگی کو ختم کر دیا اور جب موروثی طرز کردار نئے ماحول سے سازگار ہونے میں ناکام رہا تو وہ حیوان جن کا جبلی نظام مکمل اور لچک سے محروم تھا، ختم ہو گئے، کیونکہ وہ بدلے ہوئے ماحول کے پیش نظر اپنے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے تھے اور انسان نے جس کی ساخت میں لچک تھی، آگ جلانے، کھانا پکانے اور کپڑا پہننے کا فن سیکھا اور اس طرح اس طوفان کا مقابلہ کیا اور جنگل اور میدان کے تمام حیوانوں پر تسلط قائم کر لیا۔

ان حالات میں عقل پیدا ہوئی، عقل حالات کے مکمل جائزہ پر مبنی ایک مکمل عمل ہے، عقل احساسات کا تجزیہ ہے اور عمل کی ترکیب۔ یہ عقل ہی ہے کہ جس سے ڈیکارٹ کو محبت ہو گئی، سپائی نوزا نے اس کے لیے فاقے کیے، برونو اس کی خاطر جلا دیا گیا، سقراط نے اسی کی خاطر زہر کا پیالہ پیا۔ یہ عقل ہی تھی جو کہ یونان میں پھلی پھولی اور جب یونان تباہ اور ہر یونانی مفلس ہو گیا تو عقل مر گئی اور پھر یونانی عقل کے بغیر زندہ رہنے لگے۔

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں عقل کبھی کی مر گئی ہے اور ہم سب نجانے کب سے عقل کے بغیر زندہ ہیں تو کیا غلط ہو گا؟ اگر پاکستان میں عقل زندہ ہوتی تو کیا یہ حالات جنم لیتے؟ کیا یہ واقعات جو برسوں سے ملک میں ہوتے چلے آ رہے ہیں، ان کا تسلسل کیا اس طرح ہو رہا ہوتا؟ اگر ہمارے ملک میں عقل زندہ ہوتی تو کیا ہم بدلے ہوئے ماحول اور حالات کے پیش نظر اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرتے؟ آپ صرف ایک تبدیلی کی نشاندہی کر دیں جو ہم نے ماحول اور حالات کی مناسبت سے پچھلے ستر سال کے دوران کی ہو۔ ملک کا کوئی ایک ادارہ بتا دیں جو مضبوط و مستحکم ہوا ہو۔

چلیں اسے چھوڑیں، صرف یہ بتا دیں کہ کیا ملک میں اچھے انسان پیدا ہو رہے ہیں یا دن رات برے انسانوں کا جنم ہو رہا ہے اور ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تشریح کر دیں کہ برے انسان اچھے انسانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں یا اچھے انسان برے انسان بنتے جا رہے ہیں۔ کیا ملک میں تعلیم کو فروغ حاصل ہو رہا ہے یا ہر طرف جہالت کا قبضہ جاری و ساری ہے۔ کیا ملک میں ایمانداری اور دیانت داری تیزی سے پھیل رہی ہے یا کرپشن، لوٹ مار، دھوکا دہی، فراڈ، جلن، حسد، بے ایمانی، جھوٹ دن رات پھل پھول رہے ہیں۔

کیا ملک میں برداشت، تحمل، رواداری کا بول بالا ہے یا عدم برداشت، عدم رواداری، انتہاپسندی کا مکمل قبضہ ہے۔ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم نے مل کر اپنی معیشت کا بھرکس نکال دیا ہے۔ کیا مہذب، تعلیم یافتہ اور عقل و شعور رکھنی والی قومیں اس طرح ڈیموں کو متنازعہ بناتی ہیں کہ جس طرح سے ہم نے بنایا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں رائج کسی ایک جمہوریت کا بتا دیں جو اپنے ہی لوگوں کو بے اختیار، غلام، بے کس، بھوکا اور ننگا کر رہی ہو، جس طرح ہم کر رہے ہیں اور جو لوگوں میں اس طرح حیوانیت بھر رہی ہو جس طرح ہمارے لوگ حیوان بنتے جا رہے ہیں۔

چین کے تانگ عہد کا ایک معروف وزیر اور دانشور شہنشاہ کو متواتر یہ کہتا رہتا تھا کہ ’’زمانے کی تبدیلیوں کو سمجھا کریں اور عقیدوں اور مفروضوں کی قید سے بچیں‘‘۔ اسی طرح فارابی کی تحریروں میں بھی اچھے حکمران میں سیاسی علم اور سیاسی تجربہ دونوں یکجا نظر آتے ہیں، جو دونوں مل کر اس میں وہ ضروری لچک پیدا کرتے ہیں جو غیریقینی اور نامعلوم حالات و واقعات سے نبھا کرنے کے لیے لازم ہوتی ہے۔

اچھائی، بہتری ہمیشہ اوپر سے نیچے آتی ہے۔ اصل میں ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہمارے حکمرانوں نے عقل سے نہیں بلکہ ہمیشہ پیٹ سے سوچا۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ بہت سے سیاست دانوں کی نفسیات اچھی حکمرانی کے لیے موزوں نہیں ہوتی۔ بعض سیاست دانوں کی طرف دیکھ کر تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تگ و دو کے پیچھے صرف وہ مجنونانہ مسرت کارفرما ہے جو وہ مسند اقتدار پر بیٹھ کر محسوس کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اقتدار جانے پر بکھر جاتے ہیں۔

ہمارے بہت سے سیاست دانوں کی یہ ہی کہانی ہے، جن کا یہاں نام لینا ضروری نہیں۔ بعض لوگ لگتا ہے کہ بچپن کی کسی محرومی کو پورا کرنے کے لیے لیڈر بنتے ہیں اور وہ اپنے سیاسی کیریئر میں پہچان ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں اور وہ پہچان بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ انھیں بھی آپ آرام سے اپنے ملک میں ڈھونڈ سکتے ہیں اور بعض نامساعد حالات کی وجہ سے لیڈر بنتے ہیں۔

قدیم عہد کا ایک چینی وزیراعظم بادشاہوں کی برائیاں یوں گنواتا ہے، جیتنے کی ترجیح اپنی غلطیوں کا سن کر غصہ میں آ جانا، اپنے اختیار میں اضافہ اور اپنی مضبوط خواہش پر قابو پانے میں ناکامی۔ جب حکمرانوں کی عقل سے دشمنی ہو جاتی ہے تو قدیم عہد کے چینی وزیراعظم کی کہی گئی برائیاں ان میں خودبخود پیدا ہو جاتی ہیں اور پھر وہ عقل کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور پھر حالات ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں جیسے ہوئے ہیں۔ یہ بات انسانی تاریخ بار بار بتاتی آ رہی ہے، ساری باتیں چھوڑیں، آئیں مل کر عقل کی لاش کو ڈھونڈتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔