حزب اقتدار اور حزب اختلاف

جاوید قاضی  ہفتہ 18 اگست 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں تو گورنر وفاق کی علامت ہوتا ہے، مگر صوبے میں بنی حکومت اس پارٹی سے نہ ہو جو وفاق میں حکومت کر رہی ہے تو گورنر جو کہ صوبے میں لانا وفاق کا استحقاق ہے تو وہ گورنر کم بلکہ لیڈر آف دی اپوزیشن زیادہ لگتا ہے۔

سندھ میں اس بار یہ ماجرا اور بھی مختلف ہے۔ وفاق میں اس سے پہلے حکومت مسلم لیگ نون کی تھی اور گورنر بھی اسی پارٹی کے تھے۔ مسلم لیگ نون کبھی بھی سندھ اسمبلی میں حکمران جماعت یعنی پی پی پی کو بھرپور اپوزیشن نہ دے سکی۔ یہاں حکمران جماعت کو ہمیشہ بھرپور اپوزیشن متحدہ قومی موومنٹ سے ملی۔ اب یہ ماجرا کچھ اس طرح ہے کہ گورنر بھی پی ٹی آئی کا تو سندھ اسمبلی میں سب سے بڑی حزب اختلاف پارٹی بھی پی ٹی آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ کے دو بڑے ہاؤس یعنیٰ وزیراعلیٰ ہاؤس میں حزب اقتدار ہوگا تو گورنر ہاؤس میں حزب اختلاف ہوگا۔

ایسا بھی ہوا ہے کہ وفاق نے صوبوں میں گورنر راج نافذ کیا لیکن یہ تمام راستے اٹھارویں ترمیم نے کچھ اس طرح بند کیے کہ ایسے عمل ہونے کے بعد کچھ ہی دنوں میں صوبائی اسمبلی سے ایسے عمل کی حمایت میں قرارداد پاس ہونا بھی لازم ہے۔

پی ٹی آئی نے سندھ کے گورنر کے لیے نام کا چناؤ کردیا ہے اور یہ نام عمران اسماعیل ہے، جوکہ کراچی سے عارف علوی کے بعد پی ٹی آئی کے دوسرے بڑے لیڈر ہیں۔ موصوف نے گورنر ہونے سے پہلے کچھ ایسے تکراری بیان دے دیے جس سے تاثر یہ پھیلتا ہے کہ آیندہ دنوں میں ٹکراؤ کی سیاست ہونا ناگزیر ہے۔ بحث کو آگے لے جانے سے پہلے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ اور حقائق آپ کے سامنے پیش کرتا چلوں۔ یہاں یہ بھی روایت رہی کہ وزیراعلیٰ سندھی ہوتے ہیں اور گورنر اردو بولنے والے۔ جب بھی وفاق میں پی پی پی نے حکومت بنائی تو انھوں نے بھی یہ توازن برقرار رکھا اور اگر آمریت کا دور رہا تو بھی ماسوائے نگران وزیراعلیٰ کے یہاں کبھی بھی اردو بولنے والا وزیراعلیٰ نہیں بن سکا، یہ اور بات ہے کہ مشرف کے آمریتی دور میں وزیراعلیٰ ارباب رحیم رہے اور گورنر سندھ عشرت العباد اقتدار میں برابر کے شریک تھے۔

عمران اسماعیل کراچی سے ہیں اور اردو بولنے والے ہیں۔ سندھ میں پی ٹی آئی انھی حلقوں سے جیتی ہے جو تاریخی اعتبار سے متحدہ قومی موومنٹ کے تھے۔ کراچی بہت ہی بڑی اہمیت کا حامل شہر ہے، پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں جو توجہ اس شہر کو ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی اور بھی حقیقت ہے کہ جو اس شہر سے جیتتے رہے انھوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں اس شہر کو توجہ نہ دی، چاہے وہ اقتدار صوبے کا ہو، بحیثیت ایک حکومت یا پھر لوکل گورنمنٹ کی حیثیت میں۔ اس شہر کے مسائل بڑھتے ہی رہے۔ یہ شہر ملک کے دوسرے شہروں سے بہت مختلف ہے، وہ اس حوالے سے کہ یہ ملک کا واحد شہر ہوگا جہاں چاروں صوبوں اور مختلف مذاہب کے لوگ رہائش پذیر ہیں، ایک مثال دی جاتی ہے کہ پشتونوں کی تعداد شاید پشاور شہر میں اتنی نہیں جتنی کراچی میں موجود ہے۔

پی ٹی آئی نے اس دفعہ کراچی سے زیادہ نشستیں لی ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ انھوں نے ایم کیو ایم کی طرح مخصوص لوگوں سے ووٹ نہیں لیا بلکہ پی ٹی آئی کو کراچی میں ہر زبان بولنے والے نے ووٹ ڈالا ہے۔ پی ٹی آئی یہ بھی نہیں چاہے گی کہ وفاق میں اس کا سامنا ایک مضبوط حزب اختلاف سے ہو جو کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نون آپس میں اتحاد بناکر وفاق میں ایک مضبوط حزب اختلاف دے سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر پی پی پی وفاق میں مضبوط اپوزیشن دے گی تو سندھ میں پی ٹی آئی ٹکراؤ کی سیاست کھیلے گی۔

اور دوسری طرف پی ٹی آئی کو سندھ میں ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ ایک مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کرکے اگلے الیکشن کے ہونے تک سندھ کی مضبوط پارٹی بن کر ابھرے۔ لیکن جو بیانیہ عمران اسماعیل پیش کر رہے ہیں اس کے تحت پی ٹی آئی سندھ میں سندھیوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکے گی، ہاں شاید وہ اردو بولنے والے حلقوں کے درمیاں اپنی پوزیشن مضبوط کرسکے، جس طر ح مسلم لیگ نون نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل گئی اور سندھیوں سے کٹ گئی۔ عمران اسماعیل نے حکومت میں آنے سے پہلے ہی کوٹا سسٹم کا راگ چھیڑ دیا ہے۔ یہ معاملہ بیانیہ کے حوالے سے بہت اہم ہے لیکن حقیقی اعتبار سے اس کی اہمیت اتنی نہیں۔ سندھ کے اندر بنیادی طور پر دو نیریٹو ہیں، ایک اربن نیریٹو اور دوسرا رورل نیریٹو۔ یہ دونوں بیانیہ اس بار سندھ کے اندر دھیمے ہوئے ہیں یعنی سندھ رورل اور سندھ اربن دونوں قریب ہوئے ہیں اور ان کے قریب ہونے کی وجہ سے کراچی کا نقشہ بھی تبدیل ہوا ہے۔

عمران اسماعیل کا بیان اس بات کا عندیہ ہے کہ پی ٹی آئی، سندھ میں ایم کیو ایم کی سیاست کو take over  کرنا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی کے سندھ کے اندر دو مفاد واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔ ایک کراچی کا پشتون اور دوسرا کراچی کا اردو بولنے والا سندھی۔ یہ بات صحیح یا غلط لیکن ایک یہ زاویہ نظر ضرور آرہا ہے۔کوٹا سسٹم کا الاپ پی ٹی آئی کو سندھ کی وکٹ سے توڑے گا اور نئے حلقوں سے جوڑے گا جہاں ماضی قریب میں ایم کیو ایم اور اس پہلے جماعت اسلامی ہوا کرتی تھی۔

بظاہر یہ بات پی پی پی کو پریشان تو کرتی ہے مگر اندر سے وہ بھی خوش ہیں کہ وہ سندھی حلقے جہاں وہ پچاس سال سے حکمرانی کر رہے ہیں وہ پی ٹی آئی کے قریب نہیں جا پائیں گے۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جی ڈی اے کو بڑی شکست ہوئی، یہ وہی پارٹی ہے جس کے کندھوں پر چڑھ کر ارباب رحیم سندھ کے وزیراعلیٰ بنے تھے یا جنرل مشرف کا زمانہ اور وہ زمانے جب ایم کیو ایم ہر سیاہ و سفید کی مالک تھی، وہ دن دیہی سندھ کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ پی پی پی کی پرفارمنس ان دس سال میں ابتر رہی، وہ سندھ کو سندھ نہ بنا سکی، لیکن سندھیوں میں جو ڈر موجود ہے وہ یہ ہے کہ اگر وہ پی پی پی کو چھوڑیں گے تو یتیم ہوجائیں گے۔ اب سندھیوں کو جو بھٹوز کے مداح ہیں بلاول بھٹو کے روپ میں پھر سے ایک امید کی کرن نظر آرہی ہے۔

عمران اسماعیل کا بیان ہوسکتا ہے کہ پی پی پی کو بلیک میل کرنے کے لیے ہو کہ اگر وہ وفاق میں پی ٹی آئی کو تنگ کریں گے تو یہ انھیں سندھ میں۔ لیکن عمران اسماعیل کا یہ بیان ضرورت سے زیادہ collateral damage کرگیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تسلسل کو پی ٹی آئی آنے والے دنوں میں برقرار رکھ سکتی ہے یا پھر پیچھے پلٹ جائے گی۔

پی ٹی آئی کے عارف علوی سندھ کی ساری باگ ڈور کو ایک مخصوص سوچ سے چلاتے ہیں۔ وہ بہت محنتی بھی ہیں مگر ان کے ساتھ بیٹھ کر نادر اکمل لغاری جو پی ٹی آئی سندھ کے صدر تھے اور سندھ رورل سے تھے، وہ comfortable نہیں تھے اور وہ پارٹی چھوڑ گئے۔ پھر سندھ رورل کو سنبھالنے کا assignment شاہ محمود قریشی کو ملا، مگر وہ بھی اچھے نتائج نہ دے سکے۔ جب کہ سندھی مڈل کلاس کی اکثریت اب بھی پرانے بیانیہ کے گرد گھوم رہی ہے، جو جی ایم سید نے بنایا تھا۔ اب آگے آگے دیکھئے کہ کس طرح حزب اختلاف سندھ میں اپنے جوہر دکھاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔