باملاحظہ، ہوشیار

سردار قریشی  ہفتہ 18 اگست 2018
sardarqureshi1944@gmail.com

[email protected]

25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر سامنے آنے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق، چیئرمین عمران خان، آج ملک کے 21 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے جارہے ہیں۔

342 اراکین قومی اسمبلی کے ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنا ابھی کچھ دن پہلے تک پی ٹی آئی کے لیے مشکل نظر آتا تھا، کیونکہ ہر ممکن کوشش کے باوجود وہ 172 کے جادوئی عدد تک پہنچنے سے بہت دور تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ سمیت چھوٹی اتحادی پارٹیوں، آزاد اراکین کی حمایت اور ممکنہ مخصوص نشستیں حاصل ہوجانے کے بعد اس کے اراکین کی تعداد 168 بن رہی تھی۔

گویا پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے اسے مزید چار ارکان کی حمایت درکار تھی۔دلچسپ بات کہ نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ والے دن پی ٹی آئی کی نشستیں 168 سے کم ہوکر 161 رہ جانی تھیں، کیونکہ اتحادیوں سمیت اس کے جو اراکین ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے انھیں کوئی بھی ایک سیٹ رکھ کر باقی نشستیں خالی کرنی تھیں۔

آئین کا آرٹیکل 91 وزیراعظم کے انتخاب سے متعلق ہے۔ اس کی ذیلی دفعہ 4 میں کہا گیا ہے کہ ’’وزیراعظم کا انتخاب اراکین قومی اسمبلی کی کل تعداد کی اکثریت کے ووٹوں سے عمل میں آئے گا۔‘‘ قومی اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد 342 ہے اور اکثریت ثابت کرنے کے لیے اسے 172 ارکان کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ فی الوقت پی ٹی آئی کے پاس کل 160 ووٹ ہیں، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکنے والا امیدوار وزیراعظم نہیں بن سکتا۔

ذیلی دفعہ 4 میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اگر کوئی رکن پہلے انتخابی مرحلے میں مطلوبہ (سادہ) اکثریت حاصل نہیں کرپاتا تو پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دونوں امیدواروں کے درمیان دوسرا انتخابی مقابلہ ہوگا اور موجود ارکان میں سے اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے والے کو کامیاب قرار دے کر اس کے وزیراعظم منتخب ہو جانے کا اعلان کیا جائے گا۔‘‘ بظاہر یہی نظر آتا تھا کہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار عمران خان سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ البتہ، وہ ووٹنگ والے دن ایوان میں موجود اراکین کے اکثریتی ووٹوں سے وزیراعظم منتخب ہوجائیں گے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب عبوری نتائج کی رو سے پی ٹی آئی نے 116 نشستیں جیتی تھیں۔ چار آزاد اراکین قومی اسمبلی، جن میں سے ایک کا تعلق خیبر پختونخوا اور تین کا پنجاب سے ہے، کی پارٹی میں شمولیت کے بعد اس کے اراکین کی کل تعداد 120 ہوگئی تھی۔ پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں خواتین کی 25 مخصوص نشستیں بھی حاصل ہونی تھیں، جن میں سے 15 پنجاب سے، 7 خیبر پختونخوا سے اور 3 سندھ سے ملنی تھیں۔ اس کو ایوان زیریں میں اقلیتوں کی 4 مخصوص نشستیں ملنے کی بھی توقع تھی۔

یوں سب ملا کر پارٹی کی نشستوں کی تعداد 149 بن رہی تھی۔ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کی پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل کیو) نے بھی مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ اس کے پاس قومی اسمبلی کی چار سیٹیں ہیں۔ بعد میں ایم کیو ایم بھی پی ٹی آئی کا ساتھ دینے پر رضامند ہوگئی۔ اس سمیت سارے اتحادیوں کو ملاکر 19 نشستوں کا اضافہ ہوا۔

اتحادیوں میں سرفہرست بھی ایم کیو ایم ہی رہی، جس کی 6 سیٹیں ہیں، اسے ایک مخصوص نشست بھی ملنی تھی۔ یوں وہ پی ٹی آئی کے لیے 7 سیٹوں کے اضافے کا موجب بنی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس چار نشستیں ہیں، خواتین کی ایک مخصوص نشست ملنے کے بعد اس کی سیٹوں کی تعداد 5 ہوگئی۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی 2 اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کی ایک سیٹ ملا کر پی ٹی آئی کی کل نشستوں کی تعداد 168 بن رہی تھی۔ ایک ایم این اے ایک ووٹ کے فارمولا کے تحت وزیراعظم کے انتخاب کے وقت پی ٹی آئی کے حامی ایم این ایز کی تعداد گھٹ کر 161 رہ جانی تھی، کیونکہ خود عمران خان کو چار، غلام سرور خان، طاہر صادق اور چوہدری پرویز الٰہی کو ایک ایک نشست خالی کرنی تھی۔

ملک بھر سے کوئی 13 آزاد امیدوار ایم این ایز منتخب ہوئے تھے جن میں سے چار پہلے ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے تھے، باقی 9 کی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلینے کے بعد اس کے ووٹوں کی تعداد اگرچہ بڑھ کر 170 ہوجاتی مگر پھر بھی سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے ووٹوں کی مطلوبہ تعداد سے 2 ووٹ کم ہوتی۔ سادہ اکثریت حاصل کرنے کا ہدف پورا کرنے کے لیے پی ٹی آئی بلوچستان نیشنل پارٹی سے بھی بات چیت کر رہی تھی، جس نے تین نشستیں جیتی ہیں۔ خبروں کے مطابق پی ٹی آئی کے سینئر لیڈر جہانگیر ترین نے فون پر اختر مینگل سے رابطہ کرکے انھیں مخلوط حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ جواب میں مینگل نے بھی پی ٹی آئی قیادت سے بات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

سو جناب آج تک بھی، جب نئے منتخب وزیراعظم حلف اٹھانے جارہے ہیں ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مصداق غیر یقینی صورتحال باقی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران آصف علی زرداری ایک بات تواتر سے کرتے رہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے مرکز (وفاق) میں حکومت وہ بنائیں گے۔ اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ الیکشن کے بعد کا منظرنامہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہاتھ ملاتے اور دوسری چھوٹی پارٹیوں اور گروپوں کے ساتھ مل کر متحدہ اپوزیشن کا روپ دھارتے دکھائے گا۔ جو کچھ سامنے ہے وہ تو سب کو نظر آرہا ہے لیکن بہت کچھ ابھی پردے کی پیچھے بھی ہے، جو سامنے آکر سب کو چونکا سکتا ہے۔ سب مانتے ہیں کہ نمبر گیم میں پی ٹی آئی اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔

اگرچہ ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے لیکن انیس بیس کے فرق سے پانسہ پلٹ جانا بعید از قیاس بھی نہیں ہے۔ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اکثریت ہونے کے باوجود اس سے حکومت سازی کا حق چھین لیا گیا ہے اور جوڑ توڑ کے ذریعے وہاں بھی پی ٹی آئی ہی حکومت بنا رہی ہے۔ ایسے میں اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اشتراک سے وجود میں آنے والی ملک کی پہلی مضبوط ترین متحدہ اپوزیشن وزیراعظم بننے کے لیے عمران خان کا راستہ روکنے کو آگے بڑھتی ہے تو اس پر بھی کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

سیاست میں صرف دوستیاں اور دشمنیاں ہی مستقل نہیں ہوا کرتیں، ہمیشہ ایک سی صورتحال بھی قائم نہیں رہتی اور جوڑ توڑ سے حاصل کی گئی اکثریت جوڑ توڑ سے اقلیت میں بھی بدل سکتی ہے۔

جہاں تک وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت کی حمایت کا تعلق ہے تو یہ صرف پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ فریق ثانی یعنی متحدہ اپوزیشن کو بھی مل سکتی ہے۔ وزیراعظم کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے کی صورت میں دونوں طرف کے امیدواروں کو جوڑ توڑ کے نتیجے میں مخالف کیمپ کے مطلوبہ ووٹ مل سکنے کا امکان موجود ہے اور یہی چند ووٹ ایک فریق کی فتح تو دوسرے فریق کی شکست میں فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگہ، دیکھیے کیا دیکھنے کو ملتا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں ڈنکے کی چوٹ پر چوبدار کی پکار سنائی دے گی: باملاحظہ، ہوشیار، نگاہ روبرو، ملک کے نئے وزیراعظم حلف برداری کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔