انا کی قربانی

شاہد سردار  اتوار 19 اگست 2018

عیدالاضحی جسے عام طور پر عید قرباں کا نام دیا جاتا ہے۔ سنت ابراہیمی کی لازوال یادگار کے طور پر عالم اسلام میں منائی جاتی ہے، اس موقع پر دنبے، مینڈھے، بکرے، اونٹ اور گائے کی قربانی کا اہتمام و انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن برسہا برس سے جاری اس عمل میں آج تک یہ کہیں سنا دیکھا اور پڑھا نہیں گیا کہ فلاں نے عید قرباں پر اپنی انا اپنے نفس یا اپنی ’’میں‘‘ کی قربانی دی ہو۔

افسوس صد افسوس صدیوں سے اس معاشرتی فریضے کی طرف کوئی پلٹ کر دیکھنے پر تیار نہیں ہے نتیجے میں سارے کے سارے رشتے عدم توازن، توڑ پھوڑ اور بگاڑ کا شکار ہوکر ختم ہونے کے قریب ہیں۔ قریبی رشتے یا خاندانی زندگی جو 90 فیصد زوال پذیر ہوگئے ہیں اس کی وجہ یہی انا کا زہر ہے جس نے رشتوں میں سرائیت ہوکر اسے جھلسا دیا ہے گلا دیا ہے۔ عدالتوں میں برسوں سے جاری مقدمات اسی انا اسی میں کی وجہ سے پیشیوں کی صورت میں بھگتائے جا رہے ہیں۔

میاں بیوی کے مابین انا کی جنگ، محبوب یا بہت ہی اچھے دوست کے درمیان انا کی خلیج، خونی رشتوں میں انا کا زہر یا پھر عائلی، دیوانی اور فوجداری مقدمات کی طرف نگاہ کرلیں سب کے سبھی ہمارے معاشرے میں جھوٹی انا کے زخم خوردہ ہی ملیں گے۔ ان میں سے بعض مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں، یہی صورتحال برسوں سے قائم رہنے والی دشمنیوں یا عداوتوں میں بھی نظر آتی ہے۔ کوئی بھی فریق اپنی غلطی ماننے یا اپنی انا کو قربان کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ عام حالات میں بھی اسی انا کی وجہ سے ہماری زندگیاں جہنم بنی رہتی ہیں اور ہم چپ چاپ یہ زخم، گھاؤ یا ناسور اپنے وجود میں پالتے اور بالآخر اسے اپنی انا کا کینسر بنا کر سب کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔

دفاتر میں بھی شکررنجی، کشا کشی یا تناؤ کی وجہ ’’میں‘‘ ہی بنتی ہے۔ افسر بالا اور ماتحتوں میں جاری سرد جنگ میں بھی انا کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ بڑے اور حساس اداروں میں افسر بالا اپنے ماتحتوں کو معطل اور برخاست بھی انا کی وجہ سے ہی کرتے ہیں۔ ہماری قومی تاریخ میں اس کی حالیہ ترین مثال اس دور کے وزیر اعظم نواز شریف اور اس وقت پرویز مشرف کے درمیان ’’میں اور انا‘‘ ہی ان کی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زبان زد عام ہونے کا باعث بنی۔ گاؤں دیہاتوں میں وڈیروں اور جاگیرداروں کے فیصلوں کے نام پر قتل، ونی، وٹہ سٹہ، کاروکاری اور دیگر شرمناک حرکات کا جو ارتکاب ہوتا ہے اس کے پس پردہ بھی جھوٹی شان و انا ہی کارفرما ہوتی ہے۔ انا اونچی ناک،وڈیرہ شاہی اور برادری ازم کے نام پر کیے گئے یہ فیصلے ہماری تاریخ کے بدنما داغ بن جاتے ہیں۔

مڈل کلاس کے بچے جب ملازمت یا کاروبار میں ترقی کی وجہ سے متمول طبقہ کے افراد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کرتے ہیں تو گھر میں الٹرا ماڈرن اور پوش سوسائٹی کے افراد کی آمد و رفت کی وجہ سے اپنے ان پڑھ اور سادہ لوح والدین کو انیکسی تک محدود کردیتے ہیں یا اولڈ ہوم بھیج دیتے ہیں۔ ایک واقعہ اخباروں میں رپورٹ بھی ہوا جس میں عینی شاہد نے بتایا کہ گریڈ 20 کے ایک اعلیٰ افسر نے جب گھر میں کئی بکروں کی قربانی دی تو اس کا ماتحت عملہ اور دوست موجود تھے لیکن اس کے والدین کو سرونٹ کوارٹر سے باہر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان صاحب نے جانوروں کی قربانی تو دے دی لیکن اپنے گریڈ اور سوسائٹی کے حصار میں قید اپنی انا کی قربانی نہ دے سکے۔

ہماری سوسائٹی میں جا بجا یہ مناظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے کو سلام میں پہل نہ کرے، کوئی چھوٹی گاڑی بڑی گاڑی کو کراس کر جائے، کوئی طالب علم دوسرے سے زیادہ نمبر حاصل کرلے، میاں بیوی میں سے کوئی ایک دوسرے کو ناگوار بات کہہ دے، شادی بیاہ، سیر سپاٹے پر جانے میں دعوت دینے میں بھول چوک ہوجائے یا خیر خیریت دریافت کرنے میں تاخیر ہوجائے تو ایسی ایسی معمولی باتوں کو بھی انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے اور جب شکررنجی بڑھ جاتی ہے تو پھر کوئی بھی فرد اپنی انا قربان کرکے صلح صفائی میں پہل نہیں کرتا۔ بعض اوقات تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک شخص بستر مرگ پر پڑے اپنے بھائی کی تیمار داری کے لیے آمادہ نہیں ہوتا گھریلو رنجشوں کی وجہ سے۔

یہ ایک مسلم امر ہے کہ انا بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہوتی۔ انسان کی خودی اور انا کا استحکام ہی اس کی شخصیت کے استحکام کا پیمانہ ہوتا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے انا کو زندگی میں کامیابی اور متوازن شخصیت کی کلید قرار دیا ہے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اسے قوت متحرکہ کی حیثیت حاصل ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور دینی اقدار سے ہم آہنگی کے بجائے ہمارے ہاں اس کا استعمال جھوٹی انا، نمود و نمائش اور ایک دوسرے پر برتری و بالادستی حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

حالانکہ انا کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کسی کی غلامی یا محکومی قبول نہ کی جائے، اپنی خودمختاری، سالمیت اور عزت پر آنچ نہ آنے دی جائے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا جائے۔ اسلامی تعلیمات میں تو زمین پر اکڑ کر چلنے سے بھی منع کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس ٹہنی پر زیادہ پھل لگتے ہیں وہ جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے پر نمود و نمائش کی جو تہہ چڑھ چکی ہے اس کے نتیجے میں ہماری انا عہد جدید کے مصنوعی اور نمائشی پیمانوں میں ڈھل گئی ہے اور اس کے معیارات بدل گئے ہیں۔ اب جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہوتا ہے اس کی اتنی ہی آؤ بھگت کی جاتی ہے اور عام طور پر دو نمبر ذرائع سے مال دار بننے والے لوگ اپنی جھوٹی انا اور آن بان شان کی خاطر اپنے ہی سگے رشتے داروں کو حقیر فقیر سمجھنے لگتے ہیں۔

عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی کا جذبہ لاکھ عظیم اور قابل تقلید سہی لیکن اگر قربانی کے حوالے سے یا اس موقع پر اپنی انا کی قربانی دے کر کسی روٹھے ہوئے اپنے کو منالیا جائے، کسی سے ناراضگی میں خود جلد پہل کر لی جائے، کہ کسی کی غلطی کو معاف کردیا جائے اور ہٹ دھرمی اور ضد سے گریز کیا جائے تو یقینا عید کی خوشیاں دوبالا ہوسکتی ہیں اور ہمیں سنت ابراہیمی جتنا ثواب بھی میسر آسکتا ہے۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس روز آپ کی صرف ایک فون کال کسی کا دامن خوشیوں سے بھر دے۔ بڑے دنوں یا بڑے تہواروں پر چھوٹی سی پیش رفت اور معافی جیسا چھوٹا سا لفظ کسی کے سامنے کہہ دینے سے ہم میں سے کوئی چھوٹا نہیں ہوجائے گا اور پھر معافی کی معنویت یہی ہے کہ معافی جس کے ذمے ہو اس کو مانگ لینی چاہیے، کیونکہ معافی سزا سے بھی بڑی چیز ہوتی ہے۔ ہم سبھی بہرحال انسان ہیں اور کوئی بھی انسان لغزشوں، غلطیوں اور کوتاہیوں سے پاک نہیں ہوتا، یہ امتیاز صرف پیغمبروں کے لیے ہی مخصوص ہے۔ہم سبھی کو سامنے کی اس حقیقت کو جان لینا چاہیے کہ زندگی چاہے کسی کی بھی ہو، کیسی ہی کیوں نہ ہو، ازدواجی ہو یا غیر ازدواجی پیار و محبت کی ڈور سے بندھی ہوئی نہ ہو تو جہنم کا نمونہ بن جاتی ہے۔ اور رشتے چاہے خونی ہوں یا منہ بولے یا پھر خود ہی بنائے ہوئے ہوں وہ انسان کو دوسرے انسان سے جوڑے رکھتے ہیں۔

ضروری نہیں کہ ہم کسی سے محبت کریں اگر ہم لوگوں کی صحیح معنوں میں عزت کرنا ہی سیکھ لیں تو ہمارے معاشرے میں سدھار آسکتا ہے اس لیے کہ عزت محبت سے بھی بڑی چیز ہوتی ہے، ویسے بھی محبت ہم زبردستی حاصل نہیں کرسکتے ہاں اسے دے ضرور سکتے ہیں، یہ سمجھ کر کہ قبروں کے نشان مٹ جاتے ہیں لیکن محبتوں کے نشان کبھی نہیں مٹتے۔

ہمیں اور آپ کو اس بات کا کامل یقین ہے کہ زندگی میں ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں ہمیں کبھی کامیابی کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم کو اب دیر نہیں کرنی چاہیے ویسے ہی ہم نے بہت دیر کردی ہے، ہمیں کشادہ دلی ، میانہ روی اور حسن اخلاق کو اپنے اندر در آنے سے روکنا نہیں چاہیے دل بڑا اور کڑا کرکے دل سے دل تک پہنچنے کے جتن کرلینے چاہئیں اور ایسا تبھی ممکن ہوسکے گا جب ہم انا کی قربانی دینے کے لیے خود کو تیار کرلیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا جھکنے والوں کو ہمیشہ بلند کرتا ہے اور سرکشوں کو گمنامی کی خاک میں دفن کردیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔