ضیاء الحق کے 30برس بعد

زاہدہ حنا  اتوار 19 اگست 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

17اگست 1988ء سے 17اگست2018ء۔

30برس…

ایک طویل مدت جس میں نوزائیدہ کڑیل جوان ہو جاتا ہے۔

جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت کو 30 برس بیت گئے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ وہ شخص جو ماضی کا حصہ بن چکا ‘ جس کا بدن خاکستر ہو چکا‘ اس کے بارے میں گفتگو کیوں کی جائے۔ اس طور کی گفتگو وہ لوگ کرتے ہیں جن کے خیال میں تاریخ پڑھنے پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ان سے یہ کیسے کہا جائے کہ تاریخ وہ آئینہ ہے جس میں گزرے ہوئے دن نظرآتے ہیں اور گئے زمانوں میں کی جانے والی غلطیاں ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ سے جنرل ضیاء الحق تک جتنے آمر آئے وہ ہمارے عوام کی غلطی نہیں، ہمارے سیاستدانوں کی خود غرضی، ہوس اقتدار اور جلد از جلد کسی عہدے پر پہنچ جانے کی خواہش تھی۔ مسلم لیگ نے جب پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو وہ اتنے مشکل اور بڑے کام کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ابتداء سے اسے سول اور ملٹری بیورو کریسی پر بھروسہ کرنا پڑا۔ سول افسران انگریز کے تربیت یافتہ تھے اور فوجی اشرافیہ سب سے زیادہ منظم اور مضبوط ادارہ تھی۔دونوں کو ابتدائی دنوں سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ مغربی پاکستان کے جاگیردار طبقے کے لیے ایک منتشر اور بڑے پیمانے پر ہونے والے فسادات کی مار کھائے ہوئے عوام کے مسائل حل کرنا اور ملکی نظم و نسق کو سنبھالنا‘ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔

یہی وجہ ہے کہ 11اگست 1947ء سے ہی ہمیں سول بیورو کریسی اپنا اقتدار قائم کرتی نظر آتی ہے۔ جناح صاحب کی 11 اگست کی تقریر کو یک قلم سنسر کر دینا یا کم ازکم اس کی کتر بیونت کرنا، اس بات کا اشارہ ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا تھا۔ جناح صاحب کی زیر سرپرستی شائع ہونے والے انگریزی روزنامے کے چیف ایڈیٹر نے اگر کرنل مجید ملک کی پریس ایڈوائس کی شدید مزاحمت نہ کی ہوتی اور اس حکم نامے کے بارے میں جناح صاحب کو مطلع کرنے کی دھمکی نہ دی ہوتی تو کام ہو گیا ہوتا۔ ادھر کشمیر فتح کرنے کے عزم نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ شہ دی کہ وہ بانی پاکستان کی اس خواہش کو بنیاد بنا کر اپنے عزائم کو مستحکم کرتے چلے جائیں ۔

یہ وہ تمام عوامل تھے جن کو سامنے رکھنے اور 1971ء کے سانحے کے باوجود جنرل ضیاء جیسے آمروں نے سیاسی برتری اور جمہوریت کی سر بلندی کو اپنی ایڑیوں تلے رگڑ دینے کو اپنے عزائم کے لیے لازمی جانا ۔ 5جولائی 1977ء کو سیاستدانوں کی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک منتخب جمہوری حکومت کا بستر لپیٹ دیا گیا۔ ایک منتخب وزیراعظم کا عدالتی قتل کیا گیا۔90دن کے اندر انتخابات کا وعدہ ایک ایسا وعدہ ثابت ہوا جو کبھی پورا نہیں ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977ء سے 1988ء تک پاکستان پر آہنی گرفت سے حکومت کی۔ وہ اپنے نظریات اور اعتقادات میں جنرل ایوب اور یحییٰ سے قطعاً مختلف تھے۔ وہ اپنے آپ کو پاکستان میں سخت گیر اسلامی اصولوں کے نفاذ کے لیے مامورمن اللہ خیال کرتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ ان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ملک متشدد عقائد کا قلعہ بن گیا۔ سعودی عرب اور امارات کی طرف سے ان پر درہم و دینار کی برسات ہوئی۔ اسی دوران سابق سوویت یونین کی افواج افغانستان کی سرحد عبور کر کے ملک میں داخل ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے لیے یہ خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ایک ایسا نادر موقع تھا جو انھیں جہاد کی سربراہی کا شرف بخشتا تھا۔انھوں نے دنیا بھر کے جہادیوں کے لیے پاکستان کے دروازے کھول دیے۔ انٹر نیشنل کرائسس گروپ کی جولائی2002ء کی رپورٹ کے مطابق 1947ء میں آزادی کے وقت 137 اسلامی مدارس تھے ۔1956ء کے ایک سروے کے مطابق مغربی پاکستان میں ان مدرسوں کی تعداد 244 ہوگئی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں ان مدرسوں نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔ واشنگٹن ٹائمز میں چھپا کہ ماہرین کے تجزیے کے مطابق ‘جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دوران یہ مدارس جہادیوں کے لیے سپلائی لائن کا فریضہ انجام دیتے رہے‘‘۔

80ء کی دہائی میں جنرل ضیاء نے جہاد اور اسلام کے نام پر اپنی ایک ایسی مستحکم اور متشدد کانسٹی ٹیونسی تشکیل دی جس کے نتائج آج 30 برس گزرنے کے بعد بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں بعض بالکل نئی مذہبی تنظیموں کے ووٹوں میں بے پناہ اضافہ کچھ لوگوں کو حیران کرتا ہے لیکن وہ لوگ جو افغان جہاد اور پاکستان میں تیزی سے پھیلتے ہوئے مدارس،ان کو مہیا کیے جانے والے خطیر عطیات پر نظر رکھے ہوئے تھے‘ انھیں 2018ء میں چند نئی مذہبی تنظیموں کے نتائج پر حیرت نہیں ہوئی۔

پاکستان وجود میں آیا تو اس کے رہنما تعلیم یافتہ تھے مغربی طرز زندگی گزارتے اور لبرل خیالات رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب پاکستان کی پہلی کابینہ وجود میں آئی تو اس میں سر ظفر اللہ خان اور جوگندر ناتھ منڈل شامل تھے۔ راجا صاحب محمود آباد سے بانی پاکستان کا اختلاف اس بات پر ہو گیا تھا کہ راجا صاحب ملک کے آئین اور قانون کو اسلامی خطوط پر ترتیب دینا چاہتے تھے جب کہ  بانی پاکستان نے اس خیال کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ کے سرپرست اور مالیاتی امور کے کرتا دھرتا عین اس وقت ناراض ہو کر ایران چلے گئے تھے جب 14 اگست کو کراچی میں پاکستان کی پہلی کابینہ حلف اٹھا رہی تھی۔ ابتدائی برسوں میں اسلام کا نام لینے کے باوجود مغربی تعلیم یافتہ لوگ کاروبار مملکت چلاتے رہے۔ان کی پسپائی شروع ہوئی اور یہ اس وقت مکمل ہوئی جب1977ء میں جنرل ضیاء نے مغربی تعلیم سے متصف اور مغربی بودوباش رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔ بعض تجزیہ نگاروں کے بقول قبر ایک تھی، اس میں کوئی ایک شخص ہی سو سکتا تھا۔ ظاہر ہے پھر اس قبر میں ذوالفقار علی بھٹو ہی نے آرام کیا۔

جنرل ضیاء کا دور اقتدار جمہوریت پسندوں‘ روشن خیالوں اور انسان دوستوں کے لیے تاریک دور تھا۔ اس میں کتنے ہی نوجوان اپنے خیالات کے سبب پس دیوار زنداں دھکیلے گئے‘ کتنے ہی بدترین تشدد سے گرے‘ صحافیوں نے ٹکٹکی پر چڑھ کر کوڑے کھائے اور عورتیں اسلامی قوانین کے نام پر پستیو ں میں اتار دی گئیں، یہ حبس کی ایک طویل رات تھی جس سے ہم سب گزرے۔ سیاسی جماعتوں پر بندش نے ملک میں سیاسی سرگرمیوں کو ختم کردیا۔ سنسر شپ اور سیلف سنسر شپ نے ذہنوں پر تالے ڈالے۔ یہ وہ دم گھونٹ دینے والا ماحول تھا جسے ہم سب یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ ہماری زندگیوں میں ختم نہیں ہوگا۔

یہی وجہ تھی کہ جب17اگست1988ء کو خبر آئی کہ جنرل ضیاء نے اپنے متعدد جرنیلوں اور ساتھیوں کی ہمراہی میں آگ کا کفن پہنا تو فوری طور پر بیشتر لوگوں کو یقین نہیں آیا تھا۔ ان کے جہاز کی تباہی کو عموماً کسی سازش کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔ جنرل اسلم بیگ کا کہا ہو ا یہ جملہ یاد آتا ہے کہ ایسی سازشیں اس وقت تک تکمیل نہیں پاتیں جب تک اس میں مدد کرنے کے لیے اندرونی ہاتھ موجود نہ ہو ں۔ جنرل ضیاء الحق کے اس سانحے پر بہت کچھ لکھا گیا۔ آم کی وہ پٹیاں بار بار زیر بحث آئیں جو سی 130 کے اڑان بھرنے سے چند منٹ پہلے طیارے میں رکھی گئی تھیں۔

موت کا وہ تحفہ جو کچھ لوگوں کے لیے زندگی کا سبب بن گیا۔اس حادثے میں امریکی سفیر بھی ہلاک ہوئے تھے۔ امریکیوں نے فوری تحقیق شروع کردی اور 16اکتوبر 1988ء کو 365صفحے کی ایک رپورٹ صدر پاکستان غلام اسحاق خان کو پیش کی گئی جس میں حادثے کی ہر زاویے سے تحقیق کی گئی تھی اور آخر کار یہی نتیجہ نکالا گیا تھا کہ طیارہ کسی مجرمانہ کارروائی یا سبوتاژ کا شکار ہوا۔ بہت سے افراد یہ سوال کرتے ہیں کہ متعلقہ اداروں نے اس حادثے کی مناسب تحقیقات میں دلچسپی کیوں نہیں لی۔ اس بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل سے جنرل ضیاء الحق کے قتل اور اس کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قتل تک سب پر رازداری کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے ۔

اس سے قطع نظر ہمیں اس بات پر نظر کرنی چاہیے کہ جنرل ضیاء الحق اپنی ہلاکت کے 30 برس بعد بھی پاکستانی سماج پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتے رہے ہیں اور آج بھی ہمیں ان کے کابوس سے چھٹکارا نہ مل سکا۔ انھوں نے نسلی، مذہبی اور لسانی نفرتوں کے جو بیچ بوئے تھے وہ گزشتہ 30 برسوں میں برگ و بار لائے اور انھوں نے ایک معتدل مزاج اور صلح کل سماج کی بُنت ادھیڑ دی۔ یہ انکی ذات تھی اور ان کے خواب تھے جو آج بھی ہمارے سماج پر گہرے سائے ڈال رہے ہیں۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ ہم ان کے کابوس سے کب نجات پا سکیں گے۔ اور اس کے لیے ہمیں کیا کچھ کرنا ہوگا۔ 30 برس کوئی معمولی مدت نہیں ہوتی لیکن اس مدت میں ہم اعتدال اور اتفاق کی طرف نہ بڑھ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔