ایک اور الیکشن

عبدالقادر حسن  اتوار 19 اگست 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

بالآخر جناب عمران خان نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا وہ پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم ہیں انھوں نے اپنے سیاسی حریف میاں شہباز شریف کو واضح برتری سے شکست سے دوچار کیا۔

قومی اسمبلی جس میں گزشتہ پانچ سال جانے سے وہ گریز کرتے رہے انھوں نے اپنے انتخاب کے بعد بالآخر اپوزیشن کے ہنگامے میں اسمبلی ممبران سے خطاب میں یہ بات واضح کر دی کہ ریاست کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی فرد کے لیے کوئی معافی نہیں ہوگی۔ انھوں نے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو ڈاکو قرار دیا اور ان کا احتساب کرنے کا اعلان کیا۔

ہمارے نئے وزیر اعظم اس سے پہلے بھی اپنی تقاریر میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ملکی وسائل کو لوٹنے والے کسی شخص کے لیے کوئی معافی نہیں ہو گی۔ ان کی حکومت کا باقاعدہ آغاز آج سے ہو رہا ہے پہلے مرحلے میں وہ اپنی کابینہ مکمل کریں گے تا کہ حکومتی امور کو احسن طریقے سے چلایا جا سکے ان کی ٹیم میں زیادہ تجربہ کار لوگ شامل نہیں ہیں لیکن حکومت عمران خان کی شخصیت کا نام ہو گا اور وہی حکومت کے اچھے برے کاموں کے ذمے دار ہوں گے۔

عوام کی توقعات صرف اور صرف ان کی شخصیت سے ہی ہیں اس لیے عمران خان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوں گے اور عوام کو خوش رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہمارے عوام کو جس طرح دھتکارا گیا ہے وہ اب پیار کے متلاشی ہیں ان کو اپنا نجات دہندہ عمران کی شکل میں نظر آیا تو انھوں نے اس کو اقتدار کی مسند پر لا بٹھایا ہے خاص طور پر ملک کے نوجوان طبقے نے جس طرح عمران خان کا غیر مشروط ساتھ دیا وہ ایک مثال ہے۔ ہمارے نوجوان ہاتھوں میں تعلیمی ڈگریاں لیے در بدر بھٹکتے رہے ہیں ان کو عمران خان کی شکل میں امید کی کرن نظر آئی۔

تحریک انصاف نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا ہے ان میں سے اگر وہ آدھی تعداد میں نوکریاں دینے میں بھی کامیاب ہو گئے تو ملک کے نوجوان کسی نہ کسی سمت چل پڑیں گے ان کو راستہ دکھانے والا چاہیے وہ اپنے راستے خود بناتے جائیں گے صرف ایک رہنما ہونا چاہیے جو ان کو صحیح راستے کا بتا سکے اور عمران خان نے ان کی یہ کمی پوری کر دی ہے، جس کے جواب میں ملک بھر کے جوانوں نے عمران کے نعرے بلند کیے ا ور آج وہ وزیر اعظم کی کرسی پر متمکن ہیں۔

پاکستان کا سیاسی منظر وقت کے ساتھ بدلتا رہا ہے پہلے دو پارٹیوں نے باری باری حکمرانی کے مزے لوٹے لیکن تحریک انصاف نے تیسری پارٹی بن کر ان کی حکمرانی کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور آج وہ حکمران جماعت بن چکی ہے۔ اسی سیاسی منظر نامے کو مدنظر رکھا جائے تو حکومت مخالف اتحاد بھی وجود میں آتے رہے اور یہ اتحاد ٹوٹتے بھی رہے اپوزیشن کا ایک ایسا ہی اتحاد الیکشن کے بعد آناً فانا ًوجود میں آگیا تھا لیکن وقت کے ساتھ اس میں شکست و ریخت ہورہی ہے اور وزیر اعظم کے انتخاب میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا اور اپنے اتحادی امیدوار شہباز شریف کو بھی ووٹ دینے سے گریز کیا ۔

اس واقعہ کے پیچھے کچھ اصولوں کا ذکر بھی چل رہا ہے۔ پاکستانی جمہوریت کو ماضی میں جو مشکلات پیش آئی ہیں اور اپوزیشن کے بقول جو اس وقت درپیش بھی ہیں اپوزیشن کے اتحادی ان کا ذمے دار میاں نواز شریف کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ عمران خان کی حکومت کی مخالفت اور نواز لیگ کی حمائت سے گریز کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کا بیانیہ اور نئی سوچ کو یکایک نظریاتی ہونا کس طرح تسلیم کیا جائے۔ ان کے ناقدین تو یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی ذات کو بچانے اور اپنی غلطیوں کے مکافات عمل سے بچنے کے لیے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہے ہیں اور حالیہ انتخابات کو مشکوک ثابت کرنے کے لیے دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔

میاں صاحب خود تو جیل میں ہیں لیکن ان کے برادر خورد نے وزیر اعظم کا الیکشن لڑا ہے، حالانکہ ان کو معلوم تھا کہ وہ یہ الیکشن ہار جائیں گے اس لیے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ پارٹی میں جمہوریت کا اظہار کرتے ہوئے کسی دوسرے رکن کو اس الیکشن کے لیے منتخب کر دیتے۔ یہی صورتحال پنجاب اسمبلی میں بھی ہونے جا رہی ہے جہاں پر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز الیکشن لڑنے جا رہے ہیں یعنی وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ ایک علامتی الیکشن کے لیے بھی وہ پارٹی کے کسی دوسرے رکن کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور اگر کسی اعلیٰ عہدے کا کوئی امیدوار ہو گا تو وہ ’شریف‘ ہی ہو گا۔

عمران خان کے انتخاب پر انتہائی جاندار تبصرہ ان کے اتحادی چوہدری شجاعت حسین نے کیا ہے، وہ کہتے ہیں آج تک جتنے بھی وزیر اعظم منتخب ہوئے ان کو کہیں اور سے منتخب کیا گیا جن میں وہ خود بھی شامل ہیں۔ یہ وہ کڑوا سچ ہے جو چوہدری شجاعت ہی بول سکتے ہیں۔ انھوں نے ملکی سلامتی کے کئی مواقع پر ڈٹ کر اپنے خیالات کو عوام تک پہنچایا اور کئی سچ بولے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان وہ واحد وزیر اعظم ہیں جن کو عوام نے منتخب کیا ہے اس لیے ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ چوہدری شجاعت اور ان کا خاندان سیاست میں پچھلی کئی دہائیوں سے انتہائی سرگرم رہا ہے ۔

چوہدری پرویز الہٰی پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو چکے ہیں، ان کا کردار پنجاب کی آئندہ سیاست میں انتہائی اہم ہو گا۔ وہ تحریک انصاف کے اتحادی ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت بہت جلد بلدیاتی الیکشن کا ڈول ڈالنے جا رہی ہے۔ پنجاب کی بلدیاتی سیاست کو چوہدری برادران سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا۔ وہ جوڑ توڑ کر ماہر بھی ہیں اور لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا فن بھی انھیں آتا ہے۔

ان کا پنجاب کی سیاست میں ایک مقام ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پرویز الہٰی کو سپیکر کے انتخاب میں توقع سے زیادہ ووٹ مل گئے جس پر ان کے مخالفین نے بہت واویلا کیا ہے۔ عمران خان اور چوہدری صاحبان کا سیاسی اتحاد پنجاب کی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا اور ہم سب یہ کردار دیکھیں گے۔ پنجاب کی سیاست چوہدریوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور وہ ایک دہائی کے بعد ملنے والے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔