ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

امجد اسلام امجد  اتوار 19 اگست 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

جمعے کی شام، جس وقت قومی اسمبلی کے ہال میں وزیراعظم کے انتخاب کے بعد ن لیگ کے ممبران کی طرف سے احتجاجی مظاہرہ اور شور و غل جاری تھا، مجھے ایک ٹی وی چینل کے عید شو کی ریکارڈنگ کے لیے گھر سے نکلنا پڑا، اور یوں میں قائد ایوان عمران خان، ن لیگ کے سربراہ میاں محمد شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول زرداری بھٹو کی تقاریر اور ہنگامے کی باقی ماندہ تفصیلات اور مناظر کو براہ راست نہ دیکھ سکا۔

البتہ شو کے درمیان دو نو منتخب ممبران اسمبلی میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن اور محترمہ مسرت جمشید چیمہ سے اس موضوع پر گفتگو جاری رہی کہ احتجاج اور اختلاف بلاشبہ ہر فرد اور سیاسی پارٹی کا بنیادی اور قانونی حق ہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کے اظہار کے طریقوں اور نوعیت کے بارے میں مل بیٹھ کر کچھ ایسے فیصلے کریں جن کا نہ صرف اطلاق سب پر ہو بلکہ جن کا پابندی بھی سیاسی کلچر کا حصہ بنائی جائے تا کہ دنیا کو سیاسی سطح پر ہمارے بالغ ہونے کا پتہ چل سکے۔

جیتنے والوں نے اپنی خوشی اور ہارنے والوں نے اپنی ناراضی کا جس طرح سے اظہار کیا وہ کسی حد تک جائز تو ضرور تھا مگر اس کی شدت، دورانیہ، طریق کار اور بدنظمی یقیناً ایسے معاملات ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنا بنتا ہے کہ مہذب قومیں اور معاشرے یہ کام اس طرح سے نہیں کرتے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس اسمبلی میں آنے والے لوگ کسی منضبط اور باقاعدہ بلدیاتی نظام کے راستے سے سیاست میں داخل ہوتے تو وہاں کی تربیت یقیناً ان کے کام آتی۔ اب ڈیڑھ سو برس کی براہ راست برٹش حکومت کی غلامی اور ستر برس کی بالواسطہ جمہوریت کی آنا کانی کی وجہ سے ہمارے عوام اور ان کے نمائندے دونوں ہی ترقی یافتہ ہم عصر دنیا سے کچھ پیچھے رہ گئے ہیں۔

تاریخ کے اس جبر کو ہمیں اسی طرح سے بھگتنا اور برداشت کرنا پڑے گا جیسے کسی خاندان میں کوئی بزرگ غلط فیصلوں، نامناسب سرمایہ کاری یا اپنی کم ہمتی کی وجہ سے اپنے ورثاء کے لیے بہت سا قابل ادا قرضہ چھوڑ جائے۔ اب چاہے یہ قرضہ ان ورثاء پر استعمال ہوا ہو یا نہ ہوا انھیں بہرحال اس کو ادا کرنا بھی پڑتا ہے۔ سو جو ہو چکا ۔

اس پر Blame Game کھیلنے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ کے لیے اس طرح کے قرض خواہانہ رویوں اور افراد سے سبق حاصل کیا جائے اور نہ صرف یہ کہ ان کی تکرار سے بچا جائے بلکہ مل جل کر ان کی ادائیگی کی کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ ہماری اگلی نسلیں اس ’’فالتو بوجھ‘‘ سے نجات پا سکیں۔ لیکن اگر ہمارا رویہ بدلے اور حساب برابر کرنے والا ہی رہا تو نیا پاکستان تو ایک طرف موجود اور پرانے پاکستان کو بھی محفوظ رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ جغرافیائی اور نظریاتی دونوں سطحوں پر ہماری سرحدیں ہمارے بیشتر ہمسایوں اور طاقتور قوتوں کے مفادات سے ٹکراتی ہیں۔

خوشی اس بات کی ہوئی کہ دونوں عوامی نمائندوں یعنی میاں مجتبیٰ اور بیگم مسرت چیمہ نے اپنے سیاسی نظریات کے اختلافات کے باوجود اس خیال کی نہ صرف پر زور تائید کی بلکہ اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی کہ جہاں تک ملکی مفاد اور قومی ترقی کے منصوبوں کا تعلق ہے وہ یک دل اور یک جان ہو کر آگے بڑھیں گے بلکہ ماضی کی تلخیوں اور بدزبانی کی فضا کو بھلا کر باہمی احترام اور تعاون کی ایک ایسی فضا بھی پیدا کریں گے۔

جس میں تمام سیاسی پارٹیاں اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے جزوی اختلافات کے باوجود قدم سے قدم ملا کر چلنے کا راستہ اپنا سکیں کہ فی الوقت ہماری معیشت ’خارجہ پالیسی‘ قومی سلامتی اور عوامی ترقی کو جو مسائل درپیش ہیں وہ صرف تحریک انصاف کے نہیں پوری قوم اور ملک کے مستقبل کے مسائل ہیں۔ بلا شبہ ان کے حل کی براہ راست ذمے داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے لیکن ہمارا ایک دوسرے سے بنیادی رشتہ حکومت کے بجائے ’ریاست‘ کی بنیاد پر قائم اور استوار ہے۔ سو حکومت سے کسی معاملے میں اختلاف کا مطلب ریاست سے اختلاف بہرحال نہیں ہو سکتا۔

اسی صورتحال میں مجھے ایک فرانسیسی مفکر کا قول یاد آ رہا ہے جس نے اپنے ایک زبردست نظریاتی مخالف کے بارے میں کہا تھا کہ ہمیں اس کے نظریات اور خیالات سے بالکل متفق نہیں ہوں لیکن اگر کسی نے اس کی زبان کو بند کرنے یا اظہار رائے کا حق چھیننے کی کوشش کی تو میں سب سے پہلے اس کے حق میں آواز اٹھاؤں گا۔ اسی طرح جب ژاں پال سارتر کی حکومت وقت پر جارحانہ تنقید کے پس منظر میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ڈیگال کو یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ یعنی سارتر کو خاموش کرانے کے لیے جیل میں ڈال دیں تو اس کا جواب سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل تھا، اس نے کہا:

’’میں سارتر کو جیل میں کیسے ڈال سکتا ہوں۔۔۔ وہ تو فرانس ہے‘‘

سیاسی مخالفت کرنا اور سہنا دونوں اپنی جگہ پر ایک آرٹ ہیں۔ بدقسمتی سے اس میدان میں آرٹسٹوں کے ساتھ ساتھ بہت سے آڑھتی بھی در آئے ہیں جن کی وجہ سے چیزوں کی شکلیں ٹھیک سے بن نہیں پا رہیں۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو دوسری جنگ عظیم کے بعد ظہور پذیر ہونے والے تقریباً سو سے زیادہ ملکوں میں یہی سین کسی نہ کسی شکل میں چل رہا ہے کہ اپنے اپنے ماضی سے کٹنے اور اس کی بہت سی خوبصورت اقدار سے محروم ہونے کے بعد ان ممالک کے لوگ ایک ایسی نئی دنیا کے نظام اخلاق اور کاروباری اقدار میں پھنسے ہوئے ہیں۔

جن میں ان کی حیثیت دینے بجائے لینے والے ہاتھ کی ہے۔ سو بہت سے تضادات نے ہماری اجتماعی قوت فیصلہ سے اس طاقت کو اگر مکمل طور پر چھینا نہیں تو منتشر ضرور کر دیا ہے جس سے کسی قوم کے خدوخال متعین ہوتے ہیں۔ اب ہمیں ماضی کی بازیافت کے ساتھ ساتھ مستقبل میں نمو پذیر رویوں کا ایک ایسا نیا مجموعہ بنانا ہے جو اقوام عالم میں ہماری پہچان بننے کے علاوہ ہماری تاریخ کا محافظ اور ترجمان بھی ہو۔ یہ منزل طویل بھی ہے اور صبر آزما بھی لیکن ہمارے اردگرد قوموں نے اسے سر کر کے دکھایا بھی ہے سو کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم اپنی تخلیقی قوتوں کو ایک جگہ جمع کر کے باہمی احترام اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں تو ہمارا کل بھی روشن اور چمک دار نہ ہو۔

یہ دو شعر جس وقت لکھے گئے اس وقت ابھی ’’تحریک انصاف‘‘ وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔ سو اس میں مذکور انصاف کو انصاف ہی سمجھا جائے اور اس کی حفاظت اور حصول کو انفرادی کے بجائے ایک اجتماعی منزل اور رشتے کی شکل میں دیکھا جائے کہ یہی راستہ امن، ترقی اور اتفاق کا راستہ ہے۔

اپنی پستی کا نہ الزام کسی پر رکھو

پاؤں پھسلے تو اسے پھر سے جما کر رکھو

قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے

اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔