کراچی سے دبئی (دوسرا حصہ)

نسیم انجم  اتوار 19 اگست 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

جناح ٹرمینل بین الاقوامی ہوائی اڈہ دنیا بھر کے ہوائی اڈوں میں اپنی عمارت اور خوبصورتی کے اعتبار سے منفرد اور جدید طرز پر تعمیر کیا گیا ہے، نظم و نسق بھی قابل تحسین ہے۔ چہل قدمی کرتے ہوئے ہماری نظر Emirat’s کے روشنی سے جھلملاتے ہوئے بورڈ پر پڑ گئی، اس کے قریب اتحاد کا دفتر ہے، جہاں ٹکٹنگ ریزرویشن کے امور نمٹائے جاتے ہیں، سیدھے ہاتھ پر زرد رنگ کی روشنی میں چمکتا ہوا سائن بورڈ ہماری توجہ مبذول کرا رہا ہے جس پر (SAPS) شاہین ایئر سروس کے الفاظ جگ مگ کر رہے ہیں، کینٹین کے سامنے ’’محمد‘‘ ایکسچینج ہے۔

جہاں کاؤنٹر پر کھڑے حضرات کرنسی تبدیل کروا رہے ہیں اور اب ہم مٹر گشت کرتے کرتے اس بورڈ کے سامنے پہنچ گئے ہیں جو تمام مسافروں کا مرکز ہے اور اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ سنہری روشنی سے منور تھا، اس پر جہازوں کی آمد و روانگی، متوقع وقت Check-in، پرواز نمبر اور ایئر لائن نمبر کے الفاظ ترتیب کے ساتھ چل رہے تھے اور معلومات بہم پہنچا رہے تھے، پورا دن اسی طرح کی مصروفیت میں گزرا جا رہا تھا اور سینڈوچ کھانے کے باوجود بھوک اور انتظار کی تکلیف نے اب بے قراری کو بڑھا دیا تھا، ساتھ میں سرد ہواؤں کے تھپیڑے بھی ناقابل برداشت ہوگئے تھے۔

صبر کرنا اور بڑھتی ہوئی اشتہا کو برداشت کرنا تو درویشوں کا کام ہے اور ہم ٹھہرے نفس امارہ کے غلام، اپنی خواہش اور تعیشات زندگی کے شاہانہ ٹھاٹ کو پانے کے لیے صبح و شام دوڑتے اور ایک دوسرے کے حق پر ڈاکا مارتے ہیں، جائز و ناجائز، حرام اور حلال کی تفریق کو اکثر بھلا بیٹھتے ہیں، تمناؤں کی قندیل کو ہر پل روشن دیکھنے کے متمنی رہتے ہیں، بس ہر چیز ہمیں ہی مل جائے، ہمارے ساتھی، دوست، محلے دار اور وہ عزیز و اقارب جو کم حیثیت ہیں انھیں ہم حشرات الارض جیسا بھی نہیں سمجھتے ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ سب کچھ پانے کے بعد بھی انسان خالی ہاتھ رہے۔

من کی دولت اور روح کی غذا حاصل نہ کرسکے تو پھر اس بھاگ دوڑ سے کیا فائدہ؟ دنیا ایسی دلدل ہے اس میں قارون و فرعون کا خزانہ ڈال دیا جائے اور اس کے ساتھ ہی طلب دنیا اور حصول دنیا کی ہر قیمتی چیز سے اگر اسے پاٹا جائے تو کامیابی ممکن نہیں، ہوس کا منہ ہمیشہ کھلا رہے گا اور فقیری کا کشکول ہاتھوں ہاتھ سفر میں رہے گا۔ نواز شریف کی دولت کس کام آئی؟ شاہوں کے خزانے بھی انھیں دو گز زمین فراہم نہ کرسکے۔ قناعت اور صبر اﷲ انھی لوگوں کی جھولی میں اس خزانے کی طرح ڈالتا ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتا، یہ لوگ وہ ہیں جو زندگی کے انجام سے واقف ہوتے ہیں۔

اب ہم سب مسافر تھک کر سیٹوں پر بیٹھ گئے ہیں، کوئی اونگھنے لگا ہے تو کوئی کتاب یا اخبار کی ورق گردانی کر رہا ہے اور مجھ جیسے لوگ سوچوں کے گرداب میں یادوں کے سیاہ کنکر پھینکنے میں مصروف ہیں۔ میرے ملک پر دشمنان وطن نے بارہا شب خون مارا ہے لیکن سلام ہے فورسز کے سپہ سالاروں اور نوجوانوں کو جو ہر لمحہ دشمن کا قلع قمع کرنے اور اپنے ہم وطنوں کے تحفظ کے لیے تیار رہتے ہیں، نہ جانے کیوں 8 جون 2014 کا وہ دل خراش واقعہ یاد آگیا ہے جب یہ حساس ادارہ دشمن کی میلی نگاہ کے حصار میں آگیا تھا۔

دہشتگرد10 تھے اور اپنے آپ کو پاکستانی طالبان کہہ کر اپنے عمل سے خود ہی نفی کر رہے تھے اور غدار وطن کے طور پر سامنے آئے تھے۔ مذکورہ تاریخ کو یہ حملہ 11 بج کر 20 منٹ پر شروع ہوا اور 9 جون کی صبح 4 بجے عبرت ناک انجام کو پہنچا۔ ان میں سے کئی نے خودکش جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں تاکہ بوقت ضرورت اپنی شناخت مٹانے کے لیے اپنے آپ کو اڑا لیا جائے، انھوں نے ایسا ہی کیا لیکن وہ اور ان کے مذموم مقاصد چھپ نہ سکے ، اس حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے خوشی سے قبول کرلی تھی، ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے سابقہ سربراہ حکیم اللہ محسود کا بدلہ لیا تھا جو 2013 میں ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

یہ وہی مقام بھی ہے جہاں میرے والدین حج و عمرہ ادا کرکے آئے تھے، میرا چھوٹا بھائی لئیق احمد ساتھ میں تھا، ہم بہن بھائی، بھابیاں ان کے بچے انھیں لینے آئے تھے، ڈھیر سارے پھولوں کے ساتھ، پھولوں کے ساتھ استقبال کرنا مجھے اچھا لگتا ہے اور یہ تو متبرک موقع تھا، میرے والدین اس دنیا سے کوچ کرگئے ہیں لیکن میری ماں تو میرے دل میں رہتی ہیں، سانسوں میں زندہ ہیں، دنیا کی ہر ماں میری ماں ہی جیسی ہوتی ہے،گزرا ہوا ہر پل شام کی طرف لوٹ رہا تھا، کہر نے رخصتی کی ٹھان لی تھی، اشجار، پھول، پودے اپنی اصلی رنگت میں آنے لگے تھے۔

کہر کا غازہ مٹتا جا رہا تھا اور سردی بڑھنے لگی تھی، مسافر اپنے ہینڈ کیری سے گرم کپڑے نکال رہے تھے اور پھر اسی دوران جہاز کی آمد کا اعلان جنگل کی آگ کی طرح ہر سمت پھیل گیا، مسافروں کی خوشی دیدنی تھی جیسے سومناتھ کا قلعہ فتح کرلیا ہو۔ الحمدﷲ وہ وقت آن پہنچا جب ہر شخص اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گیا تھا، ایئرہوسٹس نے اپنے فرائض منصبی کو ادا کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات کو اشاروں کی مدد سے سمجھانا شروع کیا کہ بوقت ضرورت آکسیجن کا استعمال کس طرح کیا جاتا ہے، بیلٹ باندھنے کی تاکید بھی کی اور چیک بھی کیا۔ ہماری میزبان قدآور اور خوش شکل تھی۔

نصف گھنٹے کا سفر طے ہوا ہوگا کہ ٹرالی کی شکل میں کینٹین چلتی ہوئی آگئی اور لوگ چائے، بسکٹ اور دوسرے مشروبات خریدنے میں پیش پیش نظر آئے۔ یہ سلسلہ تھوڑے سے توقف کے بعد دوبارہ شروع ہوگیا اور وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ جب دبئی ایئرپورٹ پر ہمارے جہاز نے لینڈ کیا اور کاغذی کارروائی کے بعد ہم سب باہر آگئے تھے، ہماری بیٹی عائشہ کی ہم جماعت مہوش ہمیں لینے آئی تھی، اس نے ہی ہمیں پاکستانی ہوٹل سے کھانا دلوایا، بقول عائشہ اور مہوش کے ان کے کھانے لذیذ ہوتے ہیں۔جس مقصد کے لیے ہمارے صاحبزادے حافظ علی عارف اور عائشہ بلکہ ہم سب سفر کرکے دبئی پہنچے تھے وہ دبئی کا فائر ورک تھا، پوری دنیا میں برج خلیفہ کی طرح فائر ورک کا شہرہ ہے، اور دبئی تو ویسے بھی دنیا بھر کے سیاحوں اور تجار کے لیے کشش کا باعث ہے، دبئی سٹی میں مختلف قوم و نسل اور زبان بولنے والے لوگ یہاں رہتے ہیں۔

یہ عرب امارات کا گنجان آباد علاقہ ہے اور مڈل ایسٹ کا مہنگا ترین شہر ہے اور 22 ویں نمبر پر ہے۔ اس بڑے شہر سے ہزاروں لوگوں کے روزگار وابستہ ہیں، اس کی ترقی کا سہرا محمد بن راشد المختوم کے سر ہے جنھیں شیخ محمد بھی کہا جاتا ہے۔ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیراعظم امارات دبئی کے امیر ہیں جنوری 2006 سے یہ عہدہ ان کے پاس ہے۔ بچوں کی آوازوں نے خیالات و افکار کی وادی پر ایسا تاک کر کنچا مارا ہے کہ حالات حاضرہ کا حصہ بننا پڑا، فائر ورک کا نظاہرہ ایسا ہے جسے ہر آنکھ نے محفوظ کرلیا ہے۔ روشنیوں کی لکیریں، پھول پتیاں، مختلف زاویوں سے ستاروں کا رقص آسمان کو چھو رہا تھا اور طلسماتی دنیا میں حاضرین اپنے آپ کو قید میں محسوس کر رہے تھے، ایسی قید جس سے نکلنے کا ارادہ فی الحال تو ہرگز نہیں تھا۔        (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔