قومی کھلاڑی اس بار بڑا کارنامہ انجام دے سکیں گے؟

میاں اصغر سلیمی  اتوار 19 اگست 2018
ایشین گیمز میں کارکردگی کا مسلسل گرتا ہوا گراف۔ فوٹو: فائل

ایشین گیمز میں کارکردگی کا مسلسل گرتا ہوا گراف۔ فوٹو: فائل

ایشین گیمز کا باقاعدہ میلہ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں سج چکا ہے،45 ایشیائی ملکوں کے ہزاروں کھلاڑی 40سپورٹس کے465 ایونٹس میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے ایکشن میں ہیں۔

پاکستان کا بھی 359رکنی دستہ بھی انڈونیشیا میں موجود ہے تاہم جس طرح پاکستان کی فٹبال اور ہینڈ بال کی ٹیمیں اپنے ابتدائی میچوں میں ہی ناکامیوں کے بعد ایونٹ کی دوڑ سے باہر ہوگئی ہیں، اس نے دیار غیر میں موجود کھلاڑیوں کے حوصلے خاصے پست کر دیئے ہیں، رہی سہی کسر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر جنرل(ر) عارف حسن کے اس بیان نے پوری کر دی ہے کہ ایک ماہ کی تیاریوں سے کھلاڑیوں سے خاص میڈلز کی امید نہیں کی جا سکتی۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی 3 درجن سے زائد کھیلوں کی فیڈریشنوں کے بیشتر عہدیداروں کا مقصد کھیلوں کے فروغ کی بجائے دنیا بھر کے سیر سپاٹے جبکہ کھلاڑیوں کا ’’ماٹو‘‘ میڈلز کے حصول کی بجائے ایونٹس میں صرف شرکت کرنا ہی رہ گیا ہے۔سوشل ویب سائٹس پر دیکھیں تو ایشین گیمز کے دوران پی او اے سمیت ملک بھر کی مختلف کھیلوں کے عہدیدار اور کھلاڑیوں کی ایسی ایسی تصاویر دیکھنے کو مل رہی ہے جن کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ قومی دستہ ایشین گیمز کی بجائے کسی فیشن شو میں شرکت کے لیے انڈونیشیا گیا ہے۔

چلو یہ مان لیا کہ اولمپکس اورکامن ویلتھ گیمز میں تو امریکہ، کینیڈا، برطانیہ سمیت دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے کھلاڑی شریک ہوتے ہیں لیکن ہماری صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ عالمی تو درکنار ایشیائی سطح پر بھی ہمارے کھلاڑی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اب تک کی گیمز میں پاکستان صرف 200 میڈلز ہی اپنے نام کر سکا ہے، ان میں 44 گولڈ، 63 سلور اور 93 برونز میڈلز حاصل ہیں۔

اس کے برعکس چین 2895 میڈلز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، جاپان 2850 میڈلز کے ساتھ دوسرے اور جنوبی کوریا 2063کے تیسرے نمبر پر ہے، بھارت 616 کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر براجمان ہے۔ ایشین گیمز کے دوران پاکستان نے باکسنگ میں سب سے زیادہ 61 میڈلز جیتے ہیں، اتھلیٹکس میں 39 جبکہ ریسلنگ میں 34 میڈلز حاصل کئے۔ ہاکی میں پاکستانی14میڈلز جیتنے میں کامیاب رہا۔ سیلنگ میں 10، سکواش اور کبڈی 7،7، کیو سپورٹس 6، ویٹ لفٹنگ 4، کرکٹ، ٹینس، سائیکلنگ، ووشو اور رؤنگ میں 3،3 جبکہ والی بال، بیڈمنٹن، ایکسٹرین میں ایک، ایک میڈل جیتا۔ پاکستان دہلی گیمز 1951میں شرکت نہ کر سکا تھا، مینلا گیمز 1954میں پاکستانی دستے نے پہلی بار شرکت کی اورمجموعی طور پر چوتھی پوزیشن حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا،ان گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے 5گولڈ، 6سلور اور 2 برونز میڈلز اپنے نام کئے۔

ٹوکیو گیمز 1958 میں ایک بار پھر پاکستانی پلیئرز نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 6 گولڈ، 11سلور اور9 برونز میڈلز حاصل کرکے مجموعی طور پر چھٹی پوزیشن حاصل کی۔ جکارتہ گیمز 1962 میں مجموعی طور پر28 میڈلز سمیٹ کر ایک بار پھر چوتھی پوزیشن اپنے نام کی۔ ان گیمز میں پاکستان نے 8گولڈ، 11 سلور اور9 برونز میڈلز جیتے۔ بنکاک گیمز 1966 میں پاکستانی دستہ صرف 8میڈلز ہی جیت سکا تاہم اس کی مجموعی پوزیشن 11ویں رہی۔ان میڈلز میں 2گولڈ، 4 سلور اور2 برونز میڈلز شامل تھے۔

بنکاک گیمز 1970 میں پاکستان نے ایک گولڈ، 2سلور اور 7 برونز میڈلز کے ساتھ 13ویں پوزیشن حاصل کی۔ تہران گیمز 1974 میں پاکستان دستہ ایک بار پھر 11ویں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ ان میں 2گولڈ اور9 برونز میڈلز شامل تھے۔بنکاک گیمز1978،دہلی گیمز 1982 اور سول گیمز 1986 میں پاکستانی کھلاڑی چھائے رہے اور انہوں نے تینوں گیمز میں آٹھویں پوزیشنز سمیٹ کر دنیا بھر میں ملک وقوم کا نام روشن کیا۔ بیجنگ گیمز1990 میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بناتے ہوئے مجموعی طور پر چھٹی پوزیشن حاصل کی۔ان میں 4گولڈ، ایک سلور اور 7 برونز میڈلز شامل ہیں۔ہیروشیما گیمز 1994 میں پاکستانی دستے کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اور کھلاڑی 22ویں پوزیشن ہی کر سکے۔پاکستانی دستہ کوئی گولڈ میڈل نہ جیت سکا جبکہ اس نے4سلور اور9 برونز میڈلزحاصل کئے۔

بنکاک گیمز 1998 میں پاکستان نے 15 میڈلز کے ساتھ 16ویں پوزیشن حاصل کی۔ بوسان گیمز 2002میں پاکستانی کھلاڑیوں نے قوم کو خاصا مایوس کیا اور پاکستان 13میڈلز کے ساتھ ایک بار پھر22ویں نمبر پر رہا۔ دوحہ گیمز 2006 میں پاکستانی دستے نے تاریخ کی شرمناک کارکردگی دکھائی اور صرف 4 میڈلز کے ساتھ پاکستان کا 31واں نمبر رہا۔ گوانگزو گیمز 2010 میں پاکستانی دستہ صرف8 میڈلز کے ساتھ 20ویں نمبر پر رہا۔انچیون گیمز 1914میں پاکستانی دستے نے تاریخ کی دوسری شرمناک کارکردگی دکھائی اور قومی کھلاڑی ایک گولڈ، ایک سلور اور تین سلور میڈلز کے ساتھ23ویں پوزیشن ہی حاصل کر سکے۔

پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ کھلاڑیوں کی شرمناک ترین کارکردگی کے باوجود کوئی بھی عہدیدار ناکامیوں کو محسوس کرتے ہوئے کرسی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا،پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کو ہی دیکھ لیں، پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں صرف 11 شخصیات ہی پی او اے کی صدر بن سکی ہیں۔

1950 سے 1977 سال کے عرصہ میں9 شخصیات احمد ای ایچ جعفر، ملک غلام محمد، عبدالرب نشتر، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، سر فیروز خان نون جنرل محمد اعظم خان، رانا عبدالحامد خان اور ملک معراج خالد صدررہیں تاہم 40 کے عرصہ میں 2شخصیات ہی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر کے عہدہ پر فائز رہیں۔سید واجد علی3مارچ 1978 سے 11مارچ 2004 تک ملکی کھیلوں کے سیاہ سفید کے مالک رہے۔موجودہ صدر جنرل(ر) عارف حسن 11مارچ 2004سے تاحال پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر ہیں اور سالہا سال سے ٹیموں کی مایوس کن کارکردگی کے باوجود وہ عہدے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔

کہتے ہیں کہ نپولین جب پہلی بار قید کے بعد جزیرہ ’’البا‘‘ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تواس کے وفادار سپاہیوں کی مختصر سی جماعت بھی اس کے ہمراہ تھی۔ اس معزول سپہ سالار کے عزائم یہ تھے کہ وہ فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ کرے، مگر پہلے ہی معرکے میں اس کو فرانس کے 20 ہزار جوانوں کا سامنا کرنا پڑا، نپولین دنیا کے انتہائی بہادر انسانوں میں سے ایک تھا، اس نے بے سروسامانی کے اس عالم میں حریف فوج سے ٹکڑا جانے کا فیصلہ تو کیا لیکن راستہ انوکھا اور منفرد اپنایا، جب دونوں فریق آمنے سامنے ہوئے تو وہ اکیلا بالکل غیر مسلح حالت میں اپنی جماعت سے نکلا اور نہایت اطمینان کے ساتھ حریف مخالف کی صفوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

اس نے اپنے کوٹ کے بٹن کھولے اور اپنے سینے کو ننگاکر دیا۔اس کے بعد جذباتی انداز میں اپنے مخالف سپاہیوں جن میں سے اکثر اس کے ماتحت رہ چکے تھے سے خطاب کرتے ہوئے بولا۔ ’’تم میں سے کون ہے جو اپنے باپ کے ننگے سینے پرفائر کرنے کے لئے تیار ہے‘‘۔جذباتی تقریر کا اثر یہ ہوا کہ ہر طرف سے ’’کوئی نہیں‘‘، ’’کوئی نہیں‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔ تمام سپاہی مخالف جماعت کو چھوڑکر نپولین کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے، نیتجہ ظاہر ہے کہ نپولین اپنی بے سروسامانی کے باوجود فاتح رہا اور اس نے ملک فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ جما لیا۔

کسی کے پاس کتنا ہی سازوسامان کیوں نہ ہو لیکن خطرہ پیش آنے کی صورت میں اگر وہ گھبرا جائے تو اس کے اعصاب جواب دے دیں گے، وہ اس قابل نہیں رہے گا کہ صورت حال کے بارے میں سوچ اور مقابلے کے لئے اپنا منصوبہ بناسکے۔ اس کے برعکس اگر وہ خطرہ کے وقت اپنے ذہن کو حاضر رکھے تو بہت جلد وہ اصل نوعیت کو سمجھ لے گا اور وہ ممکنہ خطرے کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو سکے گا، ہمارے کھلاڑیوں کا بھی المیہ یہ ہے کہ وہ مقابلے سے پہلے ہی ہمت ہار جاتے ہیں،جب کھلاڑیوں کا مقصد ہی انٹرنیشنل ٹورز کی مد میں سیر سپاٹے ہوں تو میڈلز کیوں ان کا مقدر بنیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔