نیا حکومتی سیٹ اپ اور اسے درپیش چیلنجز

ایڈیٹوریل  اتوار 19 اگست 2018
جب آئین میں ابہام ختم ہو گا تو بہت سی چیزیں خود بخود بہتر ہو جائیں گی۔ فوٹو :  فائل

جب آئین میں ابہام ختم ہو گا تو بہت سی چیزیں خود بخود بہتر ہو جائیں گی۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعداپنی کابینہ کا اعلان بھی کر دیا ہے جب کہ چند سرکاری افسروں کی تقرری بھی کی گئی ہے‘ یوں وفاقی سطح پر حکومت سازی کا عمل تقریباً مکمل ہو گیا ہے۔

ادھر پنجاب‘ سندھ اورخیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کا انتخاب بھی ہو چکاہے‘ اس طرح ملک بھر میں نیا جمہوری سیٹ اپ سامنے آ گیا ہے‘ اب عوام کی تمام تر توجہ نئی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر ہے۔ اس وقت مرکز‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جب کہ بلوچستان میں وہ مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے‘ بہر حال گزشتہ تین چار ماہ سے حکومتی امور پر طاری جمہود اب ختم ہو گیا ہے اور سیاسی منظرنامہ صاف اور واضح ہو گیا ہے۔

نئی حکومت کو جہاں کئی معاشی و داخلی اور خارجی چیلنجز درپیش ہیں‘ وہیں اسے جمہوری نظام کو مستحکم کرنے اور جمہوری اقدار کو سربلند رہنے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ وہ ان چیلنجز سے کیسے عہدہ برآ ہوتی ہے اس کا پتہ آئندہ دنوں میں چل جائے گا۔

سابق دور میں پی ٹی آئی نے بطور اپوزیشن جماعت جو سیاسی کردار ادا کیا‘ اب بحیثیت حزب اقتدار اس کی خواہش ہو گی کہ اسے اس قسم کے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے‘ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مستحکم انداز میں چلانے کے لیے حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ بہتر اور اچھے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے صبروتحمل اور تدبر کی انتہائی ضرورت ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات بھی سامنے آ چکے ہیں‘ یہ تقریباً ویسے ہی تحفظات ہیں جیسے مسلم لیگ ن کے ساتھ پی ٹی آئی کو تھے۔مبینہ انتخابی دھاندلیوں پر پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ سامنے آ چکا ہے۔مسلم لیگ ن کی حکمت عملی بظاہر جارحانہ لگتی ہے تاہم وہ اور دیگر اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کیا رویہ اختیار کرتی ہیں اس کے بارے میں فی الحال کوئی حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تاہم لگتا یہی ہے کہ اپوزیشن خاصا جارحانہ رویہ رکھے گی۔ اس لیے معاملات کو مزید تلخی اور کشیدگی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن کے تحفظات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ حزب اقتدار کو میچورٹی کے ساتھ معاملات کو ہینڈل کرنا چاہیے۔

ادھر اپوزیشن کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ جمہوری اقدار کی پاسداری کرے اور احتجاج کو ہنگامہ آرائی اور گھیرائو جلائو تک لے جانے سے گریز کرے۔ جمہوری سیاسی جماعتیں احتجاج آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اور جمہوری اقدار کو سامنے رکھ کر کرتی ہیں۔انتخابات میں دھاندلیوں کے جو شکوے شکایت سامنے آئے ہیں ‘یہ ماضی کا تسلسل ہیں ۔پاکستان میں تقریباً ہر الیکشن کے بعد ہارنے والی سیاسی جماعتیں دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کرتی رہتی ہیں۔

وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار بنائے اور پولنگ کے عمل کو خامیوں سے پاک کرنے کے لیے الیکٹرانک سسٹم کو استعمال کیا جائے جو الیکٹرانک سسٹم بنایا جائے‘ اس پر بھی تمام سیاسی جماعتوں کا اور آئی ٹی ماہرین کا اعتماد ہونا چاہیے۔ پولنگ کا عمل جتنا جامع اور فول پروف ہو گا انتخابی نتائج کی قبولیت میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔اس کے لیے بھارت کے انتخابی نظام سے بھی فائدہ اٹھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

پاکستان میں اس وقت اعتماد کا بحران ہے ۔ سیاسی قیادت ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے جب کہ سرکاری ملازمین پر بھی بداعتمادی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اس کلچر کی وجہ سے پاکستان میں کوئی ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نگران حکومتوں کا نظام بھی متنازع ہو گیا ہے۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ جو حکومت کام کر رہی ہو وہی انتخابی عمل کی بھی نگرانی کرے۔ ضرورت صرف آئین میں غیر مبہم اور واضح ترمیم کی ہے۔

آئین میں دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا جائے کہ نئے الیکشن انائونس ہونے کے ساتھ ہی تمام انتظامی اختیار خود بخود الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جائیں ۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر بھی آئین میں دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا جائے۔جب آئین میں ابہام ختم ہو گا تو بہت سی چیزیں خود بخود بہتر ہو جائیں گی۔پاکستان کو اس وقت خاصی مشکلات کا سامنا ہے‘ ملک کی معیشت بری حالت میں ہے۔

بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہے۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں مانند پڑی ہوئی ہیں‘ سابق حکومت کے ترقیاتی منصوبے جو ابھی ادھورے ہیں‘ ان کے مستقبل کا فیصلہ بھی سوچ سمجھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انتقام سے گریز کی ضرورت ہے۔ بے روز گاری اپنی انتہا کو چھو رہی ہے‘ ایسے حالات میں ملک کو مستحکم حکومت کی ضرورت ہے‘ یعنی ایک ایسی حکومت جو اپنی پوری توجہ ترقی پر دے سکے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔