India - An Apartheid State

رفیع الزمان زبیری  پير 20 اگست 2018

جنید احمد کہتے ہیں کہ آج جو یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ہندوستان ایک ترقی پذیر سیکولر جمہوری ملک ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کوئی اس مملکت اور اس کے معاشرے کے اندر جھانکنے کی کوشش کرے تو اصل صورت حال کھل کر سامنے آجائے گی۔

اپنی کتاب ’’انڈیا این اپارتھیڈ اسٹیٹ‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان ہندوازم کے ذات پات کے درشت نظام کے تحت نسلی عصبیت اور پسماندگی کی مثال ہے۔ انھوں نے مستند حوالوں اور اصل تحریروں کے ساتھ ہندوستان کے ریاستی نظام اور ذات پات کی تقسیم پر مبنی معاشرے کی جو تصویر کھینچی ہے وہ ان سب دعوؤں کی نفی کرتی ہے جو ہندوستان کی معاشی ترقی، فوجی طاقت اور اس کے عالمی کردار کے بارے میں کیے جاتے ہیں۔

کتاب میں 31 باب ہیں۔ پہلے باب میں ہندوازم اور اس کے ذات پات کے نظام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے باب میں جنید احمد نے بتایا ہے کہ ہندوستان نے اقلیتوں پر سخت گرفت رکھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ تیسرے، چوتھے، پانچویں باب میں ان فسادات کی تفصیل دی گئی ہے جو ہندو اکثریت اور اقلیتی فرقوں، مسلمانوں، دلت جاتیوں، عیسائیوں اور سکھوں کے درمیان ہوئے ہیں اور کس طرح اقلیتوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ساتویں اور آٹھویں باب میں ہندو معاشرے میں عورتوں کی حیثیت اور انسانی اسمگلنگ کا ذکر ہے۔ نویں اور دسویں باب میں کشمیر کی جدوجہد آزادی اور آزادی کی دوسری تحریکوں کا بیان ہے۔

گیارہویں باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان نے اپنے ہمسایہ ملکوں، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان میں دہشت گردی اور دوسری تخریبی کارروائیوں کے ذریعے انتشار اور بدامنی پھیلانے کی کیسی کوشش کی ہے۔ بارہویں باب میں یہ بتایا ہے کہ مغرب جو ہندوستان کی حمایت کر رہا ہے تو اس کی وجوہ کیا ہیں۔ آخری باب میں وہ یہ بتاتے ہیں کہ کیوں اپنی نسلی عصبیت کے باعث ہندوستان کی معاشی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

جنید احمد لکھتے ہیں کہ ہندو روایات تو قدیم ہیں۔ قبل مسیح کی وادیٔ سندھ کی تہذیب کے آثار موجود ہیں لیکن ہندوازم کا لفظ برطانوی راج کی اختراع ہے جو انیسویں صدی میں پہلی بار ہندو آبادی کے لیے استعمال کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق ہندوازم کا خاص پہلو ہے۔ تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں ذات پات کا نظام 1500 قبل مسیح میں آریائوں کی ہندوستان آمد سے شروع ہوا۔ وہ چونکہ جنوبی یورپ اور شمالی ایشیا سے آئے تھے، ان کا رنگ صاف تھا۔ یہاں ان کو جن باشندوں سے سابقہ پڑا وہ کالے تھے۔ اسی کالے گورے کی تمیز نے ذات پات کا ایک ایسا نظام قائم کردیا کہ ہندو سماج چار فرقوں میں بٹ گیا اور ان کے درمیان ابدی تفریق قائم ہوگئی۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ذات پات کا نظام اور ہندوستان ہم معنی ہوگئے ہیں اور ہندوستان کے سماجی اور ثقافتی نظام کے دوسرے پہلو فراموش ہوگئے ہیں۔ اس نظام میں سب سے اونچی ذات برہمنوں کی اور سب سے نیچی دلت یا اچھوتوں کی ہے۔ جنید احمد نے اس کاسٹ سسٹم پر تفصیل سے اظہارخیال کیا ہے اور اسے نسلی عصبیت کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔

ہندوستان میں اقلیتوں کا مسئلہ اس کاسٹ سسٹم سے جڑا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ہندوستان نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ ایک سیکولر مملکت ہے جہاں سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔ تمام شہریوں کو نسل، رنگ، ذات، مذہب اور عقیدے کی تفریق کے بغیر یکساں بنیادی حقوق حاصل ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں اقلیتیں ہندو اکثریت اور انتہا پسند گروہوں کے ہاتھوں خوف و ہراس کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان اقلیتوں میں مسلمان، عیسائی، سکھ، دلت، اچھوت، ہریجن اور دوسری نیچی ذات کے لوگ شامل ہیں۔

اقلیتوں کے ساتھ نامنصفانہ برتاؤ ہمیشہ سے ہندوؤں کی ذہنیت رہی ہے اور اس کی بنیاد ان کا ذات پات کا نظام ہے۔ یہ نظام ویدوں کے زمانے (2000-500 قبل مسیح) سے چلا آرہا ہے اور ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کے تمام پہلو اس کی گرفت میں اس حد تک ہیں کہ یہ ہندوستانی نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔ جب بھی اس کے خلاف یا اس کے حق میں کسی تبدیلی کا اشارہ ہوتا ہے تو فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، مگر اس پر عمل نہیں ہوتا۔

ہندوستان میں مسلمان اگرچہ متعدد اہم عہدوں پر فائز ہیں لیکن پورے ملک میں انھیں کنارے لگانے کا عمل جاری ہے انھیں قدم بہ قدم مشکلات کا سامنا ہے۔ اور وہ ہندو انتہاپسندوں کی مخالفانہ سرگرمیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ بابری مسجد کا قضیہ اور گجرات میں مسلمانوں کے خلاف منظم کارروائی اس کی اہم مثالیں ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں انھیں ان کا حصہ نہیں ملتا، اور وہ پسماندگی کا شکار ہیں۔ یہی دوسری اقلیتوں کا حال ہے۔

جنید احمد نے تفصیل سے ان فسادات کا ذکر کیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہوتے رہے ہیں خاص طور سے 1947 کے بعد اور جن میں مسلمانوں کی جانوں کا ضیاع اور جائیداد کی تباہی ہوئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہندو مسلم فسادات اب بھی ہندوستان میں ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی جان اور مال ہر وقت خطرے میں ہے۔ انھوں نے عیسائیوں، سکھوں اور دلت جاتیوں کے خلاف فسادات کا بھی تفصیل سے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔

کتاب میں ایک باب ہندو معاشرے میں عورتوں کے ساتھ غیر انسانی اور نابرابری کے سلوک کے بارے میں ہے۔ انھوں نے عورتوں کے ساتھ ناانصافیوں اور کھلی زیادتیوں کی بہت سی مثالیں دی ہیں اور یہ سب اس کے باوجود ہے کہ ہندوستان کے آئین میں عورت اور مرد کی برابری کا اصول مانا گیا ہے اور عورتوں کے سماجی اور معاشی حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ عورتوں کے خلاف تشدد، آبرو ریزی اور ظلم و زیادتی کے واقعات عام ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح برصغیر کی آزادی کے وقت جب ہندوستانی ریاستوں کو ہندوستان یا پاکستان کی دو مملکتوں میں سے کسی ایک سے الحاق کرنے کا موقع دیا گیا تو ہندوستان نے کشمیر میں اپنی فوجیں بھیج کر مہاراجا کشمیر کو مجبور کیا کہ وہ ہندوستان سے الحاق کے معاہدے پر دستخط کردے۔ اس کے ساتھ ہی کشمیر کی مسلمان اکثریت پر ظلم و تشدد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

کشمیر کے ہندوستان سے ناجائز اور زبردستی الحاق کو نہ کشمیر کے عوام نے قبول کیا اور نہ پاکستان نے۔ پھر کشمیریوں نے ہندستان سے اپنی آزادی اور پاکستان سے الحاق کی جدوجہد شروع کردی جو ستر سال گزر جانے کے بعد بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی باہمی اور بین الاقوامی ہر کوشش ہندوستان کی ہٹ دھرمی سے ناکام ہوئی ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ 1947 میں انگریز کے رخصت ہونے کے بعد ہندوستان کے پالیسی سازوں نے جنوبی ایشیا میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کی کوشش کی۔ ہندوستان کا رقبہ بھی بڑا ہے اور آبادی بھی زیادہ۔ اس نے اپنے چھوٹے ہمسایوں پر اثرانداز ہونے کے لیے ان کے اندرونی معاملات میں دخل دینا شروع کردیا۔

پاکستان، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا چاروں ملکوں میں تخریبی کارروائیوں کو شے دی گئی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد فراہم کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ تبت کی ایک آزاد ریاست بنانے کی تحریک کی حمایت کرکے چین تک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان کے انتہاپسند ہندوؤں نے پاکستان کے قیام کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا، اسے نقصان پہنچانے کے لیے مشرقی پاکستان میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلا کر بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کی۔

جنید احمد لکھتے ہیں کہ اگر ہندوستان کے سماجی اور سیاسی حالات اس کی معیشت کی صورتحال، اور انتہا پسندی کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ ہندوستان نہ جمہوری ملک ہے، نہ سیکولر۔ معاشی ترقی کے دعوے بھی کھوکھلے ہیں۔ ان حالات کے ساتھ یہ سوچنا کہ ہندوستان ایک علاقائی طاقت ہی نہیں عالمی کردار کا حامل ملک بن جائے گا دیوانے کا خواب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔