جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود

وقاص ارشد چیمہ  منگل 21 اگست 2018
عمران خان کا یہ کہنا کہ تحریک انصاف کی بقاء ہی انقلابی طرز حکومت میں ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

عمران خان کا یہ کہنا کہ تحریک انصاف کی بقاء ہی انقلابی طرز حکومت میں ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان کے 2018 کے عام انتخابات جہاں اور بہت سے حوالوں سے منفرد ہیں، وہیں ان انتخابات نے اس حقیقت پر بھی مہر ثبت کر دی ہے کہ عوام اب روایتی سیاستدانوں اور ان کی فرسودہ طرز سیاست سے بیزار ہو چکے۔ گو کہ یہ آغاز سفر ہے اور ابھی بھی اس ضمن میں بہت کچھ ہونا باقی ہے، لیکن اس کے باوجود ذرائع ابلاغ و مواصلات کی زبردست ترقی نے افراد خصوصاً نوجوانوں کو ان کی حسب استعداد کسی نہ کسی طور متاثر کیا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن کا دور تو جانے کب کا گزر چکا، روایتی آزاد نشریاتی چینل بھی پرانے پرانے سے لگنے لگے ہیں۔ اور اب وہ زمانہ ہے جہاں سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ روایتی سیاسی اجارہ داری کی بقاء کو سب سے بڑا خطرہ آج اسی سوشل میڈیا سے درپیش ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی میں جہاں عمران خان کی مستقل مزاجی و عزمِ مصمم کا بڑا دخل ہے، وہیں اس ضمن میں سوشل میڈیا کا مؤثر کردار بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ رائے دہندگان کا تقریباً 45 فیصد نوجوانوں یعنی 35 سال یا اس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے مستقبل کا دھارا موڑنے کی صلاحیت رکھنے والا یہ نوجوان طبقہ ایسا ہے جس کی قابل ذکر تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دور جدید کے تقاضوں سے بہرہ ور ہے۔ یہ گردوپیش اور اس میں سرعت کے ساتھ ہر آن وقوع پذیر تبدیلیوں سے آشنا ہیں، تقابلی صلاحیت رکھتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا ہنر جانتے ہیں۔ معاشی و اقتصادی اعداد و شمار کو پرکھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اور درست فیصلہ سازی و مستقبل بینی کے لیے درکار اجزاء سے مالامال ہیں۔

یہ نوجوان کسی نہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے بھی یقیناً منسلک ہیں۔ اور یہ ہی وہ چیز تھی جس کا پاکستان تحریک انصاف نے اولین ادراک کرتے ہوئے قیادت اور ان نوجوانوں کے مابین روابط کا سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے مربوط، منظم اور موثر نظام ایک ایسے وقت میں وضع کر لیا جب باقی سیاسی جماعتیں روایتی منفی ہتھکنڈوں پر اکتفا کیے رکھنے کو ہی اپنی اگلی کامیابی کے لیے کافی سمجھ رہی تھیں۔ اس نظام نے جہاں ایک طرف نوجوان نسل کو ملکی سیاست میں ایک متحرک کردار ادا کرنے کے لائق کیا ہے وہیں پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سیاسی افکار و نظریات کی مؤثر ترسیل اور مخالفین کی کمزوریوں پر تابڑ توڑ حملے بھی ممکن بنائے ہیں۔ 2014 کا دھرنا ہو یا پانامہ لیکس، ہر موقع پر اپنے سیاسی مخالفین کو پریشان اور انہیں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیے رکھنا اس نظام کی افادیت کا بیّن ثبوت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ملکی نشریاتی و عالمی سروے اداروں کی پاکستان کے سیاسی مستقبل کے بارے آراء آخری روز تک بھی منقسم تھیں، سوشل میڈیا پر ہر سو عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کا ہی چرچا تھا اور تقریباً تمام تر آن لائن سروے انہی کے حق میں تھے۔ شکست خوردہ عناصر آج لاکھ توجیہات پیش کریں لیکن انتخابات کے نتائج قطعاً غیر متوقع نہیں ہیں۔ آج پاکستان تحریک انصاف ہی نوجوانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے۔

ایک جدت پر مبنی اور نئے طرز سیاست کو بروئے کار لا کر پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں کامیابی سمیٹی ہے۔ لیکن اسے سنگِ میل سمجھا جائے، منزل نہیں۔ اس کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے یہ نوجوان اس طرزِ سیاست کے بعد اب تحریک انصاف سے ایک نئے اور جدید طرزِ حکومت کے بھی خواہاں ہیں۔ ایک ایسا طرزِ حکومت جس میں انفراسٹرکچر کی ترقی کی بجائے افراد کی ترقی ترجیح ہو کہ دیرپا فوائد اور مستحکم ترقی کی یہی بنیاد ہے۔ پیشہ ورانہ و تکنیکی تعلیم، صحت اور معیشت کے شعبوں میں جنگی بنیادوں پر انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سیاسی وابستگیوں اور اقربا پروری سے بالاتر ہو کر ہر شعبہ ہائے زندگی میں میرٹ اور اہلیت پر تعیناتیوں کو ہی یقینی بنائے جانا خود اپنے آپ میں بیسیوں مسائل کا حل ہے۔ ہر شعبہ کی کارکردگی جانچنے کا ایک مؤثر نظام وضع کیا جانا چاہیے۔ جدیدیت سے آشنا اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنر مند اور اپنے اپنے شعبوں میں یکتا مخلص افراد کے ہاتھ ملکی اداروں کی باگ ڈور تھمائی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی کے راستے پر چل نہ نکلیں۔

کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے، لیکن ناممکن ہر گز نہیں۔ اور اس امید کی وجہ خدائے ذوالجلال کی نصرت کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو میسر نوجوانوں کی زبردست حمایت ہے۔ اسی نصرت و حمایت نے اپنی کاری ضرب سے جمود کا مضبوط بت پاش پاش کیا ہے، اور ایک طویل سیاہ رات کے بعد بالآخر طلوعِ صبحِ نو کے آثار پیدا ہو چلے ہیں۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو ان حقائق اور نوجوانوں کی ان سے وابستہ توقعات کا بخوبی ادراک ہے۔ خود عمران خان کا یہ کہنا کہ تحریک انصاف کی بقاء ہی انقلابی طرز حکومت میں ہے، اس ادراک کا عکاس اور مبنی بر حقیقت ہے۔ میٹرو بسیں، اورنج ٹرینیں اور پل سڑکیں ہی اگر ترقی کے شعائر ہوتے تو حضرت اقبال کبھی یہ نہ فرماتے کہ

جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

عمران خان کی یہ خوش بختی ہے کہ ان کے تصوراتی جہانِ تازہ میں حقیقت کا رنگ بھرنے والی یہ افکارِ تازہ آج صرف انہی کو میسر ہیں۔ اب وہ ان سے کس حد تک فائدہ اٹھاتے ہیں اس کا تعین آنے والا وقت ہی کرے گا۔ آخر میں ذکر اپنی شکست فاش پر نوحہ کناں فرسودہ و بوسیدہ سوچ کے حامل سیاستدانوں کا جن کے پیشِ نظر عوام کی فلاح و بہبود پہلے تھی نہ آج ہے۔ انہیں دکھ تو صرف اس بات کا ہے کہ ان انتخابات نے عوام پر ان کی اصلیت آشکار کر دی ہے، اور اب اقتدار جیسے منافع بخش کاروبار کا ہاتھ سے پھسل جانا یقینی ہے۔ ان کا یہ واویلا اور آہ و فغاں کرنا بھی بے سود ہے۔ کیونکہ کاروانِ سیاست تو وقت کے راستے پر انہیں پیچھے چھوڑ کر کوسوں آگے نکل چکا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔