میاں نوازشریف نے ’’بجلی بنانے‘‘ کے نام پر بجلی گرادی!

محمد فاروق اقبال  پير 20 اگست 2018
میاں نواز شریف نے نیلم جہلم ہائیڈل پروجیکٹ پر کام ٹھپ کروادیا جس کا براہِ راست فائدہ بھارت کو پہنچا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میاں نواز شریف نے نیلم جہلم ہائیڈل پروجیکٹ پر کام ٹھپ کروادیا جس کا براہِ راست فائدہ بھارت کو پہنچا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نواز شریف صاحب نے بجلی تو پوری کردی تھی لیکن انہوں نے سوئچ کہاں لگایا تھا؟ یہ بتایا ہے کسی کو؟ نہ کوئی ہائیڈل پاور منصوبہ مکمل کیا، نہ کول پاور کا، نہ ونڈ پاور کا، نہ کسی ایٹمی بجلی گھر کا اور نہ ہی شمسی توانائی کا۔ پھر یہ سوئچ کہاں لگایا تھا جہاں سے بجلی آرہی تھی؟ جی، وہ تیل سے بجلی بنا رہے تھے! دنیا کی سب سے مہنگی بجلی جسے تھرمل بجلی بھی کہتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ جنریٹر چلا رہے تھے۔ یہ وہ بجلی ہوتی ہے جس کا خرچہ امریکا، انڈیا اور چین جیسے بڑے اور اقتصادی طور پر مستحکم ممالک بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ بھی اپنی آدھی سے زائد بجلی کوئلے اور بقایا پانی سے بناتے ہیں۔

اب ذرا توجہ سے پڑھیے:

پاکستان میں تھرمل پاور پروجیکٹس یا سادہ لفظوں میں جنریٹرز 1990 کی دہائی میں بے نظیر صاحبہ نے انسٹال کروائے اور پاکستان میں تباہی کی بنیاد رکھی۔ ان ”جنریٹرز‘‘ کی کل پیدواری صلاحیت 21000 میگاواٹ ہے اور یہ سارے نجی کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔ انتہائی مہنگے ہونے کی وجہ سے دیگر حکومتوں نے ان سے کم ہی بجلی بنائی۔ لیکن اس کے باوجود 2013 تک پاکستان تھرمل بجلی کے ضمن میں 480 ارب روپے کا مقروض ہوچکا تھا۔

2013 میں نواز شریف صاحب آئے اور آتے ہی ان نجی کمپنیوں کو یکمشت 480 ارب روپے کی ادائیگی کرکے قومی خزانے کو خطرناک حد تک خالی کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جنریٹرز (آئی پی پیز) زیادہ تر میاں منشاء کی ملکیت ہیں جنہیں میاں نواز شریف کا فرنٹ مین بھی کہا جاتا ہے۔ لہذا بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ درحقیقت تیل سے بجلی بنانے والی یہ کمپنیاں نواز شریف صاحب ہی کی ہیں اور خزانہ خالی کروا کر نواز شریف نے خود اپنے پیسے وصول کیے ہیں۔

ان پاکستانی آئی پی پیز کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی تھرمل بجلی بنائی جاتی ہے، یہ ان سب سے مہنگی ہیں۔ ان کمپنیوں کے ’’جنریٹرز‘‘ تقریباً دگنی قیمت پر بجلی بناتے ہیں۔

اب آگے چلیے:

جو 480 ارب روپے نواز شریف نے آئی پی پیز کو ادا کیے، ان سے کوئی بھی بڑا ڈیم بنایا جا سکتا تھا جو پاکستان کو ہمیشہ کےلیے محتاجی سے نجات دلا سکتا تھا؛ اور سب سے بڑھ کر پانی کی ضرورت بھی پوری کرسکتا تھا۔ 480 ارب روپے کی ادائیگی کے بعد ان کا قرضہ صفر ہوگیا۔ لیکن اس کے بعد نواز شریف صاحب نے اپنے پانچ سال میں پچھلی حکومتوں کے بجلی کےلیے شروع کروائے گئے تمام منصوبے ایک ایک کرکے ناکام بنا دیئے۔ نندی پور پاور پراجیٹ ناکام، تھرکول پاور پروجیکٹ ناکام، قائداعظم سولر پارک ناکام؛ اور نیلم جہلم پر کام اتنا سست کروا دیا کہ تقریباً روک ہی دیا گیا۔

اسی دوران انڈیا نے کشن گنگا ڈیم بنا کر نیلم جہلم کی استعداد پر کاری ضرب لگائی۔ یوں اس پر کی گئی تمام محنت اور بے پناہ سرمایہ کاری تقریباً ضائع ہوگئی (نواز شریف نے نیلم جہلم ڈیم پر کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا تھا کہ ہم ’’بھارت سے بجلی خریدیں گے‘‘) جبکہ تربیلا، منگلا اور دیگر موجودہ ڈیموں کی صفائی کا عمل روک دیا گیا جس کی وجہ سے ان کی پیداواری صلاحیت کم ہوتی چلی گئی۔

جب بجلی کے متبادل منصوبے نہ رہے تو پاکستان کو تھرمل بجلی ہی بنانی تھی۔ تب نواز شریف صاحب نے دبا کر ان کمپنیوں کو بجلی بنانے کا سگنل دیا اور صرف پانچ سال میں ان کمپنیوں کی بدولت پاکستان 1100 ارب روپے کا مقروض ہوگیا۔ جو رقوم ان کو ادا کی گئیں وہ ان کے علاوہ ہیں۔ اگر یہ کمپنیاں عدم ادائیگی کی وجہ سے آج بجلی کی سپلائی معطل کردیں تو پورا پاکستان یکلخت اندھیروں میں ڈوب جائے گا کیونکہ بجلی کا کوئی متبادل بندوبست نہیں کیا گیا۔

نواز شریف نے بیک وقت دو بڑے فائدے حاصل کیے:

پہلا: ان آئی پی پیز کی مدد سے سیکڑوں ارب روپے ان کے غیرملکی اکاؤنٹس میں پہنچ گئے اور کچھ پہنچنے والے ہیں۔

دوسرا: عوام خوش ہوگئے کہ بجلی آرہی ہے! انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ان کے پیروں تلے زمین نکالی جاچکی ہے۔

یہ ہے اصل حقیقت جسے یہ خوب جانتے ہیں۔ تب ہی یہ سارا ’’شریف‘‘ خاندان بار بار کہہ رہا تھا، ’’ہم نے تو بجلی پوری کردی ہے، کل کو اچانک بند ہوگئی تو ہمیں نہ کہنا۔‘‘

ویسے کیا آپ کو اندازہ ہے کہ چند گھنٹے لوڈ شیڈنگ کم کرانے کی نواز شریف صاحب نے آپ سے کیا قیمت وصول کی ہے؟

  • چونکہ تاروں میں کچھ بجلی آرہی تھی اس لیے عوام مطمئن تھی اور ڈیم بنانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ تب ڈیم نہیں بنائے گئے اور انڈیا نے بنا لیے، جس کے نتیجے میں اب پاکستان خشک ہونے جا رہا ہے۔
  • مہنگی ترین بجلی بنانے کےلیے ریکارڈ قرضے لیے گئے جس کے لیے پاکستان کے موٹر ویز، ایئرپورٹ اور دیگر اثاثے تک گروی رکھوائے گئے۔
  • مہنگی بجلی نےکارخانوں کی پیدواری لاگت اتنی بڑھا دی کہ پاکستان کی اکثر صنعتیں بند ہوگئیں جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا، برآمدات کم ترین ہوگئیں، بے روزگاری اور مہنگائی تباہ کن سطح پر پہنچ گئیں۔
  • چونکہ پاکستان کی پوری بجلی نجی کمپنیوں کے ہاتھوں میں جاچکی ہے اس لیے جنگ یا کسی بڑی ایمرجنسی کی صورت میں یہ غیر ملکی کمپنیاں بجلی کی پیدوار روک کر پاکستان کو خطرناک حالات سے دوچار کر سکتی ہیں۔
  • اس عارضی بجلی کی وجہ سے ایک کرپٹ اور پاکستان دشمن شخص جاہل عوام سے دوبارہ ووٹ لے کر پاکستان کی مزید تباہی کا سامان کر رہا تھا۔

ایوب خان نے بجلی کے جو منصوبے دیئے وہ ان کے جانے کے پچاس سال بعد بھی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب آخر کہاں سے پاکستان کو بجلی دے رہے تھے جو اِن کے جانے کے چوبیس گھنٹے بعد معطل ہوگئی… کبھی سوچا ہےآپ نے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد فاروق اقبال

محمد فاروق اقبال

بلاگر منہاج یونیورسٹی لاہور میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔