خوشحال ملک

سید نور اظہر جعفری  منگل 21 اگست 2018

جس صبح میں یہ کالم لکھ رہا تھا اس کی سہ پہر عمران خان نے وزیراعظم کے لیے ووٹ میں شریک ہوناتھا اور ان کی کامیابی میں بظاہر کوئی مشکل نہیں تھی کیونکہ کے پی کے، پنجاب، بلوچستان میں اور بہت حد تک سندھ میں وہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ میں نے کبھی ان کی پارٹی کو زیر بحث نہیں رکھا کیونکہ جو انڈر پروسیس ہو اس پر تجزیہ، تبصرہ ایک اندازہ ہی ہوتا ہے جس کے غلط ہونے کے چانسز بھی ہوتے ہیں تو محض چاشنی کے لیے زبان چلانے اور جلانے سے کیا فائدہ؟ پہلوان میدان میں اترا نہیں اور آپ نے اس کی کامیابی اور ناکامی کے تبصرے شروع کردیے۔

پرانے پہلوان کی حد تک تو شاید بات ٹھیک ہوکہ آپ اس کے دائو پیچ دیکھ چکے ہیں اور دوسرے پہلوان سے کئی معرکے بھی دیکھے ہیں مگر نئے پہلوان کے جب تک ایک دو رائونڈ نہ ہوجائیں آپ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ تحریک انصاف اقتدار کے اکھاڑے میں نیا پہلوان ہے، کیا ہوگا وقت بتائے گا، مگر تیاری ٹھیک نظر آتی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے یہ کامیابی حاصل کی ہے کہ باپ بیٹے قومی اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں اور بھی شاید ایسے جوڑے یا خاندان قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہوںگے، مگر یہ ذرا دلچسپ ہے آصف زرداری کی یہ دوسری ریس ہے جس میں صاحبزادے پہلی ریس میں شریک ہیں، زرداری صاحب کو گھوڑوں اور ان کی دوڑ کا تجربہ اور اندازہ ہے اور  سابق وزیراعظم کا چھانگا مانگا اس بار ناکام ہوگیا، وہ برا نہ مانیں، لوگوں کے پاس ضمیر بھی ہوتا ہے اور وہ جاگ بھی جاتا ہے۔

’’ہمارے بغیر کوئی حکومت نہیں بناسکے گا‘‘ آصف زرداری کا یہ مفروضہ بھی عوام نے غلط ثابت کردیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود جی ڈی اے اور پی ٹی آئی نے سندھ میں قدم جمالیے ہیں اور پی پی پی یا چار پی کے خواب خرگوش میں خلل ڈال دیا ہے اور یہ سلسلہ اب جاری رہے گا، سندھ اسمبلی میں وہی روایتی چہرے حکومت کے اور بہت نئے چہرے حزب اختلاف کے ہیں اور ایوان کا ماحول بہت گرم رہنے کا امکان ہے۔ مراد علی شاہ، قائم علی شاہ نہیں بن پائیںگے۔

ماضی میں تھر سے کراچی تک عوام کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی ہے اور عوام کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار ہر سطح پر بے نظیر کارڈ سے لے کر ترقیاتی منصوبوں تک چلتا رہا ہے، جب بھی سندھ میں واقعی احتساب ہوا سب کچھ سامنے آجائے گا اور خاصا تکلیف دہ ہوگا کہ عوام سے عوام کے حقوق کے نام پر، مرحوم بھٹوز کے نام پر زرداری پارٹی نے کتنا بڑا دھوکا کیا ہے اور کسانوں، مزدوروں کا کتنا استحصال کیا ہے، جو ان کے حامی ووٹر تھے۔

مگر یہ سب کچھ اب چلنے والا نہیں، سحر ٹوٹ رہا ہے، بلاول نے اگر زرداری ازم اختیار کیا تو کیونکہ وہ عوام کی آخری امید ہیں، حالانکہ زرداری ہیں، کچھ بھٹو کا عکس ہے، اور یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا کیونکہ عوام تھک چکے ہیں۔ مولا بخش سومرو کے جذباتی بیان عوام کے مسائل حل نہیں کرسکتے، اس کے لیے عمل چاہیے۔

صوبائی اسمبلی کے ’’موڈی‘‘ اسپیکر تک کا متبادل اور وزیراعلیٰ کا طاقتور امیدوار بھی پی پی کے پاس نہیں تھا۔ مراد علی شاہ کے بعد قائم علی شاہ سے بہتر وزیراعلیٰ ثابت نہیں ہوئے اور امکان بھی کم ہے، کیونکہ انھیں رکھا اس لیے گیا ہے کہ پاور ایوان میں تشریف فرما ایک خاتون کے ہاتھ میں ہے، جو پہلے بھی رہا ہے، فرق یہ ہے کہ اب وہ خود ایوان میں ہیں اور متبادل وزیراعلیٰ سندھ کے طور پر کسی وقت بھی نمودار ہوسکتی ہیں، کیونکہ براہ راست اقتدار اور طاقت کا نشہ ہی اور ہے۔

قوم کی مدد کا طریقہ دنیا بھر میں یہ ہے کہ قوم کے افراد کو ہنر مند اور کارآمد بنایا جائے اس کے لیے ان کو وسائل اور تربیت مہیا کی جاتی ہے اور یوں ان کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا جاتا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ دوسرے لوگوں کی مدد کریں، یوں بے روزگاری اور بے کاری کا خاتمہ کیا جاتا ہے اور انسانی وسائل کو بھی بہتر انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ کچھ رقم لوگوں کے دے دینے سے آرام پسندی اور دی جانے والی رقم کی بے قدری ہوتی ہے، لوگ سست، کاہل اور لالچی ہوجاتے ہیں اور درمیان کے لوگ بے پڑھے لوگوں کو بے وقوف بناکر اسے ایک کاروبار بنالیتے ہیں جو پاکستان میں ایک انکم سپورٹ کارڈ کے ساتھ ہورہا ہے۔

انکم سپورٹ ایک بے معنی اصطلاح اور اختراع ہے، موجودہ صورتحال میں اس کی تقسیم کا نظام درست نہیں اس کے لیے جن لوگوں کو یہ کارڈ دیے گئے وہ سب سیاسی بنیاد پر ہیں۔ پورے ملک میں اب حکومت اسے بہتر کرکے ’’کریڈٹ اسکیم‘‘ بنائے اور لوگوں کو بھیک کی طرح یہ رقم نہ دے، بہت سی فلاحی تنظیمیں بلا سودی قرضہ لوگوں کو دے رہی ہیں چھوٹے پیمانے پر لوگ اس سے کاروبار کررہے ہیں، نہ صرف قرضہ 99% واپس کررہے ہیں بلکہ اس کے فنڈ میں کامیاب ہوکر خود رقم دے رہے ہیں کہ تنظیم کے پاس زیادہ رقم ہو اور وہ زیادہ لوگوں کو قرضہ دے سکے۔

آپس میں مدد کرکے رقم جمع کرکے اگر یہ لوگ خیر خواہی کررہے ہیں تو حکومت کو اربوں روپیہ ہر سال اس انکم کارڈ پر خرچ کررہی ہے اس کا ریٹرن کیا ہے؟ مزید کارڈ مزید لوگ؟ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں تو رقم سے کراچی تک چمن سے پشاور تک ہمیں اپنی قوم کا مورال سیاسی مصلحتوں سے الگ ہوکر بلند کرنا چاہیے اور ان لوگوں کو کار آمد شہری بنانا چاہیے، نہ کہ منافع خوروں کے ہاتھ کارڈ فروخت کرنے والے۔

ذہن الگ الگ ہوتے ہیں، جس ذہن نے یہ کارڈ شروع کیا اس کی نظر میں عوام کی یہی حیثیت ہے، آنے والے بھی اس سے الگ نہیں تھے، سیاسی خوف کی وجہ سے ہر چیز کی طرح اس پر اپنا لیبل نہیں لگاسکے، کوئی نہ لگائے اپنا لیبل رہنے دیں، وہ نام وہ حق ہے کسی کا مگر جو اس شخصیت کا وژن تھا اس کارڈ کو اس کے مطابق بنائیں، وہ قوم کو ناکارہ نہیں کار آمد دیکھنا چاہتی تھیں۔

حکومت کو اپنے ترقیاتی کاموں میں ایک یہ کام بھی کرنا چاہیے اسے، ایک کریڈٹ کارڈ بناکر لوگوں کو قرضہ دیں، تربیت دیں، مشورے دیں کہ جہاں جو خاتون رہتی ہے وہاں کون سا کام وہ کرسکتی ہے کہ باعزت روزگار حاصل کرکے حکومت کا قرضہ بھی اتارے اور خوشحال ہوکر اس میں مدد دے لوگ ڈیم کے لیے رقم دے رہے ہیں اس کے لیے بھی دیںگے، حکومت کے خزانے پر بوجھ کے بجائے عوامی فلاحی پروگرام بن جائے گا بس حکومت کڑی نگرانی رکھے اور مسلسل رہے کہ یہ اسکیم بڑھتی جائے لوگ خوشحال ہوتے جائیں۔

دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس عوامی مہم میں حصہ لیں، اسے کامیاب بنائیں، یہ کسی ایک پارٹی کا کریڈٹ نہیں ہوگا سب کا ہوگا، مقامی دستکار خوشحال ہوںگے، بازاروں میں کاروبار ہوگا، خواتین اپنے اپنے علاقے کی ترقی میں حصہ لیں گی اور سارا معاشرہ حرکت میں آئے گا۔ جمود ٹوٹے گا لوگ ملک کے لیے کام کریںگے ایک گھر بہتر ہوگا ملک خوشحال ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔