وطن عزیز کا اٹوٹ انگ

عبدالقادر حسن  منگل 21 اگست 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ملک کے سب سے بڑے اور اہم صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب کے لیے ایک ایسی شخصیت کے نام کا اعلان کر دیا جو  واقعی کسی کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا۔

ہمارے نئے منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان کی ایک تحصیل تونسہ شریف ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وہ اس سے پہلے مختلف جماعتوں کی سیر کرتے ہوئے موجودہ انتخابات میں تحریک انصاف میں پہنچے اور پہلی دفعہ ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ۔ ان کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے پیچھے کیا راز ہے اس کے بارے میں تحریک انصاف کی قیادت ہی بہتر جانتی ہوگی جنہوں نے انتہائی غور وخوص کے بعد ان کا انتہائی اہم منصب کے لیے انتخاب کیا ہے۔

پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے بارے میں پہلے بھی کئی بار عرض کیا ہے کہ جس کے سر پر بھی پنجاب کی پگ رکھی جائے انتہائی سوچ سمجھ کر اور عقل استعمال کر کے یہ فیصلہ کیا جائے کیونکہ ان  کے پیش رو شہباز شریف دس سالہ اقتدار مکمل کر کے اور پنجاب میں ترقیاتی کام کر کے قومی اسمبلی پہنچ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کو پنجاب میں ان کا مقابلہ کرنا ہے ۔ تحریک انصاف جس کا تمام تر زور نئے پاکستان پر ہے اس کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے منصب کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو پنجاب میں واضح تبدیلی لا سکے اور یہ واضح تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب قوم کی امنگوں اور عمران خان کے وعدوں پر عملدرآمد ہو۔

پنجاب پاکستان کی کل آبادی کے نصف سے زائد کا صوبہ ہے اور اس کو چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا ہے، آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے اس کے مسائل بھی اسی حساب سے زیادہ ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو مسائل جس قدر بھی زیادہ ہوں، ان کے حل کے لیے اگر حکمت عملی واضح اور نیت نیک ہو توکوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ان مسائل کا حل نہ کیا جاسکے ۔

پاکستان کے قیام کے بعد جمہوری حکومتوں کے دوران پنجاب میں زیادہ عرصہ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت رہی جو  پاکستان کی خالق جماعت بھی ہے ۔ مسلم لیگ قیام پاکستان کے بعد دھڑے بندیوں کا شکار رہی اور ان دھڑوں نے ہی پاکستان پر حکومت کی جن میں سے سب سے زیادہ عرصہ اقتدار میاں نواز شریف کی نواز لیگ کے حصے میں آیا جو ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہے جب کہ ایک مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کے بھائی شہباز شریف تین مرتبہ وزارت اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ ان کے پنجاب میں دس برس کے اقتدار کا خاتمہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کیا ہے جو حالیہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد پہلے وفاق میں اور اب پنجاب میں بھی حکومت بنا چکی ہے ۔

سوچ و بچار کے بعد پنجاب کا قرعہ عثمان بزدار کے نام نکلاہے جن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان کے گھر میں بجلی بھی نہیں ہے حالانکہ ان کے والد محترم کئی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں، ان کی پنجاب کے اعلیٰ عہدے کے لیے کوئی خاص انفرادیت نہیں ہے، وہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے ضلع کا شمار پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع میں ہوتا ہے، یہی وہ وصف ہے جو ان کے انتخاب کی بنیاد لگتا ہے، ان کی اس خوبی کا اگر میں اپنے ضلع خوشاب کے ساتھ موازنہ کروں تو عمران خان جو خوشاب کے ہمسایہ ضلع میانوالی سے الیکشن جیت کر وزیر اعظم بنے وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ خوشاب کا شمار بھی پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے اور میرا آبائی علاقہ وادیٔ  سون تو ان کا دیکھا بھالا ہے جہاں پر وہ شکار کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے میرے ضلع کے نمایندوںکے ساتھ زیادتی کر دی ہے حالانکہ ایک صوبائی نشست کے علاوہ ضلع کی تمام نشستیں عوام نے پاکستان تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دی ہیں۔

ہمارے نمایندے شریف النفس ہونے کے علاوہ وہیں پڑھتے رہے ہیں جہاں سے جناب عمران خان نے تعلیم حاصل کی ہے، ان کے دامن پر کوئی داغ بھی نہیں ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا معیار امیدوار کاشریف النفس ہونا، پڑھا لکھا ہونا، پسماندہ ضلع سے تعلق ہو اور نوجوان ہو تو پھر میرے ضلع کے نمایندوں کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوئی ہے جس پر میں ذاتی طور پر عمران خان سے احتجاج کرتا ہوں کہ ہمارا بھی یہ حق بنتا تھا چونکہ ہم بھی ان کے معیار پر پورا اترتے تھے اور ویسے بھی’ ہمسایہ ماں جائیا ہوتا ہے ۔ یہ تو گلہ ہے جو شائد عمران خان تک پہنچ جائے کیونکہ سنا ہے کہ وہ بھی اردو سے کوئی خاص شغف نہیں رکھتے۔

پنجاب کا فیصلہ ہو چکا ہے اور نئے وزیر اعلیٰ آج سے کام کا آغاز بھی کر رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی میں ایک بڑا حصہ پنجاب کا ہو گا یعنی بڑی حد تک وفاقی حکومت پنجاب حکومت کی کار کردگی کے مرہون منت ہو گی اور عوام میں پذیرائی پنجاب کی کار کردگی کی بنیادپر ہی ہو گی۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے جنوبی پنجاب کے الگ صوبہ پر کام شروع کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے اگرجنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کرنے کے لیے الگ صوبہ ہی بنایا جانا ہے تو پنجاب کے لیے کسی ایسے وزیر اعلیٰ کی ضرورت نہیں جس کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہی ہو کیونکہ پسماندگی اور محرومیاں دور کرنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی اور مضبوط ارادوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے یہ کوالٹی کافی نہیں کہ ایک پسماندہ ضلع کے شخص کے ہاتھ پورے صوبے کی باگ دوڑ سونپ دی جائے۔

پاکستان تحریک انصاف کے اس فیصلے کو عوام میں وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو ان کو الیکشن میں ملی اور عوام نے ان کوکا میاب کرایا۔ یہ وقت بتائے گا کہ عمران خان کا یہ فیصلہ کس حد تک درست تھا ، اس کو آنے والے وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔