سنت ابراہیمی کو سوشل میڈیا پر تختہ مشق نہ بنائیے

 بدھ 22 اگست 2018
آپ نے خود کبھی اپنی آنکھوں سے تیس لاکھ کا زندہ بیل ٹی وی سے باہر دیکھا بھی ہے؟ فوٹو: انٹرنیٹ

آپ نے خود کبھی اپنی آنکھوں سے تیس لاکھ کا زندہ بیل ٹی وی سے باہر دیکھا بھی ہے؟ فوٹو: انٹرنیٹ

ایک معمول سا بن گیا ہے کہ ہر سال عید قرباں آتے ہی سماجی روابط کی ویب گاہوں پر تیس لاکھ کے جانور کی قربانی کی بحث زوروں پر پہنچ جاتی ہے۔ یوں تو پہلے یہ صرف ’’لبرل کم مذہب بیزار‘‘ دوستوں کا مشغلہ رہا، لیکن چونکہ بات کسی نہ کسی زاویئے سے مذہب کے خلاف جاتی نظر آتی ہے تو ایسی پوسٹوں اور تحریروں پر خلاف معمول اچھی دکانداری ہوجاتی ہے اور رونق میلہ لگا رہتا ہے، تو مذہب بیزار لوگوں کے ساتھ ساتھ اب دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے احباب بھی اس رو میں بہنے لگے ہیں۔

اس ضمن میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں:

پہلے تو یہ بتائیے کہ آپ نے جو ’’تیس لاکھ کے جانور‘‘ کی گردان لگا رکھی ہے، آیا آپ نے خود کبھی اپنی آنکھوں سے تیس لاکھ کا زندہ بیل ٹی وی سے باہر دیکھا بھی ہے؟

دوسرا آپ کی باتوں سے تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے ہر گلی محلے میں، ہر دوسرے تیسرے گھر کے باہر تیس لاکھ کا ایک جانور بندھا کھڑا ہے۔ اگر ہم صرف شہر کراچی کی بات بھی کرلیں تو یہاں ماشاء اللہ ارب پتی لوگوں کی قابل ذکر تعداد رہتی ہے۔ آپ نے کس کس علاقے میں کتنے گھروں کے باہر تیس لاکھ یا اس کے قریب قیمت کا جانور بندھا دیکھا ہے؟

تیسرا اگر کوئی اللہ کا بندہ اپنی جائز اور حلال آمدن سے تیس لاکھ کے جانور کی قربانی کر بھی رہا ہے تو آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس نے اپنی آمدنی سے انفاق فی سبیل اللہ کی مد میں جو کروڑ روپے نکالے تھے، ان میں سے تیس لاکھ کے جانور کی قربانی کے علاوہ 70 لاکھ روپے سے مستحقین کی مدد بھی کی ہے، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کروائی ہے، کسی کا علاج کروایا ہے، کسی کو کاروبار کےلیے قرض حسنہ دیا ہے، کسی کی تعلیم کی مد میں فیس ادا کی ہے، کسی مظلوم قیدی کی ضمانت ادا کر کے رہائی دلوائی ہے اور اسی طرح کی بےشمار نیکیاں کی ہیں۔ تیس لاکھ کا جانور تو چلیے آپ کی شکاری نگاہوں میں آگیا، باقی کے 70 لاکھ کی خطیر رقم سے کی گئی نیکیوں کی کیا وہ رسیدیں لا کر جمع کرائے آپ کے پاس؟ یا آپ کی طرح نیکیاں کرکے فیس بک پر ڈالتا پھرے؟

چوتھا اگر کسی صاحب خیر نے اپنی استطاعت کے مطابق تیس لاکھ کا بیل کاٹا اور اس میں سے تھوڑا سا گوشت گھر میں رکھ کر باقی گوشت تقسیم کردیا تو یہ کار ثواب ہے کہ موجبِ عذاب؟

پانچواں آپ کو لگتا ہے کہ جس کی حیثیت تیس لاکھ کا جانور کاٹنے کی ہے، وہ سال بھر بکرے کا گوشت چھوڑ کر بڑا گوشت، وہ بھی فریش نہیں بلکہ فریج میں اسٹور کیا ہوا، یعنی باسی گوشت کھاتا رہتا ہوگا؟ (جس سے اکثر پیسے والے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔)

آپ کے طنز و تنقید اور طعنوں سے تو یوں لگ رہا ہے جیسے یہ دینی لوگوں کا عمومی رویہ اور شیوہ ہے کہ وہ محض نمود و نمائش کےلیے مہنگا جانور کاٹتے ہیں، جبکہ دیگر نیکیوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی دینی نظریاتی فرد جو قربانی جیسے عظیم عمل اور جذبے کی روح سے واقف ہوگا، وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ ایسی بے وقوفی یا تو کوئی نودولتیا کرتا ہوا دکھائی دے گا یا وہ جو ریاکاری کے مرض میں مبتلا ہوگا۔ ان چند فیصد نادانوں کا دوش آپ سارے صاحبانِ خیر پر ڈال کر کس کی خدمت کر رہے ہیں؟

آپ کی معلومات میں اضافے کےلیے بتاتا چلوں کہ وطن عزیز اور یہاں بسنے والے لوگ دنیا کے سب سے زیادہ صدقات کرنے والے ممالک اور اقوام میں شامل ہیں۔ پھر آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ہمارے مخیر حضرات اپنی حلال آمدن سے وہ وہ کارِ خیر تک انجام دیتے ہیں جو سرکار تک نہیں کر پاتی۔ شمالی علاقہ جات کا زلزلہ ہو یا سندھ و پنجاب میں سیلاب و طوفان، کیا آپ عینی شاہد نہیں کہ کس طرح لوگوں نے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کےلیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے؟ کس طرح بہن بیٹیوں نے اپنے کانوں سے بالیاں اور ہاتھوں سے کڑے اور دیگر مہنگے زیورات بخوشی عطیات جمع کرنے والوں کی جھولیوں میں ڈال دیئے؟

کچھ خدا کا خوف کیجیے۔ صرف چند نودولتیوں کی نوٹنکی اور دکھاوے کا سارا بوجھ تمام مخیر حضرات پر ڈالنا عقل مندی ہے نہ دین کی خدمت۔ ذرا دماغ کو ہاتھ لگائیے، عقل کو آواز دیجیے اور ہوش کے ناخن لیجیے حضور! کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی یہ مہم کل قیامت میں ان سوالوں کی صورت میں آپ کے پیروں کی بیڑی بن جائے جن سے چھٹکارا آپ کےلیے مشکل ہو رہا ہو۔

کیونکہ یہ جو قربانی کا فریضہ ہے ناں، یہ شب برأت کے پٹاخوں کی طرح کا کوئی معاملہ نہیں۔ یہ خالقِ کائنات کے دوست، ابراہیمؑ خلیل اللہ اور ان کے فرزندِ عظیم اسماعیلؑ ذبیح اللہ کی سنت ہے۔ جانے انجانے کہیں آپ کی یہ ’’اٹینشن سیکنگ مہم‘‘ اس سنت کو نقصان تو نہیں پہنچا رہی؟ فیس بک لاگ آؤٹ کرکے، تنہائی میں ذرا سنجیدگی سے سوچیے گا!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔