موت اور کام کا کچھ پتا نہیں، جانے کب آجائے!

ا ۔ خ  بدھ 22 مئ 2013
الیکشن کے دنوں میں اتنی چھٹیاں ہوئیں کہ گھر کا بجٹ ’’آؤٹ‘‘ ہوگیا ۔ فوٹو : فائل

الیکشن کے دنوں میں اتنی چھٹیاں ہوئیں کہ گھر کا بجٹ ’’آؤٹ‘‘ ہوگیا ۔ فوٹو : فائل

 مصائب، مجبوری بن جائیں، تو خوشیاں دم توڑ دیتی ہیں۔ زندگی جینے کے بجائے گزارنے کی شے بن جاتی ہے۔

کیا بچپن، کیا جوانی، معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے سب تیاگنا پڑتا ہے۔ البتہ چند باہمت ایسے بھی ہوتے ہیں، جو محنت کو ہتھیار بنا لیتے ہیں۔ قسمت ایسے امید پرستوں کا ہاتھ تھام لیتی ہے، اور دھیرے دھیرے مصائب کے بادل چھٹنے لگتے ہیں۔ موٹر سائیکل میکینک، محمد جمیل کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا، جنھوں نے زخموں کو ستارے بنانے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔

مسائل کی ریل پیل نے فقط نو برس کی عمر میں جمیل کو تلخیوں سے لبریز عملی زندگی میں دھکیل دیا۔ معصوم ہاتھوں نے اوزار تھام لیے۔ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی۔ اور یومیہ معاوضہ؛ فقط ایک روپے! موسم کے تھپیڑے سہتے، استاد کی ڈانٹ ڈپٹ سُنتے ہوئے، گرمی اور دھویں کے درمیان سیکھنے کا عمل جاری رہا۔

بلاشبہہ کام مشکل تھا، مگر زندگی کی گاڑی کے لیے ایندھن درکار تھا۔ دو مہینے بعد معاوضہ ایک سے بڑھ کر دو روپے ہوگیا۔ ایک برس گزرا، تو یومیہ چار روپے ملنے لگے۔ جمیل کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ ایک ہنر سیکھ رہے ہیں۔ اور یہ ہنر کام آیا۔ آج اپنی دکان ہے، جو ہے تو چھوٹی سی، لیکن خاصی چلتی ہے۔ چھے کاری گر اُن کے ماتحت ہیں، جن میں دو چھوٹے بھائی بھی شامل ہیں۔ دیگر بھائی بھی اِسی کاروبار سے نتھی ہیں۔ ایک موٹرسائیکل کی دوسرا گاڑیوں کی ورک شاپ سنبھال رہا ہے۔ حالات خاصے سدھر گئے ہیں۔ البتہ جمیل کو ایک بات کا دکھ ہے کہ وہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ خواہش ہے کہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، اور مستقبل میں اُن کا ہاتھ بٹائیں۔

پیدایش کا سن تو یاد نہیں، البتہ جمیل کے اندازوں کے مطابق اُنھوں نے ضیادور کے اوائل میں آنکھ کھولی۔ جائے پیدایش کراچی ہے۔ اجداد کا تعلق رحیم یار خان سے تھا۔ والد، محمد سلیم، جو پیشے کے لحاظ سے درزی تھے، برسوں قبل یافت کے ذرایع کھوجے ہوئے روشنیوں کے شہر آئے، اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ محمد سلیم کو خدا نے آٹھ بیٹوں، چار بیٹیوں سے نوازا۔ بارہ بچوں میں جمیل تیسرے ہیں۔ کم گو تھے بچپن میں، البتہ شرارتیں بھی خوب کیں۔ جہاں کرکٹ کھیلی، وہاں لٹو بھی چلائے۔

بھرا پُرا گھرانا، ایک کمانے والا۔ خاصے مسائل کا سامنا رہا، جو کم عمری میں عملی زندگی میں لے آئے۔ کئی برس ایک میکینک کی دکان پر بیتے۔ انجن کے پرزوں کی حرکت کے ساتھ وہ شعور کا سفر طے کرتے رہے۔

2000 میں جمیل نے اپنی دکان کرنے کا فیصلہ کیا۔ سبب اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں،’’وہاں مجھے یومیہ پچاس روپے ملا کرتے تھے، جس میں گزارہ نہیں ہوتا۔ استاد سے کہا کہ دہاڑی بڑھا کر سو روپے کر دیں، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ میں نے وہ دکان چھوڑے کا فیصلہ کر لیا۔ خوش اسلوبی سے یہ مسئلہ حل ہوگیا۔ اب بھی استاد سے ملاقات ہوتی ہے۔‘‘

اُنھوں نے نارتھ ناظم آباد میں ایک دکان کرایے پر لے لی۔ کاروبار کے آغاز میں کیا عمر ہوگی؛ فقط اٹھارہ سال۔ لیکن جذبہ تھا۔ پہلے دن جب گھر لوٹے، تو جیب میں تین سو روپے تھے۔ یہ اچھا آغاز تھا۔ دکان جمنے میں ڈھائی تین ماہ لگے۔

عام مشاہدہ ہے کہ ورک شاپ پر ’’استاد‘‘ کے منصب پر کوئی ادھیڑ عمر شخص فائز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب اُن کی دکان پر آنے والے اُنھیں ’’استاد‘‘ کے روپ میں دیکھتے، تو اُن کے چہروں پر جہاں حیرت ا
بھرتی، وہیں عدم اعتماد بھی جھلکنے لگتا۔ جمیل کے بہ قول،’’ہاں وہ پریشان ہوجاتے تھے، مگر ایک بار کام کروانے کے بعد وہ بھی ماننے لگتے۔ دوبارہ آتے۔‘‘

میکینک سے گاہک کس شے کا تقاضا کرتے ہیں؟ اِس ضمن میں کہتے ہیں،’’بس، کام اچھا ہو۔ شکایت نہیں ملے۔ دوران سفر گاڑی بند نہ ہوجائے۔ دیکھیں، اگر کام اچھا نہیں ہوگا، پیسے زیادہ ہوں گے، تو گاہک میکینک بدل لے گا۔‘‘

کچھ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ میکینک ان کی جیب سے پیسے نکلوانے کے لیے مختلف حربے آزماتے ہیں، درست پرزے کو بھی ناقص قرار دے دیتے ہیں۔ اس بابت کہنا ہے،’’ہر کام میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ اگر آپ بار بار ایسا کریں گے، تو گاہک جلد ہی بھاگ جائے گا۔ اِس طرح تھوڑے فائدے کے لیے آپ بڑا نقصان کرلیتے ہیں۔‘‘

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ انجن کھولنے کے مرحلے میں میکینک گاڑی اپنے پاس رکھ لیتا ہے، جو ہفتوں بعد ہی مالک کو واپس ملتی ہے، مگر جمیل کا طریقۂ کار مختلف ہے۔ شام پانچ بجے وہ انجن کھولتے ہیں، چند گھنٹے بعد گاڑی لوٹا دی جاتی ہے۔ کہتے ہیں، ’’ہماری ایسی عادت نہیں۔ کام کو روک کر نہیں رکھتے۔ کچھ میکینک جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں۔ یہ تاثر دینے کے لیے کہ اُن کے پاس بہت کام ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔‘‘

حالات کی خرابی کی وجہ سے، کراچی کے دیگر شہریوں کی طرح، جمیل بھی متعدد بار پریشانی سے گزرے۔ ’’جوں ہی گڑبڑ کی اطلاع آتی ہے، کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے۔ کمائی ہوتی نہیں، کاری گروں کو جیب سے دہاڑی دینی پڑتی ہے۔‘‘ الیکشن کا مہینہ تو خاصا کٹھن گزرا۔ دہشت گردی کے واقعات، ہڑتالیں، دھرنے، احتجاجی ریلیاں۔ جمیل کے بہ قول،’’الیکشن کی وجہ سے بہت چھٹیاں ہوئیں۔ پوری سیٹنگ ہی بگڑ گئی۔ گھر کا پورا بجٹ آؤٹ ہوگیا۔‘‘

باتوں باتوں میں ووٹ کا موضوع نکل آیا، جس پر اس محنت کش نے کہا،’’ہم نے تو ووٹ نہیں ڈالا!‘‘ اُن کے نزدیک حکومتوں کی تبدیلی سے غریب آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ شکایت ہے کہ لوڈشیڈنگ اپنے عروج پر ہے، گیس نہیں ہے، امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے، منہگائی بڑھ رہی ہے، غریب آدمی غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ اُن کے نزدیک نئی حکومت کو سب سے پہلے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کرنا چاہیے، جس نے کاروبار تباہ کر دیا ہے۔

کسی زمانے میں ’’ٹو اسٹروک‘‘ گاڑیوں کی بھرمار تھی، مگر پھر ’’فور اسٹروک‘‘ گاڑیاں عام ہوگئیں، اب تو بیش تر میکینک ’’ٹو اسٹروک‘‘ گاڑی کا کام سر لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اِس ضمن میں جمیل کا کہنا ہے،’’دراصل ’ٹو اسٹروک‘ گاڑیوں کے کام میں وقت بہت لگتا ہے، اِس لیے میکینک کتراتے ہیں۔‘‘ جن کے پاس آج بھی ’’ٹو اسٹروک‘‘ موٹرسائیکلز ہیں، جمیل انھیں فروخت کرکے ’’فو ر اسٹروک‘‘ گاڑی خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہیں سے چین کی تیار کردہ موٹرسائیکلز کا موضوع نکل آیا، جنھیں ’’چائنا موٹرسائیکل‘‘ کہا جاتا ہے۔ جمیل کے مطابق چائنا موٹرسائیکل جاپانی گاڑیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ ڈیڑھ دو برس بعد اُن میں کام نکل آتا ہے۔

پینٹ شرٹ اُن کی وردی ہے۔ کام کرتے ہوئے اِسی لباس میں نظر آتے ہیں۔ چھٹی والے دن شلوار قمیص پہنتے ہیں۔ معتدل موسم پسند ہے۔ گرمیوں میں کام کرنا مشکل ثابت ہوتا ہے کہ ایک جانب تپش تازیانے برسا رہی ہوتی ہے، دوسری جانب انجن کی گرمی۔ مگر کام تو کام ہے۔ گائیکی میں وہ عطا اﷲ عیسیٰ خیلوی کے مداح ہیں۔ فلموں میں ’’کوئلا‘‘ اچھی لگی۔ شاہ رخ خان کے مداح ہیں۔ 2005 میں شادی ہوئی۔ تین بیٹے ہیں، جن میں سے دو زیر تعلیم ہیں۔ گھر اور کام میں وہ توازن قائم رکھتے ہیں۔ گھر میں قدم رکھتے ہی موبائل فون بند کر دیتے ہیں۔

کاری گروں کو ڈانٹنے کا موضوع نکلا، تو کہنے لگے کہ سختی تربیت کے لیے ضروری ہے، اسی مرحلے سے گزر کر انھوں نے یہ ہنر سیکھا۔ مصروفیات زیر بحث آئیں، تو کہا ، موت اور کام کا کچھ پتا نہیں، نہ جانے کب آجائے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔