وزیراعلیٰ پنجاب کو تین اہم سیاسی رہنماؤں کی سپورٹ حاصل

رضوان آصف  بدھ 22 اگست 2018
سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلی پنجاب بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے دکھ کا مداوا کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں۔ فوٹو:فائل

سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلی پنجاب بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے دکھ کا مداوا کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں۔ فوٹو:فائل

 لاہور:  مسلم لیگ (ن) کی سیاسی طاقت کا منبع ’’پنجاب‘‘ تحریک انصاف نے فتح کر لیا ہے اور عمران خان نے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلی پنجاب بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے دکھ کا مداوا کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں۔

عمران خان اپنی شدید خواہشات کے باوجود اپنے دو انتہائی قریبی اور پسندیدہ افراد کو وزیر اعلی نہیں بنا پائے ہیں،کپتان کی خواہش تھی کہ خیبر پختونخوا کی وزارت اعلی عاطف خان کو ملے لیکن پرویزخٹک نے لابنگ کے ذریعے دباو ڈالا جس کے بعد عمران خان نے جہانگیر ترین کے مشورے پر محمود خان کو وزیر اعلی کے پی کے بنا دیا اور یوں اگر عاطف خان وزیر اعلی نہیں بن سکا تو پرویزخٹک نہ خود بن پائے اور نہ ہی اپنے کسی بندے کو بنوانے میں کامیاب ہوئے۔ پنجاب میں بھی عمران خان کی اولین خواہش عبدالعلیم خان کو وزیر اعلی بنانا تھا۔

عبدالعلیم خان گزشتہ9 برس سے عمران خان کے شانہ بشانہ نئے پاکستان کی جدوجہد میں شریک رہے ہیں اور انہوں نے تحریک انصاف کو پنجاب بالخصوص لاہور میں مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن ان کے ساتھ یہ بدقسمتی رہی ہے کہ انہیں بیرونی مخالفت سے زیادہ پارٹی کے اندر مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ کسی دانشور نے کہا تھا کہ ’’مخالفت ہمیشہ کامیاب اور محنتی فرد کے بارے ہوتی ہے‘‘ لہذا عبدالعلیم خان کے خلاف بھی پارٹی کے وہ لوگ سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔

جن کی سیاسی زندگی ایک ہی اصول پر عمل کرتے گزری ہے کہ’’انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو جاؤ‘‘۔ شریف برادران کو جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان سے خوف لاحق رہتا ہے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان کے بعد اگر ان کیلئے جو سیاسی مخالف سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے، وہ یہی دونوں ہیں ۔ 2013 ء کے بعد سے سبھی سیاسی حلقوں کو یہ معلوم تھا کہ اگر تحریک انصاف 2018 ء کا الیکشن جیتتی ہے تو جہانگیر ترین وزیر اعلی ہوں گے۔

اس معاملے پر تحریک انصاف کے اندر کوئی دوسرا نام موجود نہیں تھا لیکن جہانگیر ترین کی نا اہلی (جو کہ بیلنسنگ ایکٹ معلوم ہوتا ہے)کے بعد ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت عبدالعلیم خان کے خلاف نیب انکوائریز کا آغاز ہوا تھاکیونکہ یہ بات سب کو معلوم ہو گئی تھی کہ اب عبدالعلیم خان ہی پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سب سے مضبوط امیدوار ہوں گے۔ نیب میں پانامہ میں آف شور کمپنیوں کے دیگر ہزاروں مالکان میں سے کسی کو نہیں بلایا گیا۔ الیکشن سے چند ماہ قبل عبدالعلیم خان کے خلاف نیب اقدامات میں غیر معمولی سرگرمی دکھائی دینا شروع ہو گئی تھی اور جب تحریک انصاف الیکشن جیت گئی اور عبدالعلیم خان کی وزارت اعلی واضح دکھائی دینا شروع ہوئی تو نیب نے مزید رفتار پکڑ لی اور واضح طور پر معلوم ہونے لگا کہ تمام ’’پھرتیوں‘‘ کا مقصد عبدالعلیم خان کو وزارت اعلی کے عہدے کیلئے متنازعہ بنانا ہے۔

پاکستان کے مقتدر اور باخبر حلقوں میں ان دنوں یہ بات واضح کہی جا رہی ہے کہ عبدالعلیم خان کو وزیر اعلی بننے سے روکنے کیلئے ایک اہم رئیل سٹیٹ بزنس ٹائیکون اور ایک میڈیا ہاوس مالک نے مبینہ طور پر اہم رول ادا کیا ہے جبکہ شاہ محمود قریشی اور ان کے ہمنواوں نے بھی علیم خان کے میڈیا ٹرائل کو جواز بنا کر مخالفت کی۔

نیب کی جاری انکوائریز اگر معیار ہوتیں تو پھر تو وزیر اعظم پاکستان عمران خان، سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی بھی ’’نیب زدہ‘‘ ہیں، ان کے بارے میں کیا کہا جائے۔ علیم خان جب دوڑ سے باہر ہوئے تو شاہ محمود قریشی گروپ نے اپنے گروپ کا بندہ لانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن عمران خان یہ واضح فیصلہ کر چکے تھے کہ وزیر اعلی پنجاب کے حوالے سے جہانگیر ترین کی رائے کو اہمیت دی جائے گی۔

ان دنوں بعض حلقے یہ تھیوری بیان کر رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب محاذ والے بھی ’’پنڈی ‘‘ والوں کی دین تھے اور اب وزیر اعلی بھی ’’انہی‘‘ کے تجویز کردہ ہیں لیکن میری رائے میں ایسا نہیں ہے۔ عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنا کر کثیر الجہتی سیاسی فوائد حاصل کئے ہیں۔1۔ عمران خان نے شاہ محمود کو وزارت اعلی کی دوڑ سے نکال دیا اور ان کے تجویز کردہ افراد کو بھی،2 ۔ جنوبی پنجاب کے عوام کو مثبت پیغام پہنچا،3 ۔ ممکنہ اور متوقع طور پر سپریم کورٹ سے جہانگیر ترین کی نا اہلی ختم ہونے کی صورت میں انہیں ضمنی الیکشن لڑوا کر پنجاب کا وزیر اعلی بنانے کی اگر صورت بنتی ہے تو سردار عثمان کو استعفٰی دینے پر راضی کرنا آسان ہوگا، سردار عثمان کو اس وقت عبدالعلیم خان کے ساتھ سینئر وزیر بنایا جا سکتا ہے تاہم اس بارے آنے والا وقت بتائے گا کہ حالات کیا صورت اختیار کرتے ہیں۔

فی الوقت عمران خان نے پنجاب میں ن لیگ کی اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کیلئے عمدہ پلان مرتب کیا ہے۔ چوہدری سرور جیسے سینئر سیاستدان اور آرائیں برادری کے اہم ترین رہنما کوگورنر پنجاب بنا دیا گیا ہے جبکہ پنجاب کی سیاست کے بڑے کھلاڑی چوہدری پرویز الہی کو سپیکر اور عبدالعلیم خان کو سینئر صوبائی وزیر بنا کر ایک چار رکنی ٹیم تیار کی ہے جو پنجاب کو چلائے گی۔جبکہ لوگوں کا خیال تھا کہ وزیر اعلی کی دوڑ سے آوٹ ہونے کے بعد علیم خان کی تحریک انصاف میں اہمیت ختم ہو گئی ہے لیکن عمران خان آج بھی علیم خان پر اتنا ہی اعتماد کرتے ہیں جیسا پہلے کرتے تھے۔

علیم خان اور جہانگیر ترین کنگ میکر تھے، ہیں اور رہیں گے کیونکہ عمران خان کا مزاج ہے کہ وہ اپنے انتہائی قریبی ساتھیوں کو الگ یا کم اہم نہیں کرتا۔ پنجاب میں ن لیگ نے اسمبلی کے پہلے دو اجلاسوں میں اپنے غیر معمولی احتجاج کے ساتھ ثابت کردیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو آسانی سے چلنے نہیں دے گی لیکن ایک مضبوط کابینہ اور پولیس سمیت دیگر محکموں میں سیاسی مداخلت کم کر کے تحریک انصاف پنجاب کے عوام کا دل جیت سکتی ہے اور جب عوام حکومت کے ساتھ ہوں تو اپوزیشن کا احتجاج اور پراپیگنڈہ بے اثر ہوجاتا ہے۔

سردار عثمان بزدار کیلئے بھی ان کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا امتحان شروع ہو چکا ہے،انہیں ٹیم ورک اور سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور اس وقت یہ جو تاثر پھیل رہا ہے کہ وہ طارق بشیر چیمہ اور سمیع اللہ چوہدری سمیت جنوبی پنجاب محاذ کے چند دیگر اراکین اسمبلی کے کہنے پر سوچتے، بولتے اور کرتے ہیں۔ سردار عثمان کو اس تاثر کو مضبوط ہونے سے پہلے ختم کرنا ہوگا۔

پنجاب کابینہ میں ایک جانب عبدالعلیم خان سینئر وزیر ہوں گے تو دوسری جانب میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال، ڈاکٹر یاسمین راشد، فیاض چوہان، ڈاکٹر مراد راس، آصف نکئی جیسے دانشمند اور تجربہ کار سیاسی افراد بھی شامل ہوں گے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے حملوں کا جواب دینے کیلئے فیاض چوہان سے بڑھ کر کوئی موثر ثابت نہیں ہو سکتا۔انہوں نے پہلے بھی پارٹی کی نمائندگی ہر فورم پر عمدگی سے کی ہے اور امید ہے کہ ان کے نہایت قریبی دوست اور گجر یوتھ فورم کے صدر چوہدری خرم ریاض گجر کے بقول اب فیاض چوہان اسمبلی میں بھی بھرپور فارم میں دکھائی دیا کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔