حکومت کو عوامی توقعات پر پورا اترنے کیلئے پھرتی دکھانا ہو گی

ارشاد انصاری  بدھ 22 اگست 2018
اب عمران خان کو ایک قائد ایوان کے طور پر سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ فوٹو : فائل

اب عمران خان کو ایک قائد ایوان کے طور پر سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: ملک میں تیسری مرتبہ پُرامن انتقال اقتدارکا عمل کامیابی سے مکمل ہوچکا ہے اور نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر باقاعدہ طور پر ملک کی باگ ڈور سنبھال لی ہے اور اہم ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان سے پیر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے ملاقات کی۔ وزیراعظم ہاوس میں ہونیوالی اس ملاقات میں جنرل زبیر حیات نے عمران خان کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا جبکہ بیرون ممالک سے بھی سربراہان مملکت کی جانب سے عمران خان کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد ونیک خواہشات کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے بہترین دوست ملک چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ نے بھی وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کرکے حکومت بنانے پر مبارکباد دی اورتعلقات کومزید قریب لانے کے لیے مل کرکام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ وزیراعظم نے چائنیز وزیراعظم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی میں چینی محنت کشوں کا کردار قابل ستائش ہے اور پاک چین اسٹریٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط کریں گے۔

چینی وزیراعظم نے عمران خان کو چین کے دورے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان ہر موسم کے دوست ہیں، امید ہے سی پیک مقررہ شیڈول کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔ اس سے قبل نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قوم سے کئے جانیوالے ایک گھنٹہ اور 9 منٹ طویل خطاب میں یوں معلوم ہوا ہے کہ جیسے وزیراعظم عمران خان نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے 100روزہ پلان کو پانچ سال پر شفٹ کردیا ہے اور قوم سے اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے تبدیلی کا جو پروگرام رکھا ہے ۔

اس کا محور و مرکز فلاحی ریاست، سادگی، صنعتی ترقی، سول سروس، پولیس و عدالتی اصلاحات، ہمسایوں سے بہتر تعلقات،کرپشن کا خاتمہ، نئے بلدیاتی نظام کو رکھا گیا ہے۔ اپنے پہلے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے تبدیلی کا پروگرام دیتے ہوئے اعلان کیا کہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کیلئے کوششیں کی جائیں گی، فاٹا کا خیبر پختونخوا میں فوری انضمام کیا جائے گا، بلوچستان اور کراچی کی ترقی کیلئے وفاقی حکومت کام کرے گی۔

اگرچہ پہلے خطاب میں وزیراعظم ملک کو مسائل سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے حوالے سے پُرعزم دکھائی دیئے ہیں مگر دھرنا سیاست کے دوران تحریک انصاف پر سی پیک کے حوالے سے سب سے بڑا الزام لگتا رہا ہے اور ان کے مخالفین یہ بیانیہ پیش کرتے رہے ہیں کہ عمران خان کے دھرنوں اور احتجاجی سیاست کا مقصد سی پیک کو روکنا ہے۔

یہی نہیں بلکہ اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف اور ن لیگ کے دوسرے رہنما چائنیز صدر کے دورہ پاکستان کا لتواء کا ذمہ دار بھی اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنوں کو ہی قرار دیتے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے سی پیک کو گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے، ان حالات میں ضروری تھا کہ عمران خان اپنی تقریر میں سی پیک کا بھی ذکر کرتے اور اس کے مستقبل کے بارے میں کوئی روڈ میپ دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا اسی طرح عمران خان کے پہلے خطاب میں کشمیر، کلبھوشن، ایف اے ٹی ایف، خارجہ ، دفاع سمیت دیگر اہم ایشوز کی کمی محسوس کی گئی ہے۔

یہ وہ ایشوز ہیں جو تحریک انصاف کی سیاست کی بنیاد تھے جبکہ نریندر مودی،بھارت اور کلبھوشن کے نام پر عمران خان نے نوازشریف اور ن لیگ کو آڑے ہاتھوں لیا مگرخود اقتدار میں آنے کے بعد اسی لائن پر چل رہے ہیں جو نوازشریف نے اختیار کی تھی اور اس میں برائی بھی کوئی نہیں ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو خراب رکھ کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا مگران کے ناقدین سوال اٹھاتے ہیں کہ جو اپوزیشن میں رہ کر دعوے کئے گئے اب وہ کہاں گئے۔

یہی نہیں بلکہ نئے پاکستان کی تعمیر کیلئے پُرانے مستریوں کی خدمات لینے پر بھی مخالفین کی جانب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور یقینا یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ نومنتخب وزیراعظم کی ابتدائی ٹیم میں ماسوائے دو تین نئے چہروں کے بڑی تعداد پرویزمشرف دور کی ٹیم کے لوگوں کی ہے جبکہ نئی کابینہ میں ابھی تک کسی سینیٹر کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

اگرچہ کہا جارہا ہے کہ دوسرے مرحلے میں سینٹ سے بھی کچھ لوگ کابینہ میں شامل ہونگے مگر وہیں یہ بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ نومنتخب وزیراعظم نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں سادگی ختیار کرنے اور اخراجات کم کرنے کے عزم کا اعلان کیا ہے کیا وہ عزم پر پورا اتر سکیں گے۔ مخلوط حکومت میں شریک دوسری سیاسی جماعتوں کے وزراء کو بھی اب عمران خان کی قیادت میں ان کی پارٹی کے منشور اور ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کام کرنا ہوگا یا عمران خان ان اتحادی جماعتوں کے منشور اور ایجنڈے کو بھی اپنے پروگرام کا حصہ بنائیں گے۔

ابھی تو حکومت کو اقتدار سنبھالنے چند روزہی ہوئے ہیں کہ تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں اور وزیراعظم کا خطاب تنقید و تجزیوں و تبصروں کی زد میں ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کے بارے میں وزیراعظم نے اپنے خطاب میں قسم کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

وزیراعظم کے قوم سے پہلے خطاب پر مختلف حلقوں کی جانب سے تجزیئے و تبصرے جاری ہیں مگر اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے قوم سے پہلے خطاب پر شدید تنقید کی ہے اور(ن) لیگ کا کہنا ہے کہ عمران خان مذہب کی آڑ نہ لیں باتیں بنانے کے بجائے کام کرکے دکھائیں جبکہ پیپلز پارٹی نے خطاب کو کسی این جی او کے سربراہ کی تقریر قرار دیا جبکہ اے این پی نے اسے گپ شپ کہا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو اپنے پہلے خطاب میں قومی ایشوز پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرنی چاہیے تھی کیونکہ انہیں آگے چل کر قانون سازی کے حوالے سے اپوزیشن کے تعاون کی ضرورت پڑے گی۔ اگرچہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان غیر اعلامیہ انڈر سٹینڈنگ موجود ہے اور آگے چل کر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ بہتر ہوگی، اسکی بنیادی وجہ شائد وزارت عظُمی کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی جانب سے روا رکھا جانیوالا رویہ ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد ایوان میں سب سے بہترین تقریر بلاول بھٹوکی رہی ہے اسے ملکی و غیر ملکی سطح پر سراہا گیا ہے اور سیاست میں ایک چھی انٹری قراردیا گیا ہے۔

البتہ نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی ایوان میں پہلی تقریر انتہائی مایوس کُن تھی، ان کی تقریر قائد ایوان کی بجائے اپوزیشن لیڈر کی تقریر معلوم ہو رہی تھی جس میں غصہ کی جھلک واضح دکھائی دے رہی تھی اور بعد میں شاہ محمود قریشی کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے بھی ظاہر ہوا کہ وزیر اعظم کے انتخاب پر عمران خان کوئی اور تقریر کرنا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن کے احتجاج نے اْنہیں غصہ دلا دیا اور وہ ایسی تقریر کر بیٹھے جس کا لہجہ قائد ایوان کی بجائے کسی اپوزیشن لیڈر کا لگا۔

لہٰذا اب عمران خان کو ایک قائد ایوان کے طور پر سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور انہیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ انہیں اب بہت برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ اب وہ حکومت میں ہیں انہیں الفاظ کے چناو میں احتیاط سے کام لینا ہوگا کیونکہ ایوان چلانا اب حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔