سیاسی تناؤ کم کرنے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت

جی ایم جمالی  بدھ 22 اگست 2018
عید کے بعد سندھ حکومت کی بیوروکریسی میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کی جائیں گی۔ فوٹو : فائل

عید کے بعد سندھ حکومت کی بیوروکریسی میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کی جائیں گی۔ فوٹو : فائل

 کراچی: سندھ کے مسائل کس طرح حل ہوں گے ۔ یہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلی سید مراد شاہ کے لیے بڑا امتحان ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو پی ٹی آئی ، ایم کیوایم پاکستان ، جی ڈی اے اور دیگر جماعتوں کی شکل میں بڑی اپوزیشن کا سامنا ہے۔ سیاسی حلقوں کو توقع ہے کہ مراد علی شاہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ مزیدکامیاب حکمت عملی کے تحت صوبے کے بیشتر مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔دوسری جانب امکان ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی صدر پاکستان منتخب ہو جائیں گے۔

عام انتخابات کے بعد سندھ میں حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے ۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مراد علی شاہ دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ منتخب ہوگئے ہیں ۔ سندھ کے29 ویں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے سید مراد علی شاہ نے ہفتہ کی شام اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ حلف برداری کی ایک بڑی تقریب گورنر ہاؤس کراچی کے وسیع و عریض سبزہ زار پر منعقد ہوئی۔

قائم مقام گورنر آغا سراج درانی نے وزیراعلیٰ سندھ سے اردو میں حلف لیا۔ تقریب حلف برداری میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ان کی دونوں بہنیں بختاور اور آصفہ بھٹو زرداری، کور کمانڈر کراچی ، ڈی جی رینجرز، سابق نگراں وزیراعلیٰ سندھ فضل الرحمان، پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما فریال تالپور، شیری رحمان، سید خورشید شاہ ، محمد احمد شاہ ، قمر الزماں کائرہ ، نثار احمد کھوڑو، سینیٹر اسلام الدین شیخ ، میر منور تالپور ، سبکدوش ہونے والی نگراں سندھ کابینہ کے متعدد ارکان ، ممبران قو می و صوبائی اسمبلی ، غیر ملکی سفارت کار ، عمائدین شہر، تاجر وصنعت کار، بوہری برادری کے نمائندے اور اعلیٰ سرکاری حکام کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سینکڑوں کی تعداد میں کارکنوں نے شرکت کی۔

تقریب حلف برداری میں نو منتخب وزیراعلیٰ کے اہل خانہ کے علاوہ ان کے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نے بھی شرکت کی۔ تقریب حلف برداری کی نظامت کے فرائض چیف سیکرٹری سندھ نے انجام دیئے، حلف برداری کی تقریب کا وقت شام 5 بجے مقرر کیا گیا تھا لیکن مہمانوں کی مسلسل آمد اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی گورنر ہاؤس آمد میں تاخیر کے باعث تقریب کا باقاعدہ آغاز شام 6 بجے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ تقریب میں لوگوں کی کثیر تعداد میں شرکت کے باعث نشستیں کم پڑ گئیں اور بہت سے لوگوں نے کھڑے رہ کر تقریب حلف برداری دیکھی۔ سید مراد علی شاہ کی تقریب حلف برداری بہت زیادہ مہمانوں کی موجودگی کے باعث کسی سرکاری تقریب کے بجائے عوامی جلسے کا زیادہ تاثر دے رہی تھی۔

مراد علی شاہ کے حلف اٹھاتے ہی جیالوں نے زبردست نعرے بازی شروع کردی۔انھوں نے وزیراعظم بلاول بھٹو، جئے بھٹو اور پی پی کی حمایت میں دوسرے نعرے لگائے۔ چیف سیکرٹری سندھ نے اپنی اور حکومت سندھ کی جانب سے مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ سندھ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی۔

حلف برداری کی تقریب ختم ہوتے ہی جیالوں نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو گھیر لیا وہ ان سے مصافحہ کرنے اور تصاویر بنوانے کی کوشش شروع کردی ۔ اس موقع پر بلاول بھٹو کی سکیورٹی پر مامور عملے نے ان کے گرد حفاظتی حصار بنانے کی بہت کوشش کی لیکن لوگوں کے اژدھام کے باعث وہ کامیاب نہ ہوسکے اس موقع پر بلاول بھٹو جیالوں کے درمیان گھل مل گئے۔ انہوں نے کارکنوں سے مصافحہ کیا، کئی لوگوں کو اپنے ساتھ سیلفی بنوانے کا موقع بھی دیا بعدازاں سکیورٹی کا عملہ انہیں قائم مقام گورنر کے دفتر میں لے گیا۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی حلف برداری کے بعد اتوار کے روز شام پانچ بجے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی مشاورت سے فی الحال 8 وزراء نے بھی حلف اٹھا لیا ہے جبکہ دو مشیر بھی نامزد کیے گئے ہیں۔ عید کے بعد چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور فریال تالپور زرداری کی مشاورت کے بعد سندھ کابینہ کے دیگر ارکان کی تقریب حلف برداری کا انعقاد عمل میں لایا جائے گا جبکہ مزید تین مشیر بھی مقرر کیے جائیں گے۔

پہلے مرحلے میں سندھ کی کابینہ میں نئے چہرے شامل کیے گئے ہیں اور دوسرے مرحلے میں امکان ہے کہ کچھ پرانے چہرے شامل ہوں گے۔ مراد علی شاہ ایک متحرک شخصیت ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو مراد علی شاہ سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی اولین ترجیحات امن و امان کا قیام ، حکومتی اداروں میںگڈگورننس قائم کرنا اور عوامی مسائل کا حل ہے۔

عید کے بعد سندھ حکومت کی بیوروکریسی میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کی جائیں گی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مرکز اور تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ کس طرح عوام کے مسائل حل کرتی ہے کیونکہ سندھ کے عوام نے پی پی کو بھاری اکثریت سے عام انتخابات 2018 میں صوبے میںکامیاب کرایا ہے۔ اس بات کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وفاق اور سندھ حکومتوں کے درمیان تعلقات کی گاڑی کس انداز میں آگے بڑھے گی کیونکہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی تناؤ تاحال برقرار ہے۔

تحریک انصاف اور ایم کیوایم پاکستان کے درمیان قائم ہونے والا ’’سیاسی اتحاد‘‘مثبت سمت میں گامزن ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت کی حیثیت سے وفاقی کابینہ کا حصہ بن گئی ہے ۔ وفاقی کابینہ میں ایم کیوایم پاکستان کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سینیٹر فروغ نسیم کو قانون و انصاف کی وزارت دی گئی ہے ۔ اس طرح وفاقی کابینہ میں پی ٹی آئی کی قیادت نے کراچی کی اہم سیاسی جماعت کو نمائندگی دی ہے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اب ایم کیوایم پاکستان کی قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل کے حل کے لیے کس طرح پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکمت عملی بناتی ہے۔ سندھ میں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ سندھ میں پی ٹی آئی اور ایم کیوایم پاکستان اپوزیشن میں ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلافات ایک طرف مگر تینوں جماعتوں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ایم کیوایم پاکستان کو مل کر سندھ کی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ عوامی خدمت سے ہی تینوں جماعتیں اپنی سیاسی پوزیشن عوام میں مزید مضبوط کرسکتی ہیں۔

پاکستان کے نئے صدر کا انتخاب 4 ستمبر کو ہوگا۔ اس وقت پاکستان کے صدر ممنون حسین ہیں۔ جن کا تعلق کراچی سے ہے۔ ملک کی حکمراں جماعت تحریک انصاف نے کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی سندھ کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو صدر کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے ۔ تحریک انصاف کی جانب سے صدارت کے لیے نامزد کردہ امیدوار ڈاکٹر عارف علوی پیشے سے دانتوں کے ڈاکٹر اور پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں سے ہیں۔29 جولائی 1949 الٰہی علوی کے گھر پیدا ہونے والے عارف الرحمان علوی تحریک انصاف کے بانی ممبران میں سے ہیں ۔

عارف علوی نے عملی سیاست کا آغاز 1997 سے کیا اور پہلی بار کراچی سے صوبائی حلقے پی ایس 114 سے الیکشن لڑا اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عارف علوی نے 2002 میں بھی سندھ کی صوبائی نشست پی ایس 90 سے الیکشن لڑا اور 1,276 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ عارف علوی پہلی بار 2013 میں قومی اسمبلی کے حلقے 250 سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر عارف علوی دوسری بار 2018 کے الیکشن میںاین اے 247 سے منتخب ہوئے ہیں اور اس وقت بھی رکن قومی اسمبلی ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی 2006 سے 2013 تک پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل رہے اور اس وقت تحریک انصاف سندھ کے صدر ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی تحریک انصاف میں انتہائی سرگرم رہے ہیں اور دھرنے کے دنوں میں بھی کپتان کے ساتھ کھڑے تھے۔ امکان ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی صدر پاکستان منتخب ہو جائیں گے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی صدر پاکستان منتخب ہوگئے تو ان سے توقع ہے کہ وہ کراچی سے سندھ کے مسائل کے حل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔