خیبر پختونخوا کابینہ کی تشکیل کیلئے مشاورت کا سلسلہ جاری

شاہد حمید  بدھ 22 اگست 2018
سب سے بڑی مشکل وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے نظرانداز کیے جانے والے عاطف خان اور شہرام ترکئی کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ فوٹو : فائل

سب سے بڑی مشکل وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے نظرانداز کیے جانے والے عاطف خان اور شہرام ترکئی کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ فوٹو : فائل

پشاور: خیبرپختونخوا میں سوات سے منتخب رکن اسمبلی محمود خان کے حلف اٹھانے پر حکومت تو قائم ہوگئی ہے تاہم کابینہ تشکیل کا مرحلہ ابھی طے ہونا باقی ہے جس کے لیے مشاورت کا سلسلہ طوالت اختیار کرگیا ہے۔

جس کی وجہ بڑی تعداد میں پی ٹی آئی ارکان کا منتخب ہوکر اسمبلی پہنچنا ہے، چونکہ اسی کے لگ بھگ ارکان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر صوبائی اسمبلی پہنچے ہیں جن میں نئے چہروں کے ساتھ بہت سے پرانے چہرے بھی شامل ہیں اوران میں سے ہر ایک امید سے ہے کہ اسے کابینہ کا حصہ بنایاجائے گا اس لیے تحریک انصاف کی قیادت کو کابینہ کی تشکیل میں مشکلات درپیش ہیں۔

سب سے بڑی مشکل وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے نظرانداز کیے جانے والے عاطف خان اور شہرام ترکئی کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا جن کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ ان دونوں کو من پسند محکموں کے قلمدان دیتے ہوئے سینئر وزیر بنایاجا رہا ہے اور اس خصوصی پروٹوکول کا مقصد یہی ہے کہ یہ دونوں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ محمودخان کی قیادت میں بننے والی نئی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔

پی ٹی آئی کو صوبائی اسمبلی میں اچھی خاصی اکثریت تو حاصل ہے تاہم پرویزخٹک اور اسد قیصر کی کمی پی ٹی آئی کی صفوں میں ضرور محسوس کی جائے گی اور سردست انھیں شوکت یوسفزئی کا ساتھ بھی حاصل نہیں جن کے حلقے پر الیکشن کالعدم قراردیئے جاچکے ہیں اور اب وہ ضمنی الیکشن میں اترتے ہوئے عام انتخابات میں اپنی جیتی ہوئی نشست کو برقرار رکھنے کی کوشش کرینگے۔

مذکورہ صورت حال میں مشتاق غنی اور شاہ فرمان کی صورت میں پی ٹی آئی کی جانب سے دو ایسے ارکان نظر آرہے تھے جو بڑے موثر انداز میں صوبائی حکومت اور اس کے اقدامات کا دفاع کرتے تاہم ان میں سے مشتاق احمد غنی سپیکر منتخب ہوکر دفاعی لائن چھوڑ گئے ہیں جبکہ شاہ فرمان نے خود کو پارٹی قیادت سے صوبہ کا گورنر نامزد کراتے ہوئے میدان سے باہر کرلیا ہے جس کے باعث وزیراعلیٰ محمود خان کو اپنے زور بازو پر زیادہ تکیہ کرنا پڑے گا جس کے ساتھ انھیں نئے آنے والے ارکان کی صورت میں اچھی خاصی کمک ملے گی تاہم اس کے لیے ضروری ہوگا کہ نئے چہروں کو بھی کابینہ کا حصہ بنایاجائے۔

اس معاملے میں یقینی طور پراحتیاط کی ضرورت ہوگی کیونکہ جن ارکان نے پرویزخٹک کے خلاف فارورڈ بلاک بنایا تھا اور سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی تھیں ان میں سے بعض چہرے دوبارہ منتخب ہوکر اسمبلی آئے ہیں جو نئے آنے والے ارکان کو کابینہ اور حکومتی ٹیم کی تشکیل میں نظر انداز کیے جانے کی صورت میں انھیں اپنے ساتھ لے کر نئی حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں ۔

جس میں حکومت سازی کے مراحل میں نظرانداز کیے جانے والے ارکان بھی شامل ہوسکتے ہیں جس سے نئی حکومت مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے اس لیے کابینہ کی تشکیل میں وزیراعلیٰ اور تحریک انصاف کی قیادت کو پرانے چہروں کے ساتھ نئے چہرے بھی شامل کرنے ہونگے جبکہ اس مرتبہ خواتین ارکان کو بھی کابینہ میں حصہ دینا پڑے گا جو بڑی تعداد میں ایوان کا حصہ ہیں، پرویزخٹک حکومت میں بھی انھیں کابینہ میں شمولیت کے معاملے پر نظرانداز کیاگیا تاہم اس مرتبہ انھیں مکمل طورپر نظر انداز کرنا یا صرف پارلیمانی سیکرٹریز بنادینا کافی نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو انھیں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

سابق وزیراطلاعات شاہ فرمان کا جہاں تک معاملہ ہے تو وہ خود بھی چونکہ وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار کے طور پر میدان میں موجود تھے تاہم وزارت اعلیٰ کے عہدے پر نامزدگی کے معاملے پر جو صورت حال بنی اور جس طریقے سے عاطف خان کو کارنر کیا گیا اس کے بعد ان کی نامزدگی کے امکانات بھی ختم ہوگئے تھے۔

اسی لیے قرعہ محمود خان کے نام نکلا جس کے بعد شاہ فرمان خود کو صوبائی اسمبلی میں مس فٹ محسوس کر رہے تھے کیونکہ اسمبلی میں رہنے کی صورت میں انھیں وزارت تو یقینی طور پر ملتی تاہم انھیں پارٹی میں اپنی حیثیت اور سٹیٹس سے نیچے آتے ہوئے کام کرنا پڑتا جس کے لیے شاید وہ تیار نہیں تھے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ پارٹی کے چیئرمین اور موجودہ وزیراعظم عمران خان سے یہی مطالبہ کر رہے تھے کہ انھیں خیبرپختونخوا کا گورنر تعینات کردیاجائے کیونکہ وہ بطور گورنر بہتر طریقے سے تحریک انصاف کے کام آسکتے ہیں اور ان کی یہ بات مان لی گئی، انھیں صوبہ کا گورنر نامزد کردیا گیا ہے اورآئندہ چند دنوں کے اندر وہ صوبہ کے گورنر کے طور پر اپنے عہدے کا حلف لے لیں گے جس سے صوبہ میں پی ٹی آئی کی ٹیم مزید مضبوط ہوگی۔

گزشتہ عام انتخابات کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تو بنی تاہم اس وقت چونکہ مرکز مسلم لیگ (ن)کے پاس تھا اس لیے پرویزخٹک حکومت کو پیپلزپارٹی حکومت کی جانب سے تعینات گورنر انجنیئر شوکت اللہ اور پھر ان کے بعد دو مسلم لیگی گورنروں سردار مہتاب احمد خان اور انجنیئر اقبال ظفر جھگڑا کے ساتھ کام کرنا پڑا،اگرچہ موخرالذکر دونوں گورنروں کی جانب سے بڑے اہم مواقعوں پر پی ٹی آئی کو سپورٹ فراہم کی گئی۔

حتی کہ اکثریت کھودینے کے بعد بھی اقبال ظفرجھگڑا نے سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک کو صوبائی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے نہیں کہا تاہم اس کے باوجود صوبہ کے دونوں بڑوں کے درمیان خلیج بہرکیف تھی جس کی وجہ مسلم لیگ(ن)اورتحریک انصاف میں پائے جانے والے اختلافات تھے اور پھر مختلف اوقات پر گورنرہاؤس میں سابقہ دونوں گورنروں کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھ بھی یقینی طور پر تحریک انصاف کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہوگا، تاہم اس مرتبہ دونوں بڑے عہدوں پر تحریک انصاف ہی کے نامزد ارکان کے ہونے سے صورت حال الگ ہوگی۔

اگرچہ جب عام انتخابات میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی اور یہ واضح ہوگیا کہ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بننے جا رہی ہے تو اس وقت ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت کی جانب سے تعینات کردہ گورنروں کو رخصت ہونا پڑے گا لیکن مذکورہ صورت حال میں لیگی صفوں سے اپنے گورنروں پر دباؤ تھا کہ وہ فوری طور پر عہدوں سے الگ ہو جائیں اور اسی دباؤ کے تحت سندھ اور پنجاب کے گورنر نئے وزرائے اعلیٰ سے حلف لینے سے قبل ہی اپنے عہدوں سے الگ ہوگئے۔

تاہم خیبرپختونخوا کے گورنر اقبال ظفرجھگڑا نے اپنی آئینی ذمہ داریوں سے منہ موڑنے کی بجائے انھیں نبھایا اور نئے وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوتے ہوئے یقینی طور پر مثبت مثال قائم کی ہے،اگر وہ بھی جذباتی فیصلہ کرتے تو اپنی یہ آئینی ذمہ داری نبھائے بغیر ہی عہدے سے مستعفی ہوجاتے۔ تاہم انہوںنے قدرے تحمل سے کام لیا کیونکہ بہرکیف وہ ایک دیرینہ سیاسی ورکر ہیں اور انھیں بخوبی معلوم ہے کہ سیاست کے کیا تقاضے ہوتے ہیں اور انھیں کس طرح نبھانا پڑتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔