عیدِ قرباں؛ مظہرِ عشق و محبّت، شاہ کار تسلیم و رضا

اہلِ ثروت لوگ اس مقدس تہوار کے موقع پر بھی نمود و نمائش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ فوٹو: فائل

اہلِ ثروت لوگ اس مقدس تہوار کے موقع پر بھی نمود و نمائش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ فوٹو: فائل

عیدِ قرباں کا فلسفہ، سیدھا سادہ سا ہے کہ اپنی تمام تر خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’’حکمِ ربی‘‘ کے آگے من و عن سرِتسلیم خم کیا جائے۔ اس حوالے سے تاریخِ اسلام کے اوراق قربانیوں کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔

ان میں کچھ واقعات تو ایسے ہیں کہ جن کی مثال نہیں ملتی، بالخصوص حضرت ابراہیمؑ کا اپنے لختِ جگر حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی پیش کرنا، اور دوسرا حضرت امام حسینؓ کا اپنے بہتّر عزیز و اقارب کے ساتھ بارگاہِ خداوندی میں اسلام کو زندہ رکھنے کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنا۔ اور ذرا نظامِ قدرت دیکھیے کہ سن ہجری کا آغاز بھی خاندانِ نبوت ﷺ کی قربانیوں سے ہوا اور اختتام بھی رضائے الہیٰ کے حصول کے لیے قربانی کے عظیم الشان جذبۂ ایمانی پر ہی ہوتا ہے۔

آج ہی کا وہ دن ہے کہ جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی ربِ قدوس کی بارگاہِ مقدس میں پیش کی تھی، جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قبول فرمائی، اسی خوشی میں ہم عید مناتے ہیں۔ رحمتِ عالم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا کہ یہود و نصاریٰ سال میں دو دن خوشی اور مسرت کے مناتے ہیں اور وہ انہیں عید کہتے ہیں وہ اس دن ہر ناجائز کام مثلا شراب، جُوا اور زنا وغیرہ کو جائز سمجھتے تھے۔

رسولِ عربیؐ نے بھی امتِ مسلمہ کے لیے دو دن خوشیاں منانے کے لیے عطا فرمائے جنہیں ہم عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسلام دینِ فطرت ہے، اسلام میں خوشی اور غم ہر موقع پر گناہوں سے پر ہیز کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان نماز ِعید ہو یا نمازِ جنازہ، پڑھ کر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ غم ہو یا خوشی، ہم ہرحال اور ہر موقع پر اپنے پروردگارِ عالم کو یاد کرتے ہیں۔

آج سے کئی ہزار سال قبل اللہ رب العزت کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا کہ جس میں حکم تھا: ’’اے میرے خلیل! میرے لیے قربانی پیش کرو۔‘‘ نبی کا خواب وحی الٰہی ہوتا ہے، سو آپؑ نے نے سو اونٹ ربِ قدوس کی راہ میں قربان کردیے۔ دوسری رات پھر وہی خواب دیکھا، صبح اُٹھ کر آپؑ نے پھر سو اونٹ راہِ خدا میں قربان کر دیے۔ تیسری رات پھر خواب ملاحظہ فرمایا کہ ’’اے میرے خلیل! میری راہ میں وہ چیز قربان کرو جو تمہیں سب سے زیادہ پیاری ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام بیدار ہوئے تو سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ کریم مجھ سے میرے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی مانگ رہی ہے۔ آپؑ نے اپنی زوجہ حضرت حاجرہؓ سے فرمایا، کہ میرے بیٹے اسمٰعیلؑ کو تیار کردو، میں نے اسے ایک دعوت میں لے کرجانا ہے۔ حضرت حاجرہ ؓنے اسمٰعیلؑ کو نہلا دھلا کر خوب صورت لباس پہنا کر تیار کردیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک تیز دھار دار چُھری اور رسی لی اور حضرت اسمٰعیلؑ کو لے کر دُور ایک جنگل کی طرف چل پڑے۔

دوسری طرف شیطان نے اس بات کا عزم کیا کہ میں ابراہیمؑ کو قربانی کے اس عظیم مقصد میں کام یاب نہیں ہونے دوں گا، چناں چہ سب سے پہلے شیطان حضرت حاجرہ ؓ کے پاس پہنچا اور انہیں پوری حقیقت سے آگاہ کیا۔

حضرت حاجرہ ؓنے یہ سن کر فرمایا: ’’ اگر اللہ کا یہی حکم ہے تو ایک اسمٰعیل کیا، ہزاروں اسمٰعیل بھی ہوں تو اللہ کی راہ میں قربان ہونے کے لیے حاضر ہیں، اے مُردود! تو شیطان ہے۔‘‘ حضرت حاجرہؓ نے لاحول پڑھی تو شیطان وہاں سے بھاگ گیا۔ پھر وہ حضرت اسمٰعیلؑ کے پاس پہنچا اور انہیں بھی پوری حقیقت سے آگاہ کیا۔

حضرت اسمٰعیلؑ نے فرمایا: ’’ اگر اللہ کی یہی منشاء ہے تو میں حاضر ہوں۔ اے مُردود تُو شیطان ہے۔‘‘ پھر حضرت اسمٰعیلؑ نے بھی لاحول پڑھی اور اُسے کنکریاں ماریں۔ پھر شیطان حضرت ابراہیم کے پاس پہنچا اور انہیں بھی ورغلانے کی خوب کوشش کی، اس موقع پر آپؑ نے بھی لاحول پڑھی اور شیطان مُردود کو کنکریاں ماریں۔ یاد رہے کہ آج بھی حجاج کرام ان تینوں جگہوں پر کنکریاں مار کر اُن کی یاد تازہ کرتے ہوئے سنتِ ابراہیمیؑ ادا کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لختِ جگر حضرت اسمٰعیل ؑ کو لے کر ایک پہاڑ کے قریب پہنچے اور ان سے فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری کیا رضا ہے۔؟‘‘

سعادت مند اور فرماں بردار بیٹے نے جواب دیا: ’’ اباجان! آپؑ کو جو حکم ملا ہے، اسے بلا خوف و خطر بجا لائیے، مجھے آپؑ انشاء اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘

جب باپ اور بیٹا دونوں ربِ کریم کی رضا پر راضی ہوگئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیلؑ کو زمین پر ماتھے کے بل لِٹا دیا۔ چھری چلانے سے پہلے بیٹے نے کہا: ’’ اباجان! میری تین باتیں قبول فرمالیں، پہلی یہ کہ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ دیں تاکہ میرے تڑپنے پر خون کا کوئی چھینٹا آپؑ کے لباس پہ نہ گرے۔ دوسری یہ کہ آپؑ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ چُھری چلاتے ہوئے میری محبت میں، آپؑ کے ہاتھ مبارک رک جائیں۔ تیسری یہ کہ میرا خون آلود کُرتا میری والدہ محترمہ کو دے دیجیے گا۔

وہ اس کُرتے کو دیکھ کر اپنے دل کو قدرے تسلی دے لیا کریں گی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ہاتھ پاؤں کو رسی سے باندھ دیا اور اپنی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ لی۔ تسلیم و رضا کا یہ حسین منظر آج تک چشمِ فلک نے نہیں دیکھا کہ ایک باپ نے اللہ رب العزت کی خوش نودی کے لیے اپنے لختِ جگر کے گلے پر چُھری رکھ دی۔ آپؑ نے تیزی سے چُھری چلادی۔ بعد از ذبح آپؑ نے اپنی آنکھوں سے پٹی اتاری تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی جگہ ایک ’’مینڈھا‘‘ ذبح ہوا پڑا ہے اور اس کے پاس حضرت اسماعیل علیہ السلام کھڑے تبسّم فرما رہے ہیں۔ اسی وقت غیب سے ندا آئی: ’’ اے ابراہیم! تُونے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم نیکوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔‘‘

ربِ غفور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کو اس قدر پسند فرمایا کہ قیامت تک امتِ مسلمہ کیلیے قربانی کو ضروری قرار دیتے ہوئے یادگار بنا دیا۔ ہر سال پوری دنیا میں بسنے والے بے شمار مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تقلید میں جانوروں کی قربانی کا نذرانہ، بارگاہِ خداوندِ قدوس میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

احکاماتِ خداوندی کو بجا لانے میں اخلاص کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ حضورِ اقدسؐ کا فرمانِ مقدس کا مفہوم ہے: ’’ بے شک! اللہ تعالیٰ تمہاری طرف اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا، بل کہ وہ تو تمہاری نیّت کو دیکھتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب قرآن پاک میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بل کہ اُسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

عیدِ قرباں کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بھی وہ ’’روحِ ایمان‘‘ پیدا ہو جس کا عملی مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے ہزاروں سال قبل کیا تھا۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ یہ عظیم الشان دن بھی فقط ایک تہوار بن کر رہ گیا ہے۔ اہلِ ثروت لوگ اس مقدس تہوار کے ذریعے بھی نمود و نمائش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

جس سے معاشرے کے غریب اور نادار طبقات میں اس روز احساسِ کمتری پوری شدت سے جنم لیتا ہے۔ آج امتِ مسلمہ جن مسائل اور حالات سے دوچار ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے اپنے دینی شعار کی اصل روح کو بھلا دیا ہے۔ دنیا کی چاہت اور دیکھا دیکھی اپنے سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی خاطر اسلام سے کوسوں دور ہو چکے ہیں اور دنیا تو ایسی ظالم ہے کہ جس کے بارے میں اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مقدس کہ ’’دنیا ایک مُردار ہے، اور اس کا چاہنے والا کتّا ہے۔‘‘

اللہ کریم کی بارگاہِ مقدس میں دعا ہے کہ اللہ کریم اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے ہمیں شیطان کے شر سے بچا کر، اسلام میں پورا داخل ہو نے کی توفیق و ہمت عطا فرماتے ہوئے۔ ہمارے ایمان کی سلامتی فرمائے اور ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکال کر، اپنی اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت پیدا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔