تحریک انصاف کی حکومت اور تبدیلی کا ایجنڈا؟

مزمل سہروردی  بدھ 22 اگست 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

عمران خان نے وزیر اعظم کا چارج سنبھال کر قوم سے خطاب بھی کر لیا ہے۔ کابینہ کا اعلان بھی کر لیا ہے۔ ترجیحات بھی بتا دی ہیں۔ قومی امنگوں کے عین مطابق اعلانات بھی کر دیے ہیں لیکن مجھے اس حکومت میں عمران خان تنہا نظر آرہے ہیں۔ اہم عہدوں پر تحریک انصاف نظر آہی نہیں رہی۔ سب کچھ تو دوسری پارٹیاں لے گئی ہیں۔

اگر تحریک انصاف اور عمران خان کے تناظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک لولی لنگڑی اور مانگے تانگے کی حکومت کے سوا کچھ نہیں لگتی۔ کہاں ہے تحریک انصاف، کہاں ہے تبدیلی۔ پتہ نہیں لیکن لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ تو مشرف کی کابینہ دوبارہ آگئی ہے۔

فروغ نسیم وفاقی وزیر قانون کیا تحریک انصاف سے ہیں؟وزارت قانون نے تمام اصلاحات میں بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ وہ تو مشرف کے غداری کیس میں وکیل ہیں۔ ایم کیو ایم سے سینیٹر ہیں۔آج کا دور آئی ٹی کا دور ہے۔ پاکستان آئی ٹی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ دنیا آئی ٹی میں بہت آگے نکل گئی ہے۔ ہماری آئی ٹی کی ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر نوجوانوں کو ترقی دینی ہے تو ملک کو آئی ٹی کے شعبہ میں مواقع پیدا کرنے ہوںگے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ا س شعبہ میں پچھلے ادوار میں کام نہیں ہوا۔ لیکن اس شعبہ میں ابھی ہم دنیا کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ اللہ کے فضل سے یہ اہم وزارت بھی ایم کیو ایم کو دے دی گئی ہے۔ ایم کیو ایم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کبھی غیر اہم وزارت نہیں لیتے۔ پہلے ان کی نظر پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت پر ہوتی تھی۔ اب انھوں نے عمران خان سے پھر دو اہم و زارتیں چھین لی ہیں۔مجھے نہیں پتہ کہ ایم کیو ایم عمران خان کے تبدیلی کے ایجنڈے پر کس قدر متفق ہے۔ ایم کیو ایم کا اپنا ایجنڈاہے ۔ ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہیں بھی ایم کیو ایم اور عمران خان کے ایجنڈے میں کوئی قدر مشترک ہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پاس خارجہ، دفاع، پٹرولیم، اطلاعات، تعلیم جیسی مضبو ط وزارتیں موجود ہیں۔ لیکن اگر پاکستان میں حکومت کے خدو خال کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کی سول حکومت کبھی خارجہ امور میں خود مختار نہیں رہی ہے۔ وزارت دفاع کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں وہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ اسی لیے عمران خان کی پہلی تقریر میں خارجہ امور اور دفاع کے بارے میں کچھ نہیں تھا۔

کیونکہ عمران خان کو پتہ ہے کہ یہاں ان کے لیے کچھ نہیں۔ یہ درست ہے وزارت خزانہ تحریک انصاف کے پاس ہے ۔ یہ کانٹوں کی سیج ہے۔ لیکن یہ واحد وزارت ہے جہاں تحریک انصاف اپنے تبدیلی کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ لیکن اس میں بھی بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔ عمران خان نے کہہ دیا ہے قرضہ ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ تحریک انصاف نے اب تک جن اقدامات کا اعلان کیا ہے ان سے کوئی بڑی مالی تبدیلی آجائے گی۔

باہر سے کتنا پیسہ آجائے گا، یہ واحد امید ہے کہ بس باہر سے پیسے آجائیں گے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی پیسے بھیج دیں گے۔ کتنے اور کیوں۔ ان سوالات کا جواب آیندہ چند ماہ میں مل جائے گا۔زبیدہ جلال دفاعی پیدارا کی و زارت لے گئی ہیں۔ زبیدہ جلال کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔وہ مشرف کی دریافت تھیں۔ اور مشرف ہی ان کی پہچان ہیں۔وہ کسی بھی طرح تحریک انصاف سے نہیں ہیں۔ وہ جہاں سے ہیں سب کو پتہ ہے۔ یہ وزارت دفاع سے زیادہ مضبوط وزارت ہے۔ جس میں کام کرنے کا زیادہ موقع ہے۔ لیکن یہ بھی تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے۔

اسی طرح فہمیدہ مرزا کو ہی لے لیں۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ جی ڈی اے کو وزارت دینے کی کیا ضرورت تھی۔ دو سیٹوں کے اتحادی کو بھی وزارت دینی پڑ گئی ہے۔ بین ا لصوبائی رابطہ ایک اہم وزارت ہے۔ اس وزارت میں کافی کام ہو سکتا تھا۔لیکن یہ بھی تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے۔ شیخ رشید ایک سیٹ کے اتحادی ہیں۔ انھیں بھی ریلوے کی وزارت دے دی گئی ہے۔وہ ریلوے کی وزارت لے کر خوش نہیں ہیں۔ ان کا تو خیال ہے کہ انھوں نے عمران خان کو وزیر اعظم بنایا ہے۔ اور بدلے میں کیا ملا ہے وہی پرانی وزارت۔ یہ تو انھیں مشرف نے بھی دے دی تھی۔ وہ ناراض ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ اسی طرح ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ حالانکہ ق لیگ کوپنجاب میں اسپیکر شپ بھی دے دی گئی ہے۔ خسروبختیار کا بھی تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا عمران خان کے تبدیلی کے ایجنڈے سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعدصحت تعلیم اور دیگر اہم امور اب صوبائی حکومتوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ اور وفاقی حکومت کا ان وزارتوں میں کردار بہت محدود رہ گیا ہے۔ آپ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو لے لیں۔

وہ بھی تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے۔ وہ بھی جنوبی پنجاب محاذ سے ہیں۔پتہ نہیں کیوں عمران خان تحریک انصاف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی نہیں دے سکے۔ اس سے بہتر تھا کہ فواد چوہدری یا علیم خان کو بنا دیتے۔ ڈاکٹر یاسمین  راشد کو بنا دیتے۔ کم از کم وہ تحریک انصاف کی پہچان تو تھے۔ وہ سب سے بڑے صوبے میں ایک کمزور وزیر اعلیٰ لائے ہیں۔ انھوں نے ایک اور غلام حیدر وائیں لانے کی کوشش کی ہے۔ جس کا نہ تو ماضی میں کوئی فائدہ ہوا تھا اور نہ ہی اب ہوگا۔ سب سے بڑے صوبے کا کمزور ترین وزیر اعلیٰ یہ منطق کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی۔مجھے یقین ہے کہ یہ عمران خان کی چوائس نہیں ہیں۔ لیکن شائد یہی تبدیلی ہے۔

آپ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو بھی دکھ لیں۔ سب کو علم ہے کہ عمران خان ان کو نہیں بنانا چاہتے تھے۔ ان کا امیدوار کوئی اور تھا۔ پرویز خٹک کی ناراضی بھی سب نے دیکھی۔ پھر کے پی کا وزیر اعلیٰ بدل گیا۔ اب پنجاب کی طرح کے پی کا وزیر اعلیٰ بھی ریموٹ کنٹرول ہی ہے۔

عمران خان نے ملک سے کرپشن ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ یا کرپٹ لوگ بچیں گے یا پاکستان۔ میں ان سے متفق ہوں۔ لیکن ایسا حتساب کون مانے گا جس میں صرف ان کے مخالفین کا احتساب ہو اور ان کے ساتھی بچ جائیں۔عمران خان نے ایک ایسی کمزور حکومت بنائی ہے جس میں وہ ایک اتحادی کی ناراضی بھی مول نہیں لے سکتے۔ اس لیے تو مونگ پھلی کی طرح اتحادیوں میں وزارتیں بانٹ دی گئی ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے کسی رکن پر انگلی اٹھانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اگر انھوں نے احتساب کا کوئی عمل شروع کرنا ہے تو اپنی صفوں سے شروع کریں۔ ورنہ کوئی نہیں مانے گا۔

عمران خان کی تقریر کا جائزہ لیں تو دیکھیں پاکستان کتنا تبدیل ہو چکا ہے۔ان کی تقریر میں بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ کیونکہ یہ اب مسائل نہیں ہیں۔ لیکن وہ یہ کہہ نہیں سکتے تھے کہ میرے سے پہلی حکومت یہ مسائل حل کر گئی ہے۔ پانچ سال میں وزیر اعظم کے بیرونی دوروں پر 65کر وڑ کا خرچہ بھی کوئی زیادہ نہیں ہے۔وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے سے اگر ملک کا کوئی مسئلہ حل ہوتا تو بسم اللہ۔یہ ایک نعرہ تو ہو سکتا ہے۔ مسائل کے حل کا روڈ میپ نہیں۔ باقی ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا سب کو بے صبری سے انتظار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔