وہ حادثہ تھا یا سازش؟

سردار قریشی  بدھ 22 اگست 2018
sardarqureshi1944@gmail.com

[email protected]

گزشتہ 17 اگست کو طیارے کے اس حادثے کو ہوئے 30 سال گزرگئے جس میں صدر اور آرمی چیف کے دونوں طاقتور عہدوں پر تقریباً گیارہ برس سے قابض فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق مارے گئے تھے ۔

1988ء میں اس روز یہ حادثہ سہ پہر 3 بجکر 51 منٹ پر بہاولپور سے چند میل کی مسافت پر دریائے ستلج کے قریب پیش آیا تھا ۔ دونوں ہوا بازوں، ونگ کمانڈر مشہود حسن اور فلائٹ لیفٹیننٹ ساجد کے علاوہ طیارے میں سوار29 دوسرے مرنے والوں میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل اختر عبدالرحمان، چیف آف جنرل اسٹاف جنرل محمد افضال، پاکستان میں امریکا کے سفیرآرنلڈ رافیل اور سینئر امریکی فوجی اتاشی بریگیڈیئر جنرل ہربرٹ ایم واسم شامل تھے ۔ نازیہ سید علی کی تحقیقاتی رپورٹ میں، جو ایک ہم عصر انگریزی اخبار میں شایع ہوئی ہے، انکشاف کیا گیا ہے کہ پاک ۔ 1 کے نام سے موسوم اس c-130 وی وی آئی پی طیارے کی تباہی کے پیچھے حصول اقتدارکی سیاست، دغا بازی اور بے وفائی کی ایک طویل کہانی پوشیدہ ہے۔

یہ پراسرارکہانی وہاں سے شروع ہوئی جب ونگ کمانڈر منور عالم نے ، جو چکلالہ ایئر بیس سے بیک اپ سی c-130 لے کر اڑے تھے،ایئر ٹریفک کنٹرولرکوکہتے سنا کہ اس کا پاک ون کے ہوابازوں سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ ابھی اس پیغام کا تبادلہ جاری تھا کہ فضا میں موجود ایک مشاق اسکاؤٹ طیارے نے پاک ون کے حادثے کا شکار ہونے کی اطلاع دی۔ بریگیڈیئر نسیم اور جنرل عالم فوراً حادثے کی جگہ پہنچے جہاں طیارے کے ملبے سے دھواں اٹھ رہا تھا۔

ریٹائرڈ بریگیڈیئر نے رپورٹرکو بتایا کہ میں نے حادثے کی جگہ کا تفصیلی معائنہ کیا، طیارہ عمودی رخ پہ زمین سے ٹکرا کر اس میں دھنس گیا تھا، بعد میں دھماکا ہوا اور طیارے نے آگ کے گولے کی شکل اختیارکر لی۔ سب سے پہلے میری نظر جنرل واسم کی ٹوپی پر پڑی، پھر میں نے وہیں جنرل اختر عبدالرحمان کی کیپ پڑی دیکھی۔ یکایک مجھے جسم سے الگ ہوکر دور جا گرنے والی ایک ٹانگ نظر آئی جس کے پاؤں میں سیاہ موزہ اور جوتا پہنا ہوا تھا، مجھے شبہ گزرا کہ یہ ٹانگ جنرل ضیاء الحق کی ہے ۔

پاک ون طیارے کی تباہی کے 30 سال بعد آج بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ کسی فنی خرابی کی وجہ سے پیش آنے والا حادثہ تھا یا ملک کے صدر اور فوج کے سربراہ کی جان لینے کی کوشش کا نتیجہ؟ اگر یہ تخریبی کارروائی تھی تو اس میں کس کا ہاتھ تھا ؟ حادثے کی تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے شفیق الرحمان کمیشن کی رپورٹ پر اب تک کیوں پردہ پڑا ہے، اسے کیوں ظاہر نہیں گیا ؟ کیا کچھ چھپایا جارہا ہے ؟ طیارے میں سوار تمام لوگوں کے لیے یہ ان کی زندگی کی آخری پرواز ثابت ہوئی۔

حادثے کے ایک سال بعد ایک امریکی صحافی جے ایپسٹین نے وینیٹی فیئر میں شایع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’’ دیہاتیوں نے طیارے کو فضا میں ہچکولے کھاتے دیکھا، یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی نظر نہ آنے والے رولرکوسٹر پر دھرا ہو جو اسے اٹھا اٹھا کر پٹخ رہا ہے ، تیسری بار اس کا رخ سیدھا صحرا کی طرف تھا اور وہ گرکر اس میں دفن ہوگیا، پھر ایندھن کے ٹینک میں آگ لگنے سے دھماکا ہوا اور وہ آگ کا گولہ بن گیا ۔‘‘

مرنے والوں میں افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف برسر پیکار مجاہدین کو تربیت دینے اور مسلح کرنے والے تقریباً سارے بڑے اداکار شامل تھے جو پچھلے دس برسوں سے پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی شروع کی ہوئی مہم جاری رکھے ہوئے تھے ۔ جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمان کے بیٹوں، اور دوسرے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء ، جنرل اسلم بیگ کو ہٹا کر ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل محمد افضال کو لانا چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جنرل اسلم بیگ پر طیارے کی تباہی میں ملوث ہونے کا شبہ کیا جاتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی فائلوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے جنرل بیگ نے حادثے کے بعد 25 اگست کو فوجی افسران سے اپنے خطاب میں جنرل ضیا کی موت کو ’’سازش‘‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’ممکن ہے ہمارے کچھ اپنے لوگ بھی اس گھناؤنے جرم میں شریک ہوں، کیونکہ اندرکے لوگوں کے تعاون کے بغیرکوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔‘‘ وقوعہ کے فوراً بعد جو تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی اس نے بھی اپنی رپورٹ میں یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ’’ کسی فنی وجہ کی عدم موجودگی میں حادثے کا دوسرا ممکنہ سبب صرف تخریب کاری ہوسکتا ہے۔‘‘ اس نے سفارش کی تھی کہ جرم میں ملوث عناصرکی شناخت کے لیے تحقیقات کرائی جانی چاہیے۔

حادثے کے کسی سازش اور تخریب کاری کا نتیجہ ہونے کے ثبوت کے طور پر بتایا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء اور اختر دونوں کے خاندان ہرکیولس 130 C-طیارہ بنانے والی کمپنی لاک ہیڈ پر ہرجانے کا مقدمہ دائرکرنا چاہتے تھے، پیسوں کے لیے نہیں بلکہ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ طیارے میں کوئی خرابی نہیں تھی مگر امریکی خفیہ ایجنسیوں میں موجود (جنرل کے) دوستوں نے یہ کہہ کر ہمیں ایسا کرنے سے روک دیا کہ یہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ گیند پر نظر رکھیں، آپ نے اسی ملک میں رہنا ہے۔‘‘

اگر کچھ فوجی عناصر اس میں ملوث ہوں تب بھی حادثے میں مارے جانے والوں کے بعض افراد خاندان کے خیال میں اس کے پیچھے ایک یا زیادہ غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے اور ایسی کئی طاقتیں ہیں جن کے ایسا کرنے کی نہ صرف وجہ موجود ہے بلکہ ان کا مفاد بھی اس سے وابستہ ہے۔ دس سالہ افغان جہاد آخری مرحلے سے گزر رہا تھا، افغانستان سے سوویت فوج کی واپسی مکمل ہونے میں صرف چھ ماہ باقی رہ گئے تھے، جنرل ضیاء فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں اپنے چوٹی کے ساتھیوں کے ساتھ اس میں پوری طرح ملوث اور مصروف تھے۔

مجاہدین کو تربیت دینے اور مسلح کرنے میں پاکستان اور امریکا کی شراکت داری کام ہو جانے پر اختتام پذیر ہونے کو تھی لیکن جنگی حکمت عملی کے معاملات طے ہونے میں ابھی بہت سی رکاوٹیں اور پیچیدگیاں باقی تھیں ۔ پاک فوج ،اپنے وزیر اعظم محمد خان جونیجوکے برعکس جنیوا معاہدوں پر جلد دستخط کرنے کے حق میں نہیں تھی اور چاہتی تھی کہ پہلے افغان حکومت تشکیل پاجائے ۔ دوسری طرف امریکا کو کابل میں مستحکم حکومت کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے سوویت افواج کی واپسی میں زیادہ دلچسپی تھی۔

اعجاز الحق کے بقول ، قومی اسمبلی کے اسپیکر، فخر امام نے انھیں جنرل ضیاء اور دورے پر آئے ہوئے امریکی وفد کے درمیان ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں بتایا جس میں بحیثیت فوجی سربراہ انھوں نے امریکا پر لعنت بھیجی جو افغان مسئلہ طے ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور ان کے والد جنیوا معاہدوں سے ناخوش تھے ۔ امریکا کو جنرل ضیاء کے ہاتھوں گلبدین حکمت یار کو اسلحے کی مسلسل فراہمی پر بھی تشویش لاحق تھی، جوکبھی سی آئی اے کے سب سے پسندیدہ مجاہدین کمانڈر ہوا کرتے تھے مگر اب امریکا مخالف نظریات کا پرچارکرتے ہوئے دیکھے جا رہے تھے۔

دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ امریکا وسیع تر علاقائی صورتحال کے حوالے سے بہت فکرمند تھا اور اسے اپنی سوچ کی مخالف سمت میں جاتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔ جنگجو پاکستان سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونا شروع ہوگئے تھے اور امریکا سمجھتا تھا کہ جنرل ضیاء اب جہاد کا رخ اس طرف پھیرنے کے موڈ میں ہیں جو اس کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ انھیں راستے سے ہٹانے کی ایک اہم وجہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے ان کی بے تابی تھی۔

رپورٹ کے مطابق جنرل ضیاء نے صدر ریگن سے ایک خفیہ معاہدہ کر رکھا تھا جس کی رو سے افغاستان میں سوویت یونین کے خلاف سی آئی اے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عوض امریکا جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی پاکستانی کوشش سے چشم پوشی کرے اور درگزر سے کام لے گا۔ رپورٹ کے مطابق 1987ء میں جنرل ضیاء کے ایجنٹ ،پاکستانی نژاد کینیڈین بزنس مین ارشد پرویز کا ایٹم بم بنانے میں استعمال ہونے والا 25 ٹن اسٹیل خریدتے ہوئے فلاڈیلفیا میں پکڑا جانا، بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔