خان صاحب ! کراچی کا میچ ابھی باقی ہے

آصف زیدی  بدھ 22 اگست 2018

عوام بڑے خوش ہیں کہ بائیس سال کی محنت کے بعد عمران خان نے سیاسی ورلڈکپ بھی جیت لیا ۔ 1992ء میں جب عمران خان نے ورلڈ کپ ہاتھوں میں لیا تو اُس وقت کسی کے خوابوں میں بھی نہیں ہوگا کہ عمران خان ایک دن وزیر اعظم بنیں گے لیکن ایسا ہوگیا ، ہفتہ 18 اگست کو عمران خان نے وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھا لیا ۔ اُن کو حلف اٹھاتے دیکھ کر،گارڈ آف آنرکا معائنہ کرتے دیکھ کر اور بطور وزیر اعظم فیصلے کرتے دیکھ کر تحریک انصاف کے رہنماؤں اورکارکنوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میںعمران خان کے پرستار بھی بہت خوش ہیں ۔

عمران خان کا وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنا سب کے لیے ایک پیغام کہا جا سکتا ہے کہ اگر انسان جدوجہد کرے تو کامیابی ضرور قدم چومتی ہے ۔ وزیر اعظم عمران نے اتوارکو قوم سے اپنے پہلے خطاب میں اپنی پالیسیوں اور آیندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں کافی تفصیلات بتائی ہیں جو حکومتی ایوانوں میں تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک اپنے وعدوں، دعوؤں اور فیصلوں میں کامیاب ہوتے ہیں، پوری پاکستانی قوم کو اُن سے بہتر فیصلوں کی امید ہے اور سب اُن کی کامیابی کی دعائیں بھی کر رہے ہیں کیونکہ اُن کے منشور اور باتوں سے عام آدمی کی بھلائی نظر آرہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے شہرکراچی کے حوالے سے بھی بہت باتیں کی ہیں اور یہاں بھی شہر قائد کے باسیوں کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لیے حکومت سندھ کا ساتھ دینے اور وفاقی حکومت کے ذریعے بھی کراچی کے لیے بہت کچھ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

کرکٹ میچ میں موسم ابر آلود ہو ، سخت حریف کا سامنا ہو اور مخالفین کے باؤنسر مسلسل آرہے ہوں تب بھی میچ جیتنے کے لیے پُر اعتماد کھلاڑی ڈٹا رہتا ہے۔ عمران خان صاحب!کرکٹ میچ تو ختم ہوگیا، آپ نے ورلڈ کپ جیت لیا، سیاسی ورلڈ کپ بھی آپ کے ہاتھوں میں ہے لیکن کراچی کا میچ باقی ہے جہاں آپ اور آپ کی ٹیم نے مسائل کے انبار اور شہریوں کے راستے میں حائل مشکلات کو ہرانا ہے۔ وزیر اعظم ! ہمیں یقین ہے کہ آپ کراچی والوں کو درپیش مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرائیں گے، میں بطور شہری آپ سے شہر کراچی کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتا ہوں،اِس اعتراف اور امیدکے ساتھ کہ

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شایدکہ اُترجائے تیرے دل میں میری بات

وزیر اعظم صاحب!

شہر کراچی ویسے تو بہت سے مسائل کا مسلسل شکار رہا ہے اور ہے بھی لیکن چند معاملات ایسے ہیں جن کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں سنجیدگی سے دیکھیں اور انھیں حل کرنے کے لیے اقدامات کریں تو شہریوں کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ شہرکا سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت ہے۔کراچی کے شہری کئی دہائیوں سے قلت آب کے مسئلے کو جھیل رہے ہیں۔ پانی کی غیر مساویانہ تقسیم، ارباب اقتدارکی غفلت اور متعلقہ اداروں کے حکام کے امتیازی رویے نے عوام کو شدید پریشانی میں مبتلا کیا ہُوا ہے۔کچھ علاقوں میں پانی کی روزانہ فراہمی اورکچھ علاقوں میں کئی کئی ہفتے پانی نہ آنا بتا رہا ہے کہ فراہمی آب کا نظام تباہ وبرباد ہوچکا ہے یا کیا جاچکا ہے۔

وزیر اعظم کو یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ شہر میں پانی کی کمی نہیں ہے۔ پانی کے ترسے ہوئے لوگ جب ٹینکر والوں سے پانی کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو کبھی یہ جواب نہیں ملا کہ ’’آج پانی نہیں ہے،کل دیکھیں گے‘‘ رابطہ کرنے پر ٹینکر والے فوری طور پرپانی لانے کی حامی بھرتے ہیں اور پانی آبھی جاتا ہے، یہ اور بات ہے کہ شہریوں کو اس کے عوض بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔

خان صاحب! آپ کو یہ مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرانا ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ فراہمی آب کی لائنوں میں موجود رساؤکا بھی مکمل خاتمہ کیا جائے تاکہ ہر شہری کے گھر تک پانی با آسانی پہنچ سکے۔ اس وقت شہر میں جگہ جگہ پانی کی لائنیں مخدوش ہوچکی ہیں، لائنوں میں رساؤ اور غیر قانونی کنکشنوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے بڑی مقدار میں پانی نہ صرف ضایع ہورہا ہے بلکہ حق دار پانی کی نعمت سے محروم بھی ہو رہے ہیں۔ قلت آب اور تقسیم آب کا مسئلہ حل کراکے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم شہر بھرکے لوگوں کی دعائیں لے گی۔ شہرکے مختلف علاقوں میں سویرا ہوتے ہی بچے ، بڑے، بزرگ، خواتین کی بڑی تعداد ہاتھوں میں برتن تھامے سرکاری نلکوں کے پاس قطاریں بنائی نظر آتی ہے، اگر ہرگھر میں پانی پہنچ رہا ہو تو عوام کو اتنی پریشانی اٹھانی نہیں پڑے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ شہرکراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ گلی کوچوں میں بکھرا کچرا ہے جس کی مسلسل موجودگی اور اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے موثر نظام نہ ہونے سے عوام کو بڑی تکالیف کا سامنا ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور خود ساختہ کچرا کنڈیاں ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کی صحت پر بھی انتہائی منفی اثرات ڈال رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر بھر میں کچرا اٹھانے اور اُسے ٹھکانے لگانے کے لیے حکومتی سطح پر جامع اورموثر اقدامات کیے جائیں ، یہ شہرکی خوبصورتی کو مزید بڑھانے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔کراچی کے سبھی شہری پُر امید ہیں کہ وزیر اعظم شہر میں بے ہنگم ٹرانسپورٹ کے نظام کو بھی سدھارنے کے لیے فوری اور اچھے فیصلے کریں گے۔ ٹرانسپورٹ کے نظام کی بے قاعدگیوں، وی آئی پی کلچر ، سڑکوں کی خستہ حالی اور ٹریفک قوانین پر مکمل عملدرآمد نہ کرنے اور نہ کرانے کے رجحان نے مسئلے کی سنگینی بہت بڑھادی ہے جس کی وجہ سے ہر روز لاکھوں شہریوں کو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔

وزیر اعظم صاحب ! آپ نے کراچی کے مختلف علاقوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں کو بھی بروقت مکمل کرانا ہے۔’’گرین لائن بس منصوبہ‘‘ اور دیگر منصوبے شہرکی ترقی اور عوام کی سہولت کے لیے بہت مفید ہیں لیکن ان کا وقت پر مکمل نہ ہونا پریشانی اور درد سَرکا باعث بنا ہُوا ہے۔

سیکیورٹی فورسز نے شہر میں اسٹریٹ کرائمز، لوٹ مارکی وارداتوں پر بہت حد تک قابو پالیا ہے۔کچھ وارداتیں اب بھی ہوتی ہیں جس پر جلد قابو پاکر عوام کو مزید سکھ دیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پارکوں کی بحالی،کھیل کے میدانوں کو آباد کرنا،کراچی کے نوجوانوں کو میرٹ پر روزگار کی فراہمی، شہر میں نئی صنعتوں کا قیام بھی یقیناً آپ کے منصوبوں میں شامل ہوگا۔

خان صاحب ! شہر میں ایک اور بڑا معاملہ سرکلر ریلوے کا ہے، اگر اپنے دورحکومت میں آپ سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کیلی جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کچھ قدم آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ سرکلر ریلوے کے ٹریک پر آبادیاں، تجاوزات بن چکی ہیں جن کے خاتمے کیلیے بہت جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔کراچی والے اس حوالے سے بھی آپ کے اور آپ کی ٹیم کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔وزیر اعظم صاحب ! آپ کے چاہنے والے بہت ہیں جنھوں نے آپ کو ووٹ بھی دیا ہے،آپ کی شخصیت، آپ کی باتوں اور وعدوں پر عوام نے اعتمادکیا ہے لہٰذا اب آپ کا اور آپ کی ٹیم کی ذمے داری ہے کہ وہ اہل کراچی کو درپیش ان سلگتے ہوئے مسائل پر توجہ دیں ۔

٭ منزل پانے کا یقین ہونے آدھی کامیابی ہے۔ ٭زندگی میں جولوگ کوشش نہیں کرتے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوپاتے۔٭ وہ شخص کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا جس میںناکامی کا خوف کامیابی کے نشے کی چاہت سے زیادہ ہو۔٭ کامیابی کا چیک محنت کے بینک سے کسی بھی وقت کیش ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔