آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟

ابن مستقیم  بدھ 22 مئ 2013

گزشتہ دنوں غلطی سے ایک ’’بزرگ‘‘ ٹکرا گئے، اور لگے ہم جیسے ایک نہایت کم علم اور بے صلاحیت آدمی کا امتحان لینے۔ ’’ارے میاں، کیا ہو؟ کیوں ہو؟ اچھا یہ بتائو یہ کیا ہوتا ہے اور وہ کیسے ہوتا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ ہی نہیں بلکہ ملازمت کے لیے انٹرویو لینے والے کسی سخت گیر باس کی طرح وہ لتے لینے پر مُصر نظر آتے تھے اور ہمارے اپنے سے ہر جواب کے بعد وہ نہ صرف ہمارے جواب کی اپنی بے نیام تلوار سے تکہ بوٹی کر ڈالتے بلکہ ساتھ ہی اپنا شخصی قصیدہ پڑھنا بھی نہ بھولتے۔ میں تو یوں کرتا تھا اور میرا عہدہ اتنا بڑا اور میں نے اتنی ترقی کی، اتنی محنت کی اور اتنا مقام پایا وغیرہ ۔ مختصر یہ کہ اس ہی دوران ہم پر چاروں سمت سے برستے برستے ایک اتنی ہلکی گیند دی کہ ہم نے پچ اور ایمپائر ان کے حق میں ہونے کے باوجود اسے ان کی نظروں سے ہی گم کر دیا۔

جب انھیں پتا چلا کہ ہم ایک ناکارہ سے صحافی ہیں اور ایک مقامی ادارے سے منسلک ہیں تو انھوں نے ارشاد فرمایا ’’کتنا چھپتا ہے؟‘‘ ہم نے پہلے تو انھیں یہ یاد دلایا کہ یہ کام تو ادارے کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھتا ہے، ہم تو سرے سے منسلک ہی لکھنے پڑھنے کے کام سے ہیں۔ اس سے تو ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں کہ پرچہ کتنا چھپتا ہے اور کتنا بکتا ہے! دوسرا یہ کہ جس طرح مرد سے تنخواہ اور عورت سے عمر نہیں پوچھنی چاہیے اس ہی طرح کسی متعلقہ بندے سے بھی آپ کو کسی جریدے کی طباعت اور اشاعت کی بابت درست جواب ملنا مشکل ہے۔ یہ سن کر ہم جیسے ناتجربے کار آدمی کے ہاتھوں ان کے چودہ طبق تو ضرور روشن ہوئے تھے مگر ایک نسل نے اگلی نسل کے سامنے ہار ماننا تو کبھی سیکھا ہی نہیں لہٰذا وہ اصرار کرتے رہے کہ یہ سب معلوم چل سکتا ہے۔

ہم نے ان کے علم میں اضافہ فرمایا کہ آج کل ٹی وی چینلوں کے دیکھے جانے کی شرح اور اخبارات و جراید کے پڑھے جانے کی جو شرح بتائی جاتی ہے، وہ تو خود بہت بڑا معمہ ہے۔ یعنی یہ اربوں روپے کا سوال ہے، جس کا جواب زیادہ تر فقط دعوئوں کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے، حقیقت تو شاید خدا ہی کو ہی معلوم ہے۔ بہرحال یہ تو برسبیل تذکرہ ایک بزرگ کی گفتگو کا قصہ تھا جو اس اظہاریے کی وجہ تحریر بنا۔ انھوں نے تو ہم سے ہمارے ادارے کی ’’اوقات‘‘ معلوم کی تھی۔ مگر بہت سے لوگ تو دھڑلے سے ہم ملازمت پیشہ لوگوں سے سوال کر بیٹھتے ہیں کہ ’’آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟‘‘ اور ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کیا کریں۔

ہمارے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ ہم باوجود کوشش کے جھوٹ بولنے پر عبور حاصل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے دماغ میں جھوٹ بنانے والا حصہ بھی باقی دماغ کی طرح ناکارہ ہے۔ تب ہی ہم سے اپنی تنخواہ بتاتے لمحے کچھ نہیں بن پڑتا۔ آخر لوگ کیوں ہم جیسے سفید پوشوں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں۔ ایک تو ہمارے ہوائی روزگار کا کچھ پتا نہیں ہوتا، آج ہے، کل نہیں ہے۔ ہم کس طرح اس نشیب و فراز میں اپنی زندگی کی گاڑی آگے بڑھاتے ہیں یہ صرف ہم ہی جانتے ہیں، مگر لوگ ہیں کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھنے لگتے ہیں کہ کتنی تنخواہ مل رہی ہے؟ اب ہم جھوٹ بول نہیں سکتے اور سچ بولنا نہیں چاہتے۔ ایسی صورت میں تیسری راہ یہ ہوتی ہے کہ بات ٹال دی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس شعبے میں بھی خاصے کمزور واقع ہوئے ہیں۔ بات کس طرح ٹالیں؟ وہ پوچھے کتنی مل رہی ہے؟ ہم کہیں بس ٹھیک ہے۔

پھر ایک اور سوال ہے پھر بھی کتنی ؟ ایک خاص عدد بتا کر پوچھا جاتا ہے آخر ہم کس رقم پر صبح و شام اپنے آپ کو فروخت کرتے ہیں۔ ایسے میں خاصی مشکل ہو جاتی ہے۔ بھئی جب کسی سرمایہ دار یا کاروباری آدمی سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا کہ وہ ماہانہ کتنا کما رہا ہے تو پھر ایک ملازمت پیشہ فرد سے کیوں یہ سوال پوچھا جاتا ہے؟ کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی ادارے کا مالک اور بڑا تاجر کسی کو یہ بتائے کہ وہ کتنے کروڑوں، اربوں اور کھربوں روپے میں کھیل رہا ہے؟ نہیں نا! تو بس پھر کسی ملازمت پیشہ فرد پر بھی اس کے معاش کے نازک معاملات کو چھیڑنے کا حق نہیں جتایا جا سکتا! ہر ایرا غیرا نتھو خیرا یہ پوچھتا ہے کہ کیا کر رہے ہو، جھٹ سے اگلا سوال تنخواہ کے حوالے سے داغ دیتا ہے۔ نہیں معلوم لوگوں کو تنخواہ داروں سے اتنی لگن کیونکر ہے۔

ایک ملازمت پیشہ شخص کے لیے یہ نہایت حساس موضوع ہوتا ہے کہ یار لوگ اس سے اس کے معاش کے بارے میں یوں بے تکلفی کی توقع کریں۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی سفید پوشی کی چادر سرکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر وہ خود سے ان معاملات پر کسی کو شریک راز کرنا چاہے تو اور بات ورنہ یہ بات بالکل درست ہے کہ جس طرح ایک خاتون اپنی عمر کے بارے میں حساس ہوتی ہے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ مرد اپنی تنخواہ کے بارے میں حساس ہوتا ہے اور اسے اچھا بھی نہیں لگتا کہ کسی کے سامنے اپنی آمدنی کا ذکر کرے، مگر لوگوں کو کون سمجھائے۔

تنخواہ کے تعلق سے ایک مسئلہ اور درپیش ہوتا ہے، جب ہم نوکر لوگ دو پیسے زیادہ لینے کی خاطر کسی دوسری جگہ طبع آزمائی کرتے ہیں تو اب تو وہاں بھی معمول بن گیا ہے یہ سوال کہ ’’آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟‘‘ ایک ملازمت کا مارا آدمی کسمسا جاتا ہے، خصوصاً اگر ہمارے جیسا جھوٹ سے بچنے والا ہو کہ کیا جواب دے اور کیوں؟ بھئی آپ دیکھ لو اور بتا دو کہ ہم اتنی تنخواہ دیں گے۔ جواب میں بھائو تائو کر کے ایک رقم طے کر لی جائے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ بہتر سمجھے گا تو بسم اللہ ورنہ اللہ اللہ خیر صلا! یہاں بھی سرمایہ دارانہ سوچ ہوتی ہے کہ اگر آپ پانچ ہزار تنخواہ دے رہے ہیں اور آنے والا بندہ دو ہزار والی نوکری چھوڑ کر آ رہا ہے تو آپ کی خواہش ہو گی کہ بس تین ہزار میں بات بن جائے۔ تب ہی تو تنخواہ پوچھی جاتی ہے۔

ہماری ناقص رائے میں یہ نوکری تو غلامی کی جدید شکل ہے، جس میں ہم خود کو نیلام کر کے اس کا محنتانہ وصول کرتے ہیں۔ آجر ہماری قیمت لگاتا ہے۔ بعض اوقات ہماری قیمت اتنی گر جاتی ہے کہ ہم دو وقت کی روٹی کی خاطر جو مل جائے اس قیمت پر خود کو فروخت کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی ملازم آدمی کا دل اندر سے کہیں زیادہ حساس ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لیے نرم سے نرم الفاظ میں بھی یہ ایک تہذیب سے متصادم فعل ہے کہ کسی آدمی کے اخراجات کے حوالے سے دریافت کیا جائے۔ بہتر راستہ یہ ہے کہ علیک سلیک اور سلام دعا کے ساتھ یہ سوال پوچھنے کا سلسلہ ترک کیا جائے کہ ’’آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔