احتیاط لازم ہے

ایم جے گوہر  بدھ 22 مئ 2013

آرمی چیف کی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ سے حلف برداری کی تقریب سے قبل از خود لاہور جا کر تین گھنٹے طویل ملاقات کو نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی ملاقات میں پاک بھارت تعلقات، امن و امان کی صورت حال، افغانستان سے فوجوں کے انخلاء سمیت ملک کو درپیش چیلنجوں پر فوجی و سیاسی قیادت نے ایک دوسرے کو اپنے موقف سے آگاہ کیا۔

مبصرین و تجزیہ نگار کیانی نواز ملاقات کو مختلف تناظر میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ فوجی و سیاسی قیادت کے درمیان اعتماد سازی سے نہ صرف جمہوریت کو درپیش امکانی خطرات اور شکوک و شبہات کا خاتمہ ہوگا بلکہ علاقائی و عالمی سطح پر وطن عزیز کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے عہدہ برآ ہونے میں فوج اور حکومت کے قدم بہ قدم ساتھ چلنے کی راہ ہموار ہو گی۔ قبل ازیں آرمی چیف اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کے درمیان بھی ایک ملاقات ہوئی جس میں عام انتخابات میں سیکیورٹی فراہم کرنے پر چیف الیکشن کمشنر نے آرمی چیف کے کردار کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس ملاقات کے دوران بھی جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ فوج منتخب اداروں کی عزت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ منتخب ہونے والے نمایندے ملک و قوم کی بھرپور خدمت کریں۔

اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ 11 مئی کے انتخابات سے قبل ملک کے طول و ارض میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث پر امن ماحول میں منصفانہ و شفاف الیکشن کرانا فوج، نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔ شدت پسند عناصر کی جانب سے ملک کی اعتدال پسند سیاسی جماعتوں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو الیکشن مہم سے دور رکھنے کے لیے علی الاعلان دھمکیاں دی گئیں۔ خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے تینوں جماعتوں کے کارکنوں و امیدواروں کو نشانہ بنایا گیا اور سندھ، بلوچستان، کے پی کے میں خوف و دہشت کا ایسا ماحول پید ا کر دیا گیا کہ 11 مئی کو لبرل سوچ کے حامل عوام گھروں سے ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نہ نکل سکیں لیکن آفرین ہے پاک فوج پر کہ اس نے ایک منظم سیکیورٹی پلان کے تحت پورے ملک میں فوجی دستے تعینات کر دیے اور 11 مئی کو عوام کا سیلاب گھروں سے نکلا اور پولنگ اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

عوام نے الیکشن میں بھرپور شرکت سے ثابت کر دیا کہ وہ انتہا پسندوں کے ایجنڈے کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے خوف ووٹ جیسی قومی امانت کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیں گے اور ملک کے تابناک و روشن مستقبل کے لیے اور اسے اقوام عالم میں باعزت مقام دلانے کے لیے بندوق کے بجائے ووٹ کی طاقت سے تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں اور انتہا پسند عناصر عوام کے عزم و حوصلے کے سامنے دیوار نہیں بن سکتے۔ فوج نے 11 مئی کے انتخابات کو پرامن بنانے میں جو کردار ادا کیا اس پر آرمی چیف جنرل کیانی بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں تاہم الیکشن کمیشن ملک میں کلی طور پر منصفانہ و شفاف الیکشن کرانے کے وعدے کی لاج نہ رکھ سکا۔ فخرو بھائی نے کہا تھا کہ ہمیں پر امن ماحول دو ہم منصفانہ الیکشن دیں گے 11 مئی کو پورے ملک میں، ماسوائے اکا دکا واقعات کے، تقریباً ماحول پرامن تھا ، لیکن الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے پورا کرنے میں ناکام رہا ہے یہی وجہ ہے کہ جیتنے و ہارنے والے ہر دو فریق کی جانب سے ایک دوسرے کے حلقوں میں دھاندلی کے الزامات کی آوازیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجائے مدھم ہونے کے بلند ہوتی جا رہی ہیں جن کا ازالہ کرنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔

آرمی چیف کے منتخب اداروں کے احترام کے عزم کا اظہار اور منتخب عوامی نمایندوں سے ملک و قوم کی خدمت کرنے کی امیدیں باندھنا بحیثیت مجموعی اس امر کا اشارہ ہے کہ فوجی قیادت ملکی معاملات میں سیاسی قیادت کے ساتھ پر اعتماد انداز میں کام کرنے کی خواہاں ہے جو یقینا ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل و استحکام کی علامت ہے یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف جنرل کیانی اور مستقبل کے وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان تقریب حلف برداری سے قبل ہونے والی ملاقات کو مثبت انداز سے دیکھا جا رہا ہے۔ جنرل کیانی ملک کے پہلے فوجی سربراہ ہیں جو ماضی کے سیاسی مہم جویانہ ماحول سے نکل کر صرف اپنے پیشہ وارانہ فرائض تک محدود رہے۔ جنرل کیانی کی مثبت سوچ نے ماضی میں فوج پر لگنے والے ’’سیاسی داغوں‘‘ کو دھونے میں بنیادی کردار ادا کیا وہ اول دن سے سیاسی معاملات میں گریز کی پالیسی پر گامزن رہے۔

قوم اور ملک کی سیاسی قیادت بجا طور پر یہ توقع کرتی ہے کہ رواں سال ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد آنے والے پاک فوج کے سربراہ بھی جنرل کیانی کے نقش قدم پر چلیں گے اور اس طرح میاں نواز شریف بھی بطور وزیر اعظم ماضی کی روایت کے برعکس کسی محاذ آرائی کے بغیر فوج کے ساتھ ملکر اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں اپنا قومی کردار ادا کریں گے۔ بعض مبصرین و تجزیہ نگار میاں نواز شریف کے 1997ء کے بھاری مینڈیٹ کے زعم میں ان کے سخت گیر اور بے لچک اقدامات کا تجزیہ کرتے ہوئے تحفظات اور شکوک و شبہات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کیونکہ 11 مئی کے انتخابات میں (ن) لیگ کو ایک مرتبہ پھر سیاسی طاقت حاصل ہو گئی ہے۔ ماضی میں بھاری مینڈیٹ کے زعم میں وہ دائمی اقتدار کا خواب دیکھتے رہے عدلیہ اور فوج کے ساتھ محاذ آرائی کے دروازے کھولے جس کا خمیازہ انھیں 12 اکتوبر 1999ء کو بھگتنا پڑا۔ ملک ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی پٹری سے اتر گیا اور قوم پر 8 سال تک آمریت کے بادل چھائے رہے۔

میاں صاحب کے لیے اقتدار کڑا امتحان اور آزمائش ہے انھیں ماضی کی تلخیوں کو بھلانا اور سیاسی بلوغت و وسعت القلبی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی قوتوں کو افہام و تفہیم و مشاورت کے ساتھ فیصلوں میں شامل کرنا ہو گا تب ہی وہ اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ وہ بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اپنی تقریب حلف برداری میں دیکھنے کی بات کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تنازعہ کشمیر کے باعث تعلقات ہمیشہ مدوجزر سے گزرتے رہے ہیں اس مسئلے پر بھارت کے مثبت طرز عمل کے بعد ہی خوشگوار تعلقات قائم ہو سکتے ہیں، میاں صاحب فرماتے ہیں کہ انھیں امریکا کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے اور وہ ڈرون حملے رکوا سکتے ہیں لیکن امریکا فی الحال ڈرون پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں۔ میاں صاحب کے لیے ڈرون حملے بڑا چیلنج ہیں۔

امریکا 2014ء میں افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ اتحادی فوجوں کی واپسی بعدازاں افغانستان میں قیام امن میں پاکستان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اندرون وطن بھی دہشت گردی و طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی میاں صاحب کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔ آرمی چیف دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دے چکے ہیں، طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے باوجود ایک حد سے آگے بڑھنا میاں صاحب کے لیے مشکل ہو گا۔ میاں صاحب کو اپنے تیسرے دور حکومت میں ہر قدم نہایت سوچ بچار اور پوری احتیاط سے اٹھانا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔