اندرون سندھ موروں کی ہلاکت،تحقیقات کیلیے درخواست دائر

اسٹاف رپورٹر  بدھ 15 اگست 2012
 انسانوں کو زہریلے کیڑوں اور سانپوں سے بچانے کیلیے مور موثر محافظ ہے،درخواست گزار. فوٹو: اتہر خان، ساجد بجیر

انسانوں کو زہریلے کیڑوں اور سانپوں سے بچانے کیلیے مور موثر محافظ ہے،درخواست گزار. فوٹو: اتہر خان، ساجد بجیر

کراچی: تھر پارکر سمیت اندرون سندھ کے مختلف علاقوں میں موروں کی پراسرار ہلاکت کی تحقیقات اور غفلت برتنے والے افسران کے خلاف کارروائی کیلیے سندھ ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی ہے۔

یونائیٹڈ ہیومن رائٹس کمیشن کے رانا فیض الحسن کی جانب سے دائر درخواست میں وزارت جنگلی حیات،کنزرویٹرسندھ جنگلی حیات،سیکریٹری خزانہ سمیت دیگر کوفریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گذشتہ دنوں سندھ کے مختلف علاقوں میں ایک پراسرار بیماری کاشکار ہوکر240سے زائد مور ہلاک ہوگئے،جبکہ صوبائی وزیر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ صرف11مور ہلاک ہوئے۔

درخواست گزار کے مطابق میڈیا پر موروں کی ہلاکت کی اطلاعات کے بعد محکمہ وائلڈ لائف نے اس بیماری کو رانی کھیت کا نام دیا ہے ، لیکن تاحال اس پر قابو نہیں پایا جاسکا،اخباری اطلاعات کے مطابق سانگھڑ میں35،ٹنڈوالہیارمیں22اور میرپورخاص میں 70مور ہلاک ہوئے، سیکڑوں مور اس بیماری کا شکار ہوچکے ہیں مگر مدعاعلیہان کی جانب سے مسلسل مجرمانہ غفلت برتی جارہی ہے۔

درخواست میں کہاگیا ہے کہ صحرائے تھر میں انسانوں کو زہریلے کیڑوں اور سانپوں سے بچانے کیلیے مور موثر محافظ ہے ، وہاں کے شہری انھیں حفاظتی نکتہ نظر سے بھی اپنے قریب رکھتے ہیں ، موروں کی بڑی تعداد میں ہلاکت انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے،صحرائے تھر میں70ہزار سے زائد مور موجود ہیں جن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، موروں کی ہلاکت سے متعلق رپورٹ طلب کی جائے اور یہ بھی پوچھا جائے کہ اس پراسرار بیماری سے بچانے کیلئے بروقت اقدامات کیوں نہ کئے گئے،غفلت برتنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔