چیف صاحب، کچھ وقت ’’اپنوں‘‘ اور ڈاکٹر سعید اختر کیلئے بھی

محمد عمران چوہدری  اتوار 26 اگست 2018
ڈاکٹر سعیداختر ان پاکستانیوں میں سے ہیں جو وطن کی محبت میں دیار غیر کی پرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کر وطن واپس آئے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ڈاکٹر سعیداختر ان پاکستانیوں میں سے ہیں جو وطن کی محبت میں دیار غیر کی پرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کر وطن واپس آئے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ایک ایسے وقت میں جبکہ عدلیہ میں لاکھوں کیسز زیر التوا ہوں، لوگوں کے مرنے کے بعد عدالتیں ان کو بری کررہی ہوں، انصاف کی رفتار اتنی سست ہوکہ عدلیہ کی کارکردگی، “دادا کیس کرے، پوتا فیصلہ لے” جیسے محاوروں کی صورت میں ضرب المثل بن چکی ہو، ایسے وقت میں اگر اعلیٰ عدلیہ میں اصغر خان، سیتا وائٹ اور راحیل شریف کیسز کی سماعت ہو تو جانے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ کو مشغول کیا جارہا ہے۔ اب جبکہ چیف کے جانے کے دن قریب آرہے ہیں، اس سے پہلے کہ عدلیہ ایک مخلص اور محنتی چیف سے محروم ہو جائے اگر اعلی عدلیہ کے ججز اور وکلا بارز اپنی توجہ عدالتی اصلاحات پر مرکوز کریں اور عدلیہ میں ڈاکڑ سعید اختر ماڈل کی گنجائش پیدا کرسکیں تو:

عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں کمی آئے گی؛

انصاف کی بروقت فراہمی ممکن ہوسکے گی؛ اور

ہزاروں خاندانوں کی خوشیاں لوٹ آئیں گی۔

ڈاکٹر سعیداختر صاحب کے بارے میں مختصر طور پر بتاتا چلوں کہ یہ ان پاکستانیوں میں سے ہیں جو وطن کی محبت میں دیار غیر کی پرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کر ملک میں واپس آئے ہیں، اور اب یہ دو ماہ امریکہ میں پریکٹس کرکے اپنے گھر والوں کےلیے سال بھر کی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں اور باقی پورا سال علاج کی استطاعت نہ رکھنے والوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔ اگر عدلیہ میں بھی ایسا ممکن ہوجائے اور قوانین میں ترمیم منظور کرکے اس بات کی اجازت دے دی جائے کہ ججز صاحبان اپنی سالانہ چھٹی میں اپنے علم کی خیرات کے طور پر بےسہارا لوگوں کی وکالت کریں، تو اس سے سسٹم پر حیرت انگیز طور پر دور رس اور خوشگوار اثرت مرتب ہوں گے۔ میری اہل ثروت اور درد مند دل رکھنے والے ججز خاص طور جسٹس شوکت صدیقی صاحب سے استدعا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے آپ کو وقف کرکے پہل کریں کیوں کہ:

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کےلیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ موجودہ چیف کے دور میں عدالتی کارکردگی بہتر ہوئی ہے جس کا منہ بولتا ثبو ت عدلیہ کی تاریخ میں 118 سال بعد ضابطہ دیوانی کے 74 رولز میں ترامیم کی منظوری ہے۔ ان ترامیم کے بعد زیر التو مقدمات میں واضح کمی دیکھنے کو ملے گی، سائلین کی مشکلات کا کسی حد تک مداوا ہو سکے گا، اور سالوں کے فیصلے دنوں میں ممکن ہوں گے۔

چلتے چلتے ایک گزارش ڈاکٹر سعید اختر صاحب کے حوالے سے بھی۔ جیسے ریسکیو 1122 چوہدری پرویز الہی کا شاندار پروجیکٹ تھا، ایسے ہی ڈاکٹر سعید اختر صاحب کا ہاسپٹل شہباز شریف کا وہ شاندار کارنامہ ہے جس سے پاکستان کے غریب عوام مستفید ہوں گے۔ مگر بدقسمتی سے میاں صاحب کے دیگر منصوبوں پر سوالیہ نشان آنے کی وجہ سے ان کی یہ نیکی مشکوک ہو چکی، اس لیے چیف جسٹس صاحب سے استدعا ہے کہ برائے کرم اس کیس پر نظر ثانی کریں۔ کام چلتا رہے اور ساتھ میں انکوائری بھی ہوتی رہے۔ اور اگر اس میں کرپشن ثابت ہوجائے تو مجرموں کو سزا دی جائے اور ذمہ دار بدل دیں، مگر پروجیکٹ بند نہ کریں۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف کوسٹ بڑھ جائے گی بلکہ عوام بھی محروم ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔