انسائیڈ ٹریڈنگ میں اربوں کا نقصان: چیف جسٹس کارروائی کریں، ٹرانسپیرنسی

ایکسپریس ڈیسک  جمعرات 23 مئ 2013
ادارے نے متعدد شکایات کے باوجود جے ایس گلوبل کیپیٹل لمیٹڈ کیخلاف ایکشن نہیں لیا۔ فوٹو: فائل

ادارے نے متعدد شکایات کے باوجود جے ایس گلوبل کیپیٹل لمیٹڈ کیخلاف ایکشن نہیں لیا۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ ایزگرڈ نائن لمیٹڈ کے شیئرز کی ان سائیڈ ٹریڈنگ کے معاملے میں سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، نیشنل بینک، اسٹیٹ بنک، متروکہ وقف املاک بورڈ، این آئی سیل اور38کمپنیوں اور افرادکے خلاف کارروائی کی جائے جن کے باعث خزانے اور سرمایہ داروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو ان سائیڈ ٹریڈنگ کے الزام پر مبنی ایک سنجیدہ نوعیت کی شکایت موصول ہوئی جو ایس ای سی پی آرڈیننس 1969ء کے سیکشن 15-A کی خلاف ورزی ہے۔ جے ایس گروپ کیخلاف شکایت ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے چیئرمین سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیٹی کو 10اپریل 2013ء کو بھیجی گئی تھی۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی درخواست ہے کہ شکایت کا جائزہ لیا جائے جو ایس ای سی پی اور جے ایس جی ایل کیخلاف ہے اور اسکا ثبوت ایس ای سی پی کی اپنی ہی رپورٹ ہے اور ایس ای سی پی آرڈیننس کے سیکشن 15اور 17 کی روشنی میں انکے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان سے 3گنا جرمانہ وصول کیا جائے جو 75ارب سے زائد ہو سکتا ہے جبکہ ان میں ملوث افراد اور کمپنیوں کیخلاف تعزیری کارروائی بھی کی جائے۔

انکوائری ایس ای سی پی کے حکم پر ڈائریکٹر سیکیورٹیز مارکیٹ ڈویژن عمران اقبال پنجوانی اور ڈپٹی ڈائریکٹر مارکیٹ سرویلنس ونگ شازیہ بیگ نے کی انکوائری افسر ایس ای سی پی آرڈیننس کے سیکشن21 اور ایس ای سی پی ایکٹ 1997ء کے سیکشن (2)29کے تحت اس نتیجے پہ پہنچے کہ 2اپریل 2007ء سے 13جولائی 2007ء کے دوران ساڑھے 3ماہ میں اس گروپ کی جانب سے ٹریڈنگ کے دوران شیئرز کی قیمت کو مصنوعی طور پر 22.85روپے تک لے جایا گیا جبکہ 29نومبر 2007ء سے 22اپریل 2007ء کے دوران پونے 5ماہ میں دوبارہ مصنوعی طور پر 35سے 96روپے تک پہنچا دیا گیا۔رپورٹ میں فیصلہ کن طور پر کہا گیا کہ یہ ایک مخصوص کیس تھا جس میں قیمتوں کے یقین کیلئے ساز باز کی گئی۔منصوبے کے تحت اے این ایل کے تحت 107 ملین شیئرز جو ٹوٹل مارکیٹ ٹریڈ کا 42فیصد تھے۔ گروپ نے خرید لئے ان میں سے 88ملین شیئرز جو ٹوٹل ٹریڈ کا 34فیصد تھے۔

پہلے مدت یقینی 2اپریل 2007ء سے 13جولائی 2007ء تک کے دوران فروخت کئے گئے جبکہ 29نومبر 2007ء سے 22اپریل 2008ء کی دوسری مدت میں خریداری کا حجم 158ملین شیئرز تھا جو ٹوٹل مارکیٹ کا 28فیصد رہا جبکہ فروخت کا حجم 156ملین رہا جو ٹوٹل ٹریڈ کا 28فیصد رہا۔ ایس ای سی پی کی رپورٹ میں یہ بھی یقین کیا گیا کہ یہ خرید و فروخت مصنوعی تھی اور جے ایس بی ایل گروپ اس میں شدت کیساتھ ملوث تھا اور دغا بازی کی اس تجارت کا مقصد قیمتیں بڑھانا تھا شیئرز کی خریداری کا 47فیصد جے ایس جی ایل ارکان میں ’Execute‘ کئے گئے جبکہ 51فیصد کی خرید فروخت گروپ ممبرز میں کی گئی جو ایس ای سی پی آرڈیننس کے سیکشن 17اے اور 17سی ’1’ 2’4’5کی خلاف ورزی ہے ایس ای سی پی کی تحقیقات 15اپریل 2009ء کو ختم ہو گئیں تا ہم 4سال تک ان 38کمپنیوں /افراد کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا جبکہ 12اپریل 2013ء کو اسکے متعلق ایک درخواست وزیراعظم کو بھیجی گئی۔

یہ الزامات بہت سنجیدہ ہیں اور سٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کو ان سے نمٹنا چاہیے تھا مگر ایس ای سی پی کی جانب سے انکوائری کے باوجود جس میں ثابت ہو گیا کہ یہ ایک فراڈ تھا تا ہم اعلیٰ حکام کے واضح دبائو کے باعث سیاسی حکومت کے دور میں بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ قومی خزانے کو بھاری نقصان محض اس وجہ سے اٹھانا پڑا کہ اسٹیٹ بینک نے مارکیٹ ویلیو سے دوگنا ادائیگی کی۔ محض جے ایس بروکریج ہائوس کے مالک جہانگیر صدیقی کے بیٹے محمد علی جہانگیر کے ایک کیس میں 4.3ملین ڈالرکا نقصان ہوا۔ٹرانسپرنسی کے 2 خطوط کے نتیجے میں ایس ای سی پی نے اپنی انکوائری رپورٹ پر طوعاً و کرہاً کچھ کارروائی کی اور 4سال بعد ان 23کمپنیوں اور افراد کے خلاف فوجداری کارروائی کا آغاز کیا۔

ان میں جے ایس گلوبل کیپٹل لمیٹڈ ‘جہانگیر صدیقی اینڈ کمپنی لمیٹڈ‘ جہانگیر صدیقی اینڈ سنز لمیٹڈ‘ جہانگیر صدیقی سکیورٹیز سروسز لمیٹڈ‘ جے ایس انویسٹمنٹ لمیٹڈ‘ عزیز فدا حسین اینڈ کمپنی لمیٹڈ‘ سعد سعید فاروقی‘ محبوب علی کلیار ‘ محمد صادق پٹنی‘ شازیہ صادق‘ سید نظام شاہ‘ ہمایوں شیخ‘ عالیہ شیراز منوں‘ آمنہ ہمایوں شیخ‘ نسرین شیخ‘ احمد شیخ‘ محمد ریاض‘ محمد اعجاز‘ عرفان عزیز‘ صبا عرفان عزیز‘ زہرہ ناظم عزیز‘ محمد اقبال اور محمد مبشر حمید شامل ہیں ۔تاہم ایس ای سی پی نے امتیاز برتتے ہوئے ان 15افراد/کمپنیوں کیخلاف فوجداری کیس درج نہیں کرایا جبکہ یہ افراد بھی برابر کے شریک تھے۔

ان میں کروسبی ڈریگن فنڈ‘ جہانگیر صدیقی بینک لمیٹڈ‘ جے ایس ایگریسیو ایسٹ ایلوکیشن فنڈ‘ جے ایس انکم فنڈ‘(سابق یو ٹی پی انکم فنڈ) جے ایس کیپٹل پروٹیکٹڈ فنڈ‘ جے ایس کیپٹل پروٹیکٹڈ فنڈ II‘ جے ایس گروتھ فنڈ (سابق یو ٹی بی گروتھ فنڈ) بیگم آفتاب کھتری‘ زیب النساء‘ محمد ابراہیم‘ معشوق علی کلیار‘ روبینہ ملکانی‘ خالدرفیع‘ رشید صدیقی ‘ اور محمد آصف شامل ہیں۔ایس ای سی پی نے ان تمام 38افراد / کمپنیوں کیخلاف ایس ای سی پی آرڈیننس کے سیکشن 15-B اور ای کے تحت بھی کارروائی نہیں کی جس کے تحت ان افراد سے غیر قانونی منافع کا 3 گنا جرمانہ لیا جا سکتا ہے) سب سیکشن 3کے تحت وہ شخص جو 15-A کی خلاف ورزی کریگا اسے 3سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے یا 3گنا جرمانہ کیا جا سکتا ہے یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں ایسا شخص جو سیکشن 15A-1 کی خلاف ورزی کریگا اسے دس ملین یا حاصل کردہ غیر قانونی منافع کا 3گنا جرمانہ دینا ہوگا۔

ایس ای سی پی ان معاملات پر بھی ان سائیڈ ٹریڈنگ میں ملوث جے ایس گروپ اور اس کے معاونین کیخلاف کارروائی نہیں کر سکا۔ 1یہ کہ ظفر عبداللہ اس عرصے کے دوران جب انسائیڈ ٹریڈنگ ہوئی کروسبی ڈریگن فنڈ کے سی ای او تھے۔2انہیں 17اگست 2012ء کو کمشنر ایس ای سی پی لگایا گیا۔3جے ایس گروپ نے اپریل 2008ء کے بعد متروکہ وقف ٹرسٹ کو ایزگرڈ کے ٹرم فنانس سرٹیفکیٹ تقریباً 1 ارب روپے میں بیچے جو مارکیٹ کی قیمت سے 4گنا زائد تھے۔ جے ایس گروتھ فنڈ اور جے ایس لارج کیب فنڈ نے 688‘606’1 پی آئی سی ٹی شیئرز 101.59روپے میں بنک جولیس ہائر اینڈ کمپنی لمیٹڈ سوئٹرز لینڈ کو 24فروری 2012ء کو فروخت کئے ارو یہ کہ درحقیقت جولیس ہائر اینڈ کمپنی نے یہ شیئر بطور جے ایس جی سی ایل جے ایس گروپ کیلئے خریدے کیونکہ  اسکے ساتھ انکے تجارتی روابط تھے۔12فروری 2009ء کو ایاز نیازی کے چیئرمین بننے کے فوری بعد جے ایس پرنسپل فنڈ میں این آئی سی ایل کی 2ارب روپے کی غیر محتاط سرمایہ کاری یک باعث 255.243ملین کا نقصان ہوا۔

این آئی سی ایل نے آئی پی او کی ضمانت کے ذریعے 13مارچ 2009ء کو جے ایس پرنسپل سکیورٹیز فنڈ میں کم از کم ساڑھے  3سال کے لئے 2ہزار ملین روپے کی سرمایہ کاری کی اس کی سفارش این آئی پی ایل کی سرمایہ کاری کمیٹی کے پہلے اجلاس میں 12مارچ 2009ء کو کی گئی اور چیئرمین نے 13مارچ کو اس کی منظوری دی۔ اس کی میعاد 3سال مقرر کی گئی۔ سرمایہ کاری کی شرائط کے مطابق مدت تکمیل پر ادائیگی وہی ہو گی جو میچورٹی کے ابتدائی سرمائے کے تناسب سے تقسیم کرنے کے لئے مخصوص منافع کے تناسب سے مقرر کی گئی تھی۔

بعدازاں30اپریل 2010ء کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے 69ویں اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مارکیٹ انٹیلی جنس رپورٹس اس سرمایہ کاری کے حق میں نہیں جا رہیں‘ اور یہ رقم واپس نکال لی جائے جس کے مطابق 20جولائی 2010ء کو سرمایہ کاری واپس لے لی گئی ۔ایف اینڈ اے ڈویژن کی طرف سے میوچل فنڈز کی سرمایہ کاری کے حوالے سے شواہد دستیاب نہیں ہوئے یہ بات قابل ذکر ہے کہ جے ایس انوسٹمنٹ کی پیشکش12مارچ2009ء کو موصول ہوئی۔ سرمایہ کار کمپنی نے اسی روز اجلاس بلایا اور چیئرمین نے اگلے ہی روز یعنی13مارچ کو سرمایہ کاری کی منظوری دی۔جبکہ اس عمل میں قانون کے مطابق پروفیشنل فنڈ منیجرز کی بھی خدمات حاصل نہیں کی گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔