الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی پاکستان اور لندن رابطہ کمیٹیاں تحلیل کردیں

ویب ڈیسک  جمعرات 23 مئ 2013
ایم کیوایم کی نئی رابطہ کمیٹی اور دیگر تنظیمی شعبوں کا انتخاب ہفتے کے روز پارٹی کے جنرل ورکرز اجلاس میں ہوگا۔ فوٹو فائل

ایم کیوایم کی نئی رابطہ کمیٹی اور دیگر تنظیمی شعبوں کا انتخاب ہفتے کے روز پارٹی کے جنرل ورکرز اجلاس میں ہوگا۔ فوٹو فائل

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ایم کیو ایم پاکستان و لندن رابطہ کمیٹیاں اور نائن زیرو کی تنظیمی کمیٹی تحلیل کردی ہیں۔

ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو میں تحلیل شدہ رابطہ کمیٹی اور مختلف شعبہ جات کے ذمہ داران کے اجلاس کے دوران الطاف حسین نےانہیں پاکستان ولندن رابطہ کمیٹیاں اور نائن زیرو کی تنظیمی کمیٹی کی تحلیل کے فیصلے سے آگاہ کیا، ایم کیوایم کی نئی رابطہ کمیٹی کا انتخاب ہفتے کے روز پارٹی کے جنرل ورکرز اجلاس میں کیا جائے گا، نئی رابطہ کمیٹی کے انتخابات تک جماعت کے تنظیمی معاملات کی نگرانی کے لیے عارضی طور پر 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ عبوری کمیٹی میں عامر خان، خالد مقبول صدیقی، کنور نوید جمیل، ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر صغیر احمد، ڈاکٹر نصرت ندیم، محمد اشفاق منگی ، سیف یار خان، گلفراز خان خٹک، یوسف شاہوانی، افتخاررندھاوا اور محترمہ ممتاز انوار شامل ہیں۔ تحلیل شدہ رابطہ کمیٹی کے ارکان جماعت کے تنظیمی معاملات کی نگرانی کے لئے عبوری کمیٹی کی معاونت کریں گے۔اجلاس کے دوران الطاف حسین نے عارضی کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ انہیں 24 گھنٹے میں نائن زیرو کی نئی تنظیمی کمیٹی کے لئے مجوزہ ناموں سے آگاہ کریں۔

واضح رہے کہ الطاف حسین نے کہا تھا کہ زمینوں اور مکانوں پر قبضے میں ملوث افراد کے لیے ایم کیو ایم میں کوئی گنجائش نہیں۔ پارٹی میں رہتے ہوئے کسی کو ٹھیکے داری کی اجازت نہیں۔ پارٹی میں تطہیر کا عمل شروع ہوچکا ہے جومکمل تطہیر تک جاری رہے گا۔  تاجر سے لے کر ٹھیلے والے تک اگر کسی ذمہ دار یا کارکن نے کسی سے چندہ مانگا تو اسے تحریک کی بنیادی رکنیت سے خارج کر دیا جائے گا، اسی بنیاد پر انہوں نے کارکنوں کی جانب سے موصول ہونے والی شکایات کے تحت کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے سابق ذمہ دار حماد صدیقی،  شکیل عمر، سلیم تاجک اور فاروق سلیم کو تنظیم سےغیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا ہے جبکہ کارکنوں کو ان سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔