- سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
جاپان میں نایاب دھات کے وسیع ذخائر کی دریافت
جاپانی سائنس دانوں نے بحرالکاہل کی تہہ میں نایاب دھات کے ذخائر دریافت کیے ہیں۔
ان ذخائر سے بہت ہی کم لاگت میں نایاب دھات حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک ایسی دریافت ہے جو ہائی ٹیک انڈسٹری کے لیے خام مال کی حیثیت رکھنے والی اس دھات پر چین کی اجارہ داری کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ دھات جدید ترین ہتھیاروں کے نظام کی تیاری میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ دھات کے ان بیش قیمت ذخائر کو دریافت کرنے والی ٹیم کے سربراہ جاپان کی ٹوکیو یونی ورسٹی کے پروفیسر یاؤشیرو کاٹو تھے۔ وہ اس دریافت پر کہتے ہیں،’’ہم نے سمندر کی تہہ سے صرف چار میٹر کی گہرائی میں یہ ذخائر دریافت کیے ہیں۔ یہاں اس دھات کی اتنی مقدار موجود ہے جس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ ‘‘
اگرچہ امریکا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں سترہ نایاب دھاتوں کی کان کنی ہورہی ہے مگر وہ ابھی تک بھاری عناصر جیسے ڈسپروشیم، ٹربیئم، یوروپیم اور یربیئم وغیرہ کی مناسب مقدار تلاش نہیں کرسکے ہیں جوکہ سب سے اہم دھاتی عناصر ہیں۔ نایاب دھاتوں کی مارکیٹ پر چین کی تقریباً مکمل اجارہ داری ہے۔ اس نے 1990ء کی دہائی میں اس مارکیٹ سے اپنے حریفوں کو باہر کردیا تھا۔ نایاب دھاتوں کی مجموعی مقدار کا 97 فی صد چین مہیا کرتا ہے۔
2009 ء میں چین نے ان دھاتوں کی رسد محدود کرکے دنیا کو حیران اور پریشان کردیا تھا۔ چین کے اس اقدام پر امریکا اور یورپ نے شدید احتجاج کیا تھا اور عالمی تجارتی تنظیم میں قانونی شکایات بھی درج کروائی تھیں۔ چین کا موقف تھا کہ ان دھاتوں کی اسمگلنگ کی روک تھام اور ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے رسد میں کمی کی گئی تھی۔ پروفیسر کاٹو کہتے ہیں کہ اس اقدام کا مقصد غیرملکی کمپنیوں کو چین میں پلانٹ لگانے پر مجبور کرنا تھا کہ اگر آپ کوہماری دھاتیں درکار ہیں تو پھر یہاں فیکٹری لگانی ہوگی۔
جاپان کی ’’ایجنسی فار میرین۔ارتھ سائنس‘‘ اور ٹوکیو یونی ورسٹی کے سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم نے بحرالکاہل کے وسطی علاقے میں پہلی بار دو برس قبل نایاب دھاتی ذخائر دریافت کیے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیرآب ذخائر سطح زمین پر موجود ذخائر سے ایک ہزار گنا زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ فرانس کی حدود میں Tahiti کے قرب و جوار میں ہیں۔
جاپان میں دریافت ہونے والے تازہ ذخائر Minami-Torishima کے جزیرے کے آس پاس سطح سمندر سے 5700 میٹر کی گہرائی میں ہیں۔ اگرچہ گہرائی بہت زیادہ ہے تاہم یہ ذخائر اتنے کثیف ہیں کہ انھیں ہوا کے دباؤ کے ذریعے بہ آسانی نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی لمبا چوڑا طریقہ اختیار نہیں کرنا پڑے گا۔ پروفیسر کاٹو کا کہنا ہے کہ ان ذخائر سے دھاتوں کے حصول میں دو برس لگ جائیں گے۔ دھات کا پچاس فی صد سے زائد اسپیکٹرم کے بھاری سرے پر ہے۔ یہ مقدار چین کی اہم دھاتوں کی مقدار سے دگنی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں دریافت ہونے والی دھات بائی پروڈکٹ تھوریم کے بغیر ہے جو دھاتوں کو بے انتہا سخت کرکے ان کی کان کنی مشکل بنادیتی ہے۔
جاپان ان نایاب ارضی دھاتوں کا سب سے بڑا صارف ہے۔ ان دھاتوں کی عالمی مقدار کا نصف مختلف جاپانی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں گاڑیوں، الیکٹرونکس اور ماحولیاتی صنعتیں شامل ہیں۔ جاپان، چین پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ ان دھاتوں کی رسد میں کمی کو چین ایک ’ پریشر ٹول‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جاپان نایاب ارضی دھاتوں کے حصول کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ویت نام کے اشتراک سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا تھا مگر اس منصوبے سے ہلکی نایاب دھاتیں ہی حاصل ہوسکی ہیں۔
ریسرچ ٹیم کا کہنا ہے کہ اگر ایک بحری جہاز کی گنجائش کے مساوی دھات نکال لی گئی تو جاپان کی ایک سال کی ضروریات بہ آسانی پوری ہوجائیں گی، اور اس کا چین پر انحصار بھی محدود ہوجائے گا۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس دھات کے استخراج سے ان کا مقصد جاپان کی تمام ضروریات پوری کرنا نہیں بلکہ چین کو قیمتیں کم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
نایاب ارضی دھاتیں ہائی ٹیک انقلاب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ دھاتیں موبائل فون، آئی پیڈ، پلازما ٹی وی اور گاڑیوں کے انجن میں استعمال ہونے والے کنورٹرکے علاوہ ان گنت مصنوعات میں استعمال ہوتی ہیں۔ ڈسپروشیئم دنیا میں سخت ترین مقناطیس ہونے کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ علاوہ ازیں یہ دھات انتہائی بلند درجۂ حرارت پر بھی پائیداری قائم رکھتی ہے۔
نیوڈائمیم ہبرڈ کاروں میں استعمال ہوتی ہے جب کہ ٹربیئم برقی بلبوں میں توانائی کی 40 فی صد تک بچت کرتی ہے۔ نایاب ارضی دھاتیں گائیڈڈ میزائلوں، فوجی طیاروں، مصنوعی سیاروں، رات میں دیکھنے والے آلات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ امریکا کے M1A2 ابرامز ٹینکوں اور Aegis Spy-1 راڈار کی تیاری میں سیمیریئم بنیادی جزو کی اہمیت رکھتی ہے۔
چین کی جانب سے نایاب دھاتوں کی رسد محدود کرنے کے اقدام نے امریکا کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیا تھا۔ اور اب امریکی محکمۂ دفاع اور محکمۂ توانائی نے بھی ان دھاتوں کے حصول کے متبادل ذرائع کی تلاش کو اپنی ترجیح بنالیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔