جاپان میں نایاب دھات کے وسیع ذخائر کی دریافت

ندیم سبحان  جمعرات 23 مئ 2013
ہائی ٹیک انڈسٹری کے خام مال کی مارکیٹ پر چین کی اجارہ داری کے خاتمے کی توقع۔  فوٹو : فائل

ہائی ٹیک انڈسٹری کے خام مال کی مارکیٹ پر چین کی اجارہ داری کے خاتمے کی توقع۔ فوٹو : فائل

جاپانی سائنس دانوں نے بحرالکاہل کی تہہ میں نایاب دھات کے ذخائر دریافت کیے ہیں۔

ان ذخائر سے بہت ہی کم لاگت میں نایاب دھات حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک ایسی دریافت ہے جو ہائی ٹیک انڈسٹری کے لیے خام مال کی حیثیت رکھنے والی اس دھات پر چین کی اجارہ داری کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ دھات جدید ترین ہتھیاروں کے نظام کی تیاری میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ دھات کے ان بیش قیمت ذخائر کو دریافت کرنے والی ٹیم کے سربراہ جاپان کی ٹوکیو یونی ورسٹی کے پروفیسر یاؤشیرو کاٹو تھے۔ وہ اس دریافت پر کہتے ہیں،’’ہم نے سمندر کی تہہ سے صرف چار میٹر کی گہرائی میں یہ ذخائر دریافت کیے ہیں۔ یہاں اس دھات کی اتنی مقدار موجود ہے جس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ ‘‘

اگرچہ امریکا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں سترہ نایاب دھاتوں کی کان کنی ہورہی ہے مگر وہ ابھی تک بھاری عناصر جیسے ڈسپروشیم، ٹربیئم، یوروپیم اور یربیئم وغیرہ کی مناسب مقدار تلاش نہیں کرسکے ہیں جوکہ سب سے اہم دھاتی عناصر ہیں۔ نایاب دھاتوں کی مارکیٹ پر چین کی تقریباً مکمل اجارہ داری ہے۔ اس نے 1990ء کی دہائی میں اس مارکیٹ سے اپنے حریفوں کو باہر کردیا تھا۔ نایاب دھاتوں کی مجموعی مقدار کا 97 فی صد چین مہیا کرتا ہے۔

2009 ء میں چین نے ان دھاتوں کی رسد محدود کرکے دنیا کو حیران اور پریشان کردیا تھا۔ چین کے اس اقدام پر امریکا اور یورپ نے شدید احتجاج کیا تھا اور عالمی تجارتی تنظیم میں قانونی شکایات بھی درج کروائی تھیں۔ چین کا موقف تھا کہ ان دھاتوں کی اسمگلنگ کی روک تھام اور ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے رسد میں کمی کی گئی تھی۔ پروفیسر کاٹو کہتے ہیں کہ اس اقدام کا مقصد غیرملکی کمپنیوں کو چین میں پلانٹ لگانے پر مجبور کرنا تھا کہ اگر آپ کوہماری دھاتیں درکار ہیں تو پھر یہاں فیکٹری لگانی ہوگی۔

جاپان کی ’’ایجنسی فار میرین۔ارتھ سائنس‘‘ اور ٹوکیو یونی ورسٹی کے سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم نے بحرالکاہل کے وسطی علاقے میں پہلی بار دو برس قبل نایاب دھاتی ذخائر دریافت کیے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیرآب ذخائر سطح زمین پر موجود ذخائر سے ایک ہزار گنا زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ فرانس کی حدود میں Tahiti کے قرب و جوار میں ہیں۔

جاپان میں دریافت ہونے والے تازہ ذخائر Minami-Torishima کے جزیرے کے آس پاس سطح سمندر سے 5700 میٹر کی گہرائی میں ہیں۔ اگرچہ گہرائی بہت زیادہ ہے تاہم یہ ذخائر اتنے کثیف ہیں کہ انھیں ہوا کے دباؤ کے ذریعے بہ آسانی نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی لمبا چوڑا طریقہ اختیار نہیں کرنا پڑے گا۔ پروفیسر کاٹو کا کہنا ہے کہ ان ذخائر سے دھاتوں کے حصول میں دو برس لگ جائیں گے۔ دھات کا پچاس فی صد سے زائد اسپیکٹرم کے بھاری سرے پر ہے۔ یہ مقدار چین کی اہم دھاتوں کی مقدار سے دگنی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں دریافت ہونے والی دھات بائی پروڈکٹ تھوریم کے بغیر ہے جو دھاتوں کو بے انتہا سخت کرکے ان کی کان کنی مشکل بنادیتی ہے۔

جاپان ان نایاب ارضی دھاتوں کا سب سے بڑا صارف ہے۔ ان دھاتوں کی عالمی مقدار کا نصف مختلف جاپانی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں گاڑیوں، الیکٹرونکس اور ماحولیاتی صنعتیں شامل ہیں۔ جاپان، چین پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ ان دھاتوں کی رسد میں کمی کو چین ایک ’ پریشر ٹول‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جاپان نایاب ارضی دھاتوں کے حصول کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ویت نام کے اشتراک سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا تھا مگر اس منصوبے سے ہلکی نایاب دھاتیں ہی حاصل ہوسکی ہیں۔

ریسرچ ٹیم کا کہنا ہے کہ اگر ایک بحری جہاز کی گنجائش کے مساوی دھات نکال لی گئی تو جاپان کی ایک سال کی ضروریات بہ آسانی پوری ہوجائیں گی، اور اس کا چین پر انحصار بھی محدود ہوجائے گا۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس دھات کے استخراج سے ان کا مقصد جاپان کی تمام ضروریات پوری کرنا نہیں بلکہ چین کو قیمتیں کم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔

نایاب ارضی دھاتیں ہائی ٹیک انقلاب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ دھاتیں موبائل فون، آئی پیڈ، پلازما ٹی وی اور گاڑیوں کے انجن میں استعمال ہونے والے کنورٹرکے علاوہ ان گنت مصنوعات میں استعمال ہوتی ہیں۔ ڈسپروشیئم دنیا میں سخت ترین مقناطیس ہونے کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ علاوہ ازیں یہ دھات انتہائی بلند درجۂ حرارت پر بھی پائیداری قائم رکھتی ہے۔

نیوڈائمیم ہبرڈ کاروں میں استعمال ہوتی ہے جب کہ ٹربیئم برقی بلبوں میں توانائی کی 40 فی صد تک بچت کرتی ہے۔ نایاب ارضی دھاتیں گائیڈڈ میزائلوں، فوجی طیاروں، مصنوعی سیاروں، رات میں دیکھنے والے آلات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ امریکا کے M1A2 ابرامز ٹینکوں اور Aegis Spy-1 راڈار کی تیاری میں سیمیریئم بنیادی جزو کی اہمیت رکھتی ہے۔

چین کی جانب سے نایاب دھاتوں کی رسد محدود کرنے کے اقدام نے امریکا کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیا تھا۔ اور اب امریکی محکمۂ دفاع اور محکمۂ توانائی نے بھی ان دھاتوں کے حصول کے متبادل ذرائع کی تلاش کو اپنی ترجیح بنالیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔