مالیاتی ڈسپلن قائم کرنے کی ضرورت

رفاہی اداروں کے نام پر بھی اربوں روپے کا ٹیکس بچایا جا رہا ہے، اس جانب بھی توجہ دی جانی چاہیے۔


Editorial August 26, 2018
رفاہی اداروں کے نام پر بھی اربوں روپے کا ٹیکس بچایا جا رہا ہے، اس جانب بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں گزشتہ روز وفاقی کابینہ کا دوسرا اجلاس ہوا ہے، جس میں ابتدائی 100 دن کے ایکشن پلان پر عملدرآمد کی حکمت عملی اور سرکاری ملازمین کی ہفتے کی چھٹی ختم کرنے سمیت 7 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔

وفاقی کابینہ نے صدر، وزیراعظم اور وزراء کے صوابدیدی فنڈزختم، اورنج لائن ٹرین، لاہور، اسلام آباد اور ملتان میٹرو کے فرانزک آڈٹ اور سی پیک منصوبوںکو ہرصورت مکمل کرنے کی منظوری دے دی ہے، وفاقی کابینہ نے سرکاری دفتری اوقات کار صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کرنے اور ہفتہ کی چھٹی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیراعظم بیرون ملک سفر کے لیے خصوصی طیارہ استعمال نہیں کریںگے، پرائم منسٹر، صدر، آرمی چیف، چیف جسٹس پاکستان اور دیگر اہم شخصیات کوکمرشل پروازوں میں فرسٹ کلاس میں سفر کرنے کی سہولت ختم کر دی گئی ہے۔ اب یہ افراد زیادہ سے زیادہ کلب کلاس میں سفر کر سکیں گے۔

کابینہ نے وزارت کیڈ ختم کرنے،کچی آبادیوں کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے اور وزارت اطلاعات ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد میڈیاکو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہاکہ گزشتہ حکومت میں کابینہ کی میٹنگ نہیں ہوتی تھی اب تواتر سے ہو رہی ہیں،آج کے اجلاس میں کچی آبادیوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا، وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹاسک فورس بنائی جائے گی جوکچی آبادیوںکے معاملات دیکھے گی ، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ غریب لوگوں کو ترجیح نہ دی تو معاملات نہیں چل سکیںگے۔ ان کا کہنا تھا وفاقی کابینہ نے سب سے اہم فیصلہ صوابدیدی فنڈز ختم کرنے کا کیا ہے۔

نئی حکومت اب قائم ہو گئی ہے اور اس نے اپنے امور انجام دینے شروع کردیے ہیں۔ اب اس کے سامنے مسائل حل کرنے کا بڑا چیلنج ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت ملک کو درپیش مسائل کو کیسے اور کتنے عرصے میں حل کرتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ نئی حکومت اپنے طور پر کوشش کر رہی ہے کہ مالی بحران پر قابو پایا جائے، وفاقی کابینہ نے جو فیصلے کیے ہیں وہ اس سلسلے کی کڑی ہیں۔

صدر، وزیراعظم اور وزراء کے صوابدیدی فنڈز ختم کرنا، درست سمت میں فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور آنے والی حکومت کو بھی اس کی پیروی کرنا پڑے گی۔تاہم ابھی حکومت کو اس سمت میں مزید دلیرانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بھی خزانے پر بڑا بوجھ ہیں، پارلیمنٹیرینز کو جو ڈویلپمنٹ فنڈز سالانہ بنیادوں پر جاری کیے جاتے ہیں، یہ بھی ختم کر دیے جانے چاہئیں اور متعلقہ محکموں کو فعال کیا جانا چاہیے۔ اس اقدام سے بھی اربوں روپے کی بچت ہو گی اور ترقی کے ذمے دار ادارے بحال ہوجائیں گے۔

ایم این ایز، ایم پی ایز اور وزراء کو سرکاری ملازمتوں کے جو کوٹے دیے جاتے ہیں انھیں بھی ختم کیا جانا چاہیے۔ سرکاری افسروں کوپلاٹوں کی الاٹمنٹ بھی ختم ہونی چاہیے۔ جب حکومت ان کی تنخواہ اور دیگر مراعات دیتی ہے تو اس میں پلاٹ کی الاٹمنٹ نہیں ہونی چاہیے ۔اس کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کو پلاٹوں کے دینے کا اختیار بھی ختم کیا جانا چاہیے۔ اگر حکومت کفایت شعاری اختیار کرے تو پھر کسی حد تک مالیاتی ڈسپلن قائم کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اقدامات کے باوجود ملک کو جو معاشی مشکلات درپیش ہیں، ان سے نکلنے کے لیے مزید انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔

پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، وزیر خزانہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ ادھر آثار ایسے نظر آ رہے ہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کی جانب سے پاکستان کو گرمجوشی نظر نہیں آ رہی۔ اس لیے پاکستان کی چوٹی کی سطح سے کفایت شعاری کا آغاز ضروری ہے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانا بھی ہے اور اس کا نظام بھی بہتر بنانا ہے۔

ملک کے قبائلی علاقوں کے امراء جو کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر علاقوں میں کاروبار کر رہے ہیں، بیرون ملک کاروبار کر رہے ہیں، وہ انکم ٹیکس کی صورت میں ملک کو کچھ نہیں دے رہے، جن علاقوں میں نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں چل رہی ہیں، ان کی خرید وفروخت ہو رہی ہے، وہ علاقے بھی ملکی خزانے میں رقم جمع نہیں کرا رہے بلکہ خزانے کا نقصان کر رہے ہیں۔ نئی حکومت کو ٹیکس قوانین کا نفاذ پورے ملک پر کرنا چاہیے۔ رفاہی اداروں کے نام پر بھی اربوں روپے کا ٹیکس بچایا جا رہا ہے، اس جانب بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ تب جا کر ملک میں مالیاتی ڈسپلن قائم ہوگا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں