اسٹیٹس مین کے چیلنجز

شاہد سردار  اتوار 26 اگست 2018

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں جمہوری حکمرانوں نے کبھی وہ اعلیٰ معاملہ قائم نہیں رکھا کہ جس کا تقاضا ان کا منصب کرتا تھا۔

ہمارے حکمرانوں کی غالب اکثریت نے عوام کی خوشحالی، ہر پاکستانی کے لیے تعلیم، بے بیمارکے لیے علاج، ہر پیاسے کو پانی اور ہر بالغ شخص کے لیے روزگار کو یقینی بنانے کے بجائے انھوں نے اپنے ذاتی مفادات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی اور اسی وجہ سے ہمارے ملک میں جمہوریت بد عنوانی کے لائسنس کے مترادف بنی چلی آرہی ہے تاہم حالیہ قومی انتخابات اور بالخصوص کراچی کے نتائج نے پاکستان پر سکتہ طاری کردیا۔

شاید قدرت نے انہونی کو ہونی قرار دینا تھی۔ بہت سے ووٹ جسے قوم کی مقدس امانت بھی کہاجاتا ہے وہ کراچی میں کچرے کے ڈھیروں پر چلتے ہوئے دیکھے گئے۔ کراچی کے شہریوں نے کچرے کے ڈھیروں پر جلائی جانے والی قوم کی کچھ مقدس امانتوں کو آگ سے بچالیا تو پتا چلا یہ ایسے بیلٹ پیپرز تھے جن پر پیپلزپارٹی کے انتخابی نشان تیر اور ایم کیو ایم پاکستان کے انتخابی نشان پتنگ کے سامنے مہریں ثبت تھیں۔

بیلٹ پیپرکے تحفظات کے لیے فول پروف انتظامات کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن جب یہ بیلٹ پیپلز کچرے کے ڈھیروں پر جلتے نظر آئیںگے تو پھر یہ کیا غلط نہ ہوگا کہ فول پروف انتظامات نہیں کیے گئے بلکہ پوری قوم کو فول بنانے کے انتظامات کیے گئے۔

وزیراعظم بننے والے عمران خان میں سچ بولنے اور اپنی غلطیوں کے اعتراف کی جرأت موجود ہے، ان کے جس عزم نے ہمیں سب سے زیادہ سحر زدہ کیا وہ ریاست مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی تشکیل ہے۔ ریاست میں ہونے والی دھاندلیوں اور بالخصوص کراچی میں بعض جگہوں سے ملنے والے جلے ہوئے ووٹوں کی شفاف انکوائری کا سب سے پہلے کا سب سے پہلے اہتمام کر جائیں۔ کیونکہ دنیا بھر میں صدیوں سے یہ دستور ہے کہ مخالف کی رائے اور سوچ کو احترام دیا جائے، چاہے آپ کو مخالف سے جتنا بھی اختلاف ہو کسی کی رائے کا احترام کرکے اس کے موقف کو مان کر ہی جمہوری معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

سچے معاشرے اور ان کے اندر سچ بولنے والے غیر متعصب لوگ ہی قوم کو صحیح راہ دکھاتے ہیں۔ دنیا کے مہذب ممالک میں سچ کی بنا پر سماج کو ٹھیک کرنے کی بنیاد رکھی گئی۔ اپنی غلطیوں، خامیوں اورکوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے آئندہ سے انھیں ٹھیک کرنے سے ہی نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔

پاکستان کے مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد ان پر بڑی ذمے داریاں عائد ہوگئی ہیں اور ان کے لیے چیلنجز بھی بے شمار ہیں۔ لوگ ان سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ پاکستان کو بہتر حکمرانی دیںگے۔ کرپشن کے خلاف احتساب کے عمل کو تیز کریںگے، اقربا پروری کا خاتمہ کریںگے اور میرٹ اور شفافیت کا نظام قائم کریںگے۔

عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانا ہے جو تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے اگر معیشت کو فوری طور پر نہ سنبھالا گیا تو عمران خان کے لیے اپنے باقی ایجنڈے پر کام کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ان کے لیے دوسرا بڑا چیلنج احتساب کا ہے، انھیں احتساب کا ایک ایسا نظام قائم کرنا ہوگا جو متنازعہ نہ بنا سکے۔

عمران خان کے لیے تیسرا بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اپنے خلاف کوئی بڑی سیاسی تحریک چلنے کے حالات نہ بننے دیں کیونکہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں ان کی شدید مخالفت میں ہیں اور چوتھا اور بڑا فوری چیلنج یہ ہوگا کہ عوام کو قانون اور انصاف کے اداروں کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں سے فوری ریلیف ملے تاکہ انھیں یہ حساس ہو کہ کوئی تبدیلی رونما ضرور ہوئی ہے اورکسی سفارش کے بغیر انھیں انصاف میسر آسکتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سیاسی استحکام کسی ملک کی کامیابی کی اولین ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے۔ کیونکہ سیاسی استحکام کا تعلق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلق سے جڑا ہوتا ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات اچھے نہ رہے جیسا کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہوتا رہا تو سیاست اور طرز حکمرانی میں استحکام نہیں آئے گا۔

عمران خان کو اس باریکی کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔ انھیں چاہیے کہ وہ تمام سیاست دانوں کو ظہرانے، عشایے پر مدعو کرکے ملک کے مسائل اور اس کے حل پر ان کے مشورے حاصل کریں، بیرون ملک سے سیاست دانوں کے دن کو وطن منتقل کرنے کی اپیل کریں لیکن شاید یہ کٹھن کام وہ کر نہ سکیں کیونکہ جس ملک کے سیاستدان بیرون ملک پڑے اپنے ڈالر بچانے کے لیے وزیراعظم قربان کردیں کیا وہ قانون کے شکنجے کے بغیرکبھی اثاثے واپس لائیںگے؟

بہرکیف حالات کیسے ہی ہوں نو منتخب وزیراعظم پاکستان پر اعتماد ہے کہ ملک کی سمت تبدیل کردیںگے۔ ہماری دانش میں وہ یا تو زیادہ پراعتماد ہیں یا پھر معصوم یا پھر ان کے پاس شاید جادوکی چھڑی ہے، جس کی مدد سے ملک کی طرز حکمرانی، معیشت، صحت، تعلیم، بیورو کریسی وغیرہ جیسے پیچیدہ مسائل وہ جلد حل کرنے کے خواہاں ہیں یا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ عمران خان کو پرانے وزیراعظم ہائوس کے ساتھ ساتھ پرانے وزرائے اعظم کی پرانی غلطیوں سے بھی پرہیزکرنا ہوگا مگر نہ ان کا انجام بھی پچھلے وزرائے اعظم سے کچھ مختلف نہ ہوگا۔

ہمارے ملک کے پچھلے اور حالیہ حالات میں یہ رائے عام بن چکی ہے کہ طاقتور اور حساس اداروں اور سیاست دانوں کی لڑائی ملک کے لیے سم قاتل ہے۔ ان کی لڑائی سے ملک کو ہرگز کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں ہر ادارہ اپنی اپنی متعین حدود میں رہ کر اپنا مجوزہ کام سرانجام دیتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ہرکوئی وہ کام کر رہا ہے جو اس کے ذمے ہے ہی نہیں۔ اپنی حدود سے چھلانگ لگاکر دوسروں کی راہ میں روڑے اٹکانا شاید قومی روایت بن چکی ہے۔

باعث عبرت اور باعث نصیحت ہے یہ بات کہ حکمران دیانت سے محروم ہوجائیں اور انصاف سے منہ موڑ لیں تو ادارے کیا ملک برباد ہوجاتے ہیں ۔گزشتہ طویل برسوں میں وطن عزیز میں بربادی اور زوال کی آندھیوں نے کیسے کیسے دلفریب گلستانوں کو اجاڑ کر رکھ دیا یہ کون نہیں جاتا۔ ایسا دراصل اس لیے بھی ہوا کہ ہمارے ہاں اونچی سطح پر باز پرس اور احتساب کا کوئی انتظام فروغ پاسکے اس لیے کسی بھی حکمران کوکسی بھی قسم کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ جوکچھ کرتا رہا کبھی اس کے بارے میں اس سے پوچھا بھی جائے گا؟

اس ملک نے خود پر حکمرانی کرنے والوں کو تو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ، لیکن ایک عام انسان کو اس ملک میں ساکت و جامد بناکر رکھ دیا گیا، ہمارے معاشرے کا ایک عام انسان اس کاندھے کی تلاش میں ہے جس پر وہ اپنا سر رکھ کر اپنا دکھ بیان کرسکے لیکن کوئی کندھا دینے کو تیار نہیں، کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔ پھر بھی ہم سمیت بہت سے لوگوں کے اندر سے یہ خوش گمانی پھوٹ رہی ہے کہ ہماری نئی منتخب ہونے والی قومی وقت کے تیور پہچان چکی ہے اور تاریخ سے سبق سیکھنے کا داعیے بھی رکھتی ہے۔

ویسے بھی پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت نے بہت ہی تپتی دھوپ میں اپنی زندگی گزاری ہے اسی لیے شاید خوابوں کی کوئی پرچھائیں ان کے پاس نہیں۔ یوں بھی جو لوگ اپنی زندگی کی ٹوٹی ہوئی کرچیوں پر سے گزر کر جاتے ہیں وہ لہو لہان ہوجاتے ہیں اوسان کے لیے مہربانی کا ایک لفظ بھی سائبان کی طرح سے ہوتا ہے۔ عمران خان کے پاس اگر ہمارے عام انسانوں کے لیے واقعی کوئی اچھا پیکیج ہے تو یہ ان کا بڑا پن ہی کہا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔