پردیس کی عید!!!

شیریں حیدر  اتوار 26 اگست 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ عید مبارک… ‘‘ سلام کے بعد میںنے انتہائی جوش سے کہا تو جواب میں خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔

’’ اوہ … اچھا، آج عید ہے، میں ابھی کال کرتا ہوں آپ کو!! ‘‘ تھوڑی سوچ کے بعدجواب آیا ۔ کال بند ہو گئی، میںسوچ میں پڑ گئی کہ اس رویے کا کیا مطلب ہوا۔ چند منٹوں کے بعد جوابی کال آ گئی۔

’’ اصل میں ہم آج عید نہیں منا رہے… ہماری مسجد میں عید کی نماز کل ہو گی!!‘‘ وضاحت کی گئی ۔

’’ اوہ تو آپ نے کل کی چھٹی لی ہے؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’ نہیں کل بھی میں نماز پڑھ کر کام پر آؤں گا!! ‘‘

’’ اوہ… تو ہم آپ کو عید کب ملیں گے؟ ‘‘۔

’’ ویک اینڈ پرمل لیتے ہیں! ‘‘ جواب ملا۔

’’ مگر تب تو عید ختم ہو چکی ہو گی!!‘‘

’’ جب بھی ملاقات ہو جائے، تبھی عید ہوتی ہے!! ‘‘ لفظ ’’ عید ‘‘ کی خوبصورت وضاحت کی گئی۔

’’ سو تو ہے… ‘‘ فون بند کرتے ہوئے میں نے کہا۔

سوئے اتفاق بیٹی نے اس روز کے لیے کام سے چھٹی لے رکھی تھی تا کہ عید کے دن کی کچھ تو تکریم ہو۔

’’ یہاں کی حکومت کو چاہیے کہ جب مسلمانوں کا کوئی تہوار ہو، عید الفطر اور عید الضحی تو کم از کم ان کے لیے ایک دن کی چھٹی کا اعلان کر دے! ‘‘ میںنے بیٹی سے کہا۔

’’ پہلے ہمار ے مسلمان دنیا بھر میں ایک دن عید کرنے کا فیصلہ تو کرلیں ! ‘‘ بیٹی نے تلخی سے کہا، ’’ یہاں بھی سب ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آپ کی عید کب ہے، بیس منٹ کی ڈرائیو پر جو مساجد ہیں وہاں پر عید کی نماز کل ہو رہی ہے۔ پاکستانی جہاں بھی جاتے ہیں ہماری سوچ اور نظریہ وہی رہتا ہے۔ پاکستان میں ایک صوبہ ہمیشہ پہلے چاند دیکھ لیتا اور باقی پاکستان سے ایک دن پہلے روزہ رکھتا اور عید کرتا ہے۔ دنیامیں جہاں جہاں بھی پاکستانی ہیں وہ اس رواج کو قائم رکھے ہوئے ہیں تو یہاں کی حکومت کس طرح انھیں ایک دن کی چھٹی دے دے کہ وہ عید کر لیں ؟ ‘‘

’’ ہوں … سو تو ہے۔ کم از کم عید قرباں کے لیے تو کوئی دو رائے نہیں ہونا چاہییں، اس کا وقوع حج سے اگلے دن ہوتا ہے، جس دن سعودی عرب میں حج ہوتا ہے، اس سے اگلے دن دنیا بھر میں عید منا لینا چاہیے ۔ حج کی تاریخ کا اعلان تو بہت پہلے ہوجاتا ہے۔ کئی بار اس پر بولا اور لکھا جا چکا ہے کہ چاند کی روئیت کے لیے جدید سائنسی طریقوں کو اپنا لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ فضائی آلودگی کے باعث چاند کو انسانی نظر سے دیکھنا ممکن نہیں رہا، دوربینوں کی مدد سے چاند دیکھنے کی بجائے ہم یہ کام اگر سائنسدانوں کے حوالے کر دیں تو اختلافی عیدوں کا انعقاد کم ہو جائے گا ! ‘‘

’’ ہمارے کام پر بھی لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں کہ ہم لوگ علیحدہ علیحدہ عیدیں کیوں کرتے ہیں؟ انھیں بتایا جائے کہ اسی طرح ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ چاند دیکھے بغیر عید نہیں کی جاسکتی تو انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ ہم ابھی تک ہزار سال پہلے کا نظام رائج کیے ہوئے ہیں ، چاند دیکھنے کے لیے دیار غیر میں بھی رویت ہلال کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں! ‘‘ بیٹی نے بتایا، ’’ اگرہم اختلاف برائے اختلاف کو چھوڑ دیں تو شاید یہاں کی حکومت کو بھی علم ہو کہ ہمارے لیے کوئی دن اہم ہے اور ہمیں اس روز چھٹی ملنا چاہیے! ‘‘

یہ بات درست ہے کہ چاند کا دیکھا جانا اہم ہے، مگر کہیں پر بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ایک رویت ہلال کمیٹی بنا کر اس کا اجلاس منعقد کروا کر اس وقت تک روزہ نہ رکھا جائے یا عید نہ کی جائے جب تک کہ چاند نہ دیکھا جائے۔ جہاں ہم باقی سار ے کاموںکے لیے جدید سائنسی ایجادات پر اعتماد کرتے ہیں اور انھیں استعمال بھی کرتے ہیں تو چاندکے لیے کیوں نہیں ؟ ہم نے اپنا مذاق خود ہی پوری دنیا میں بنوا کر رکھ لیا ہے۔ ( کیا اس پر کوئی فتوی لیا جا سکتا ہے یا کوئی اجتہاد کیا جا سکتا ہے؟ )

عید کا دن… پردیس میں یوں اترا کہ جہاںسلام کرنے کے لیے جانے کا سوچتے، وہیں سے معلوم ہوتا کہ سب لوگ کام پر گئے ہیں۔ اسے باقی دنوں سے الگ طور منانے کے لیے… ہم اس سرد سی ہوا والی دوپہر میں ایک دیسی ریستوران میں لنچ کے لیے چلے گئے، وہاں سے آکر باقی سارا دن پاکستان میں کالیں کرتے عید کا دن گزر گیا۔ پاکستان میں عید کی گہما گہمی کو یاد کرتے رہے۔ اس سے قبل ہم نے دو عیدالفطر کینیڈا میں کیں مگر عید الضحی یہاںمنانے کا پہلا اتفاق تھا۔ عام دنوں جیسا ایک دن، جس میں کوئی چیز مختلف نہ تھی!!

یہاں ہر مقیم سارے خاندان کے افراد کی طرف سے قربانیاں پاکستان میں ہو رہی تھیں کیونکہ یہاں اس کا کوئی آسان نظام نہیں ہے۔ سب نے پاکستان میں اپنے اپنے حوالوں سے، اپنے خاندان یا جاننے والوں کو رقوم بھیج رکھی تھیں، جن کی طرف سے بکرا تھا انھوں نے بھی اور جن کا گائے میں حصہ تھا انھوں نے بھی۔ سب کا خیال تھا کہ وہاں ان کے دیہات میں اس کی زیادہ ضرورت ہے، غریب لوگوں کو کھانے کو ان کی قربانی کا کافی سارا گوشت مل جاتا ہے کیونکہ قربانی کرنیوالے خود اس میں سے کچھ نہیں لے رہے ہوتے۔ اچھا ہے، ان کا بھی فائدہ ہے اور یہاں والوں کا بھی، صرف رقوم بھیج کر وہ کتنے کشٹ سے بچ جاتے ہیں۔ قربانی کا جانور خریدنا، اسے رکھنا اور قصائیوں کے نخرے عید کے دن کون سا کم ہوتے ہیں ، وہ رقوم بھیج کر قربانی کی سنت کی تقلید کر لیتے ہیں ۔

اگر انھیں یہاں پر قربانی کرنا پڑے تو یہاں پر بکرے خریدنا کون سا آسان یا سستا ہے… ایک دفعہ اپنے کام سے چھٹی کریں کہ قصاب کے پاس جا کر اپنے جانور کا انتخاب کر کے اسے ادائیگی کر کے اپنے جانور کے گلے میں اپنے نام کی تختی لگوا کر آنا ہوتی ہے۔ پھرعید کے دن کام سے ایک اور چھٹی کر کے کون اپنے جانور کا گوشت لینے جائے، اپنے حصے کا گوشت سنبھالے کون، اسے بانٹنے کے لیے یہاں پر غرباء کو کون تلاش کرے اور اپنے عزیزوں کو کہاں کہاں بانٹنے کے لیے جائے؟ سو یہاں عید کا مطلب یہی ہے کہ کام پر جانے سے پہلے ، جن کے لیے ممکن ہو وہ عید کی نماز پڑھیں، کسی کافی شاپ سے کافی لیں اور کام پر چلے جائیں۔ کام سے لوٹ کر آئیں اور کوئی بہت قریبی عزیز ہو جسے عید کے دن ملنا ہو تو ایک نیا جوڑا پہنیں اور اسے ملنے کو چلے جائیں، جن خاندانوں میں عید کی شام کو سارے خاندان کے اکٹھے ہونے کا رواج ہے ان میں اس کا تردد کیا جاتا ہے کہ سب کو مدعو کر کے ایک اچھا سا ڈنر ہوجاتا ہے… اس کاانعقاد بھی کم ہوتا ہے اگر عید ویک اینڈ پر نہ ہو تو۔

یہی وہ وقت ہے جب پردیس میں رہنے والوں کو دیس کی یاد ستاتی ہے اور اپنے بچپن کی وہ عیدیں یاد آتی ہیں جن کا انھوں نے کئی ہفتوں سے انتظار کیا ہوتا ہے۔ والدین کاوہ پیار یاد آتا ہے، مائیں انھیں اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے مسجد بھیجتی تھیں، نماز سے لوٹ کر سب کو عید مبارک کہہ کر گلے ملنا… بڑوں سے شفقت کے ساتھ ساتھ عیدی کے ملنے کی خوشی، اپنے بزرگوں سے سدا خوش رہنے اور جگ جگ جینے کی دعاؤں کے خزانے بٹورنا… وہ عید کے میلے، وہ سویاں اور شیر خورمہ جو عید کا خاص استعارہ ہوتا ہے۔

عید الفطر گزرتے ہی بقر عید کے لیے قربانی کے لیے جانور کے حصول کی تگ و دو۔ عید قرباں تک ہر روز اسکول سے لوٹ کر اپنے اپنے قربانی کے جانوروں کو نہلانا، ٹہلانا اور ان کی سیوا کرنا۔ان جانوروں سے ایک پیار کا رشتہ قائم ہو جاتا تھا، یہی وہ جذبہ قربانی کی اصل روح ہوتا تھا۔ عید سے دو روز پہلے انھیں مہندی لگا کر سجانا، ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر انھیں قربان گاہ تک لے کر جانا اور ان کے حلقوم پر چھری پھرتے ہی سانس کا حلق میں اٹک جانا… یوں محسوس ہونا جیسے کسی نے ہماری بہت عزیز چیز ہم سے لے لی ہو۔ قربانی دیتے تھے تو پتا چلتا تھا کہ قربانی دی ہے حالانکہ اس قربانی میں ہماری جیب سے کچھ بھی نہیں جاتا تھا، صرف ہمارے گھر سے وہ ایک جانور جاتا تھا جس سے دو ماہ سے محبت اور انسیت کا رشتہ قائم ہو جاتا تھا۔

اب پلے سے رقم خرچ کر کے بھی قربانی کرتے ہیں تو وہ جذبات ہی دل میں نہیں ابھرتے… کیونکہ ہمارے ہاں بھی قربانی کے جانور کو گھر لانے، اسے سال بھر تو کجا چند ماہ تک بھی پالنے کا رواج نہیں رہا ۔ قصابوں کے پاس ہی بکنگ کا وہاں بھی رواج ہو گیا ہے، عید کے دن اپنی باری سے جا کر گوشت لے آتے ہیں، اسے خود ہی پکا کر کھالیتے ہیں اور اپنے فریزر بھی بھر لیتے ہیں مگر خوشی کا احساس مفقود ہو گیا ہے۔ بچوں کو تو اس گوشت سے بکرے اور گائے کی smell آتی ہے سو وہ چکھتے بھی نہیں ۔ چند برس بیتیں گے تو وہاں بھی یہی حال ہو جائے گا، ہمیں گوشت اپنے گھرمیں لا کر اپنے ہاتھوں سے اسے تین حصوں میں تقسیم کرنا بھی وبال لگنے لگے گا۔ دیس اور پردیس کی عیدیں ایک جیسی ہو جائیں گی!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔