کراچی سے دبئی (آخری حصہ)

نسیم انجم  اتوار 26 اگست 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

اس کی وجہ فائر ورکس کا رنگ و نور اور دل کشی تھی، رات گئے ہم اپنے اس ہوٹل میں پہنچے جسے دس روز کے لیے بک کروایا تھا اس کا نام Auris Hotel Boutique تھا اس کی خاصیت یہ تھی کہ اس میں ضروریات زندگی کا ہر سامان موجود تھا۔ حتیٰ کہ فریج میں کھانے پینے کی اشیا اور کچن میں کوکنگ رینج کے ساتھ برتن اور پتیلیاں بھی تھیں جو پکانا چاہیں پکا سکتے تھے، مگر ہم دبئی میں چولہا ہنڈیا کرنے تو آئے نہیں تھے جو بھاڑ سے نکل کر چولہے میں گرتے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ تھی کہ صبح ہوتے ہی ہم 2017 میں داخل ہوچکے تھے یعنی ایک رات میں ایک سال کا سفر طے کرلیا۔ ناشتے سے فراغت کے بعد ہمیں برج خلیفہ اور دبئی مال جانا تھا، دبئی چونکہ ترقی یافتہ اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہے اور یورپی ممالک کے حسین اور جدید شہروں کے مقابلے میں بالکل پیچھے نہیں ہے، بلکہ اپنی بلند و بالا عمارتوں کے حوالے سے اول درجہ رکھتا ہے اس وقت دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت برج خلیفہ ہے۔ یہ لمبی عمارت صحرا میں اگنے والے پھول کی شکل میں تعمیر کی گئی ہے، اسے مصنوعی جزیروں والی زمین بھی کہا جاتا ہے۔

اگر ہم میٹرو ٹرین سے سفر کریں تو یہ میٹرو اسٹیشن دبئی مال سے ملحق ہے، دبئی میں عوام کی آسانی کے لیے بے شمار قابل ذکرکام کیے گئے ہیں، یہاں ٹرانسپورٹ کا نظام بے حد آرام دہ اور پرسکون ہے۔ میٹرو ٹرین دبئی کے تجارتی مراکز، سینما ہال، ہوٹلز، ایئرپورٹ تک پہنچاتی ہے، نہ سڑک کراس کرنا اور نہ ہی دھوپ میں پیدل چلنے کی ضرورت، ایئرکنڈیشنڈ تمام راستوں پر نصب ہیں، لہٰذا جتنا بھی سفر کریں بے حد خوشگوار ثابت ہوتا ہے ۔

برج خلیفہ کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح آئے ہوئے تھے اور سب قطار میں لگے تھے تاکہ ٹکٹ حاصل کرسکیں، برج خلیفہ کو دبئی کے Icon کی حیثیت حاصل ہے اور یہی کشش دور دراز کے ملکوں سے سیاحوں کوکھینچ لاتی ہے۔ نظم ونسق کے اعتبار سے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی مثال آپ ہیں ، یہاں بھی ایسا ہی حال تھا جب ہم لفٹ میں جانے کے لیے راہداری سے گزر رہے تھے تو ہمیں ایک بہت خوبصورت اسٹوڈیو نظرآیا جہاں ہم سب کی تصاویر اتاری گئیں اور واپسی پر وہی تصاویر ہمیں تھمادی گئیں، لیکن قیمتاً، قیمت کی ادائیگی تصویروں کی وصولی پر مشروط تھی، جس نے قیمت ادا کی اسے اس کی یادگار تصاویر مل گئیں، برج خلیفہ پر لفٹ کے ذریعے سفرکرنے کے بعد جب ہم 828 m کی بلندی پر پہنچے تو ہمیں کافی مایوسی ہوئی اس کی وجہ چھت کے سوا کچھ نہ تھا، البتہ نیچے دیکھنے کا تجسس اور کھلونے نما کاروں اور دوسری گاڑیوں کو دیکھنے کا اپنا ہی لطف تھا اور چاروں طرف کا منظر واضح تھا۔

دبئی میں ہریالی اور مصنوعی آبشاریں ہیں، لیکن موسم صحرا ہونے کی وجہ سے گرم ترین ہے۔ شیخ محمد بن راشد اسے گلوبل ولیج بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں انھوں نے عوام کو خوشیاں فراہم کرنے کے لیے 2016 میں وزیر برداشت اور وزیر خوشی کی وزارتیں بنائیں۔

واپسی پر دبئی مال میں گھومنے اور کچھ نہ کچھ خریدنے کا بھی ارمان پورا کیا، دبئی مال بھی دنیا کا سب سے بڑا مال ہے اور یہ 2008 میں خرید و فروخت کے لیے خریداروں اور تاجروں کے لیے کھولا گیا۔یہ وسیع و عریض رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے، ہوٹل، دکانیں، ایکیوریم دل فریب اور منقش چھتوں سے آراستہ ہے، جس منزل پر جائیں وہاں کی آرائش خصوصاً در و دیوار اور چھتوں کی زیبائش مختلف اور جاذب نظر ہے، ستاروں، نگینوں، سونے، چاندی کی رنگت اور مختلف نقش و نگار سے اسے مرصع اور قابل توجہ بنادیا گیا ہے، چیزیں قیمتی اور مہنگی ہیں لیکن کچھ نہ کچھ تو خریدنا ہر شخص کے لیے باعث تسکین ہوتا ہے۔

متحدہ عرب امارات سات اہم ترین ریاستوں پر مشتمل ہے جب کہ ابوظہبی، عرب امارات کا دارالخلافہ ہے آبادی کے اعتبار سے ابو ظہبی دوسرے نمبر پر ہے۔ شارجہ، عجمان، راس الخیمہ بھی تجارت اور صنعت وحرفت کے حوالے سے اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات 2 دسمبر 1971 کو برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تھا، ماضی میں اس کی حیثیت صحرا کی سی تھی، یہ لوگ اونٹ پالتے یہی ان کے حصول رزق کا ذریعہ تھا، لیکن 11 سال میں شیخ محمد المختوم نے اس صحرا کو ترقی کی منزلوں پر پہنچا دیا۔ جس طرح برج خلیفہ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، اسی طرح برج عرب سے بھی لوگ واقفیت رکھتے ہیں اور سیاح وہاں کا وزٹ ضرور کرتے ہیں۔ یہ عمارت بھی قابل دید ہے۔ برج عرب کو کشتی کے بادبان کی شکل دی گئی ہے اور یہ ایک لگژری ہوٹل ہے۔

Beach Jumeirah ایک خوبصورت ترین ساحل ہے۔ یہاں بھی اونچی اونچی بلڈنگوں کا جال بچھا ہوا ہے جن میں ہلٹن ہوٹل ساحل کے سامنے ہے ہوٹل تو اور بھی کئی ہیں مگر ’’ہلٹن‘‘ کا نام اور بلڈنگ زیادہ نمایاں ہے۔ بیچ جمیرہ کے گرد نواح کے مناظر کا نظارہ کرنے کے لیے ایک خوبصورت طشتری یا چھتری نما جھولے کا انتظام کیا گیا ہے جس کا نام Flying Cup تھا رات کا ٹائم تھا سامنے ساحل کا نظارہ، گرم ہواؤں کے تھپیڑے اور فلائنگ کپ کی سیر دل والے شوق و ذوق سے کر رہے تھے، اف اتنی سخت گرمی، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے تپتی ہوئی ریت کا غازہ مل دیا ہو، اس وقت آئسکریم کھانا ضرورت میں شامل ہوگیا تھا۔

ہلکے مسالوں کے کھانے، مکھنی دال تندوری روٹیاں ہمارے کھانوں کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ JLT، کلسٹر ڈی میں ہماری رہائش تھی اس کے نزدیک ’’ٹرک اڈہ‘‘ کے نام سے بھی ایک ہوٹل تھا وہاں کے کھانے بھی ہماری سمجھ سے اس لیے باہر تھے کہ خوشبو اور ذائقے سے تقریباً محروم تھے۔ گوشت کی ڈشز پھر بھی اچھی اور لذیذ تھیں۔

دبئی کا سیون اسٹار ہوٹل Atlantis بھی اپنی شان و شوکت کے اعتبار سے دیدہ زیب تھا، پھولوں سے لدے ہوئے اشجار آنکھوں کو لبھانے اور وہاں کچھ دیر بیٹھنے کی دعوت دے رہے تھے۔ اسی ہوٹل میں The Lost Chambers Acquarium تھا، سیون اسٹار ہوٹل میں جانے کا مقصد ایکوریم کی تیز رفتار دوڑتی بھاگتی مچھلیوں کو ہی دیکھنا تھا، نیلی، نارنجی، آسمانی اور مختلف قسم کی رنگین مچھلیاں کمرے نما ایکوریم میں موجود تھیں۔

دبئی میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جسے خوب سجایا بنایا گیا ہے اور جو سیاحوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی پوری قوت رکھتا تھا، اس جگہ کا نام “Lamer” ہے یہ جگہ جادوئی منظر پیش کر رہی تھی اندھیرے اور روشنی کے سنگم اور گہرے سناٹے نے پراسراریت کو بڑھا دیا تھا، لوگوں کی تعداد بھی کم تھی۔ دبئی میں سیر و تفریح کے مقامات اور راستوں کو روشن درختوں اور بجلی کے جگ مگ کرتے ہوئے قمقموں سے سجایا گیا ہے جس کی وجہ سے سفر کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔

دبئی کی پبلک لائبریری میں اردو کی کتابوں کا قحط تھا البتہ انگریزی اور عربی کی کتابیں ہر موضوع پر دستیاب تھیں۔ دبئی میں پولیس دیکھنے کو نہیں ملی، اس کی وجہ قانون کی بالادستی اور شرعی قوانین کا نفاذ ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ بھی دبئی میں کھیلی جاتی ہے اور ICC کا ہیڈ کوارٹر بھی ادھر ہی ہے۔ دبئی کو جدید ترین شہر بنانے میں خلیفہ راشد بن محمد کی کاوشوں کا دخل ہے، یہاں ہر نسل و ملک کے لوگ آباد ہیں، اسی لیے مشرق سے زیادہ مغرب کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ یہاں جوئے کے اڈے، کیسینو اور نائٹ کلب بھی موجود ہیں۔

سب سے زیادہ ملازمت یا کاروبار کرنے والے انڈین ہیں جن کی تعداد 53 فیصد ہے باقی امریکن اور پاکستانی تین فیصد ہیں، بنگلہ دیشی امریکیوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں، الحمد للہ جولائی 2018 میں بھی اللہ نے سفر کا موقع دیا اور اس بار ہماری واپسی کی تاریخ 14 اگست تھی۔ دبئی جانے کے بعد اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوگیا کہ یہ امیر ترین ریاست ہے اور محفوظ ترین ریاست ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔